توسیع پسندی بمقابلہ نا عاقبت اندیشی: عبدالسلام عاصم

0
توسیع پسندی بمقابلہ نا عاقبت اندیشی: عبدالسلام عاصم

عبدالسلام عاصم

توسیع پسند اسرائیل اور نا عاقبت اندیش حماس دونوں کو پتہ ہے کہ وہ بالترتیب منظم حربی اور چھاپہ مار کارروائیوں کو اپنے حلیفوں سے تو منوا سکتے ہیں لیکن متعلقہ اور متاثرہ عوام کا بھلا نہیں کر سکتے۔باوجودیکہ اگر وہ اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں تو وہ علمی تجزیے کے مطابق شعور سے نہیں فتور سے کام لے رہے ہیں اور جب تک وہ اس گمراہی کے خود ساختہ حصار سے باہر نہیں نکلتے، اُنہیں عملاً اس سچ کا قائل نہیں کیا جا سکتا کہ زندگی میں کہیں ’’مطلق اور بے خلل امن‘‘ نہیں۔ البتہ آزمائشوں سے بہتر طریقے سے نمٹنے اور مسلسل ترقی کرنے کے بے شمار پر امن طریقے ضرور موجود ہیں۔ کسی الجھے یا الجھائے ہوئے مسئلے کا محض قبائلی تشدد کے راستے سے حل ڈھونڈنا کم سے کم آج کے ترقی یافتہ دور سے کسی طرح ہم آہنگ نہیں۔
ویسے بھی دیگر اقوام کی طرح آل ابراہیم بھی اب قبائلی عہد میں نہیں جی رہے ہیں کہ وہ ہر فیصلے کیلئے میدان جنگ سے ہی رجوع کریں۔ حماس کی تازہ چھاپہ مار کارروائی اور اسرائیل کی جوابی بمباری میں دونوں طرف سیکڑوں سے ہزاروں کی طرف تیزی سے بڑھتی تعداد میں عام انسانی جانوں کو ہی نقصان پہنچا ہے اور پہنچتا جارہا ہے۔ بچے، بوڑھے، جوان دیکھتے ہی دیکھتے لاشوں میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر رابطہ برائے انسانی امور نے ایک بیان میں اس بات پر تشویش ظاہر کی ہے کہ بے گھر ہونے والے عام فلسطینیوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ میڈیا کے مطابق بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 3 لاکھ 38 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام(ڈبلیو ایف پی) کے ترجمان کے مطابق غزہ کی صورت حال اس لیے اور بھی تباہ کن ہوگئی ہے کہ محصور شہر میں خوراک، پانی اور بجلی کی فراہمی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔
ایسی تباہی میں بھی دونوں طرف کے حربی منصوبہ ساز اور عاملوں کا اب تک بال تک بیکا نہیں ہوا۔ زندگی کے تقدس کو پامال کرنے والی آخر یہ کون سی لڑائی ہے جسے جیتنے کیلئے ہر کوئی اللہ پاک کی مدد مانگ رہا ہے۔ کوئی اس کا نام لے کر منظم حملے کر رہا ہے تو کوئی تکبیر کے نعروں کے ساتھ اپنے بے حکمت ردعمل کو جائز ٹھہرا رہا ہے۔ دونوں طرف حملوں کی زد میں آنے سے بچنے کیلئے عام فلسطینی اور اسرائیلی بھی اللہ پاک سے ہی پناہ مانگ رہے ہیں۔
سیاسی اور زمینی اختلافات ختم کرنے یا اُنہیں کم سے کم کرنے کیلئے مذاکرات پر جنگ کو ترجیح دینے والوں کو تنہائی میں سوچنا چاہیے کہ انفرادی طور پر جہاں ان کی زندگی کو ہر آنے والے کل کیلئے دوام حاصل نہیں اُسی طرح اجتماعی طور پر یہ دنیا بھی فانی ہے جس کے ساتھ وہ اس طرح پیش آرہے ہیں جیسے ان کی سوچ ہی ہمیشہ کیلئے غالب آئے گی۔ محدود ایام والی دنیا اور زندگی میں آخر جارح اسرائیلی حلقے اور حماس کے جنگ باز ایسا کیا لامحدود فائدہ ڈھونڈ رہے ہیں جسے انجوائے کرنے کیلئے وہ اتنی زندگی بھی نہیں رکھتے جتنا وقت وہ پُرامن بقائے باہم کے بجائے پُر تشدد جنگ میں ضائع کر رہے ہیں۔
موجودہ عہد مذاکرات کا عہد ہے جس کا ثبوت جرمن اتحاد کی شکل میں ہم سب کے سامنے ہے۔ مغربی اور مشرقی جرمنی کا انضمام کسی کی ہار اور کسی کی جیت کا نتیجہ نہیں بلکہ اُن کوششوں کا حاصل ہے جن کوششوں میں شامل ذہنوں نے ایک دوسرے کو زیر کرنے کی سازش پر ہم آہنگی کے حق میں کارگر منصوبوں پر محنت کی تھی اور اس سے حاصل ہونے والی کامیابی نسلِ آئندہ کو سونپ کر خود اچھے تذکروں میں ڈھل گئے۔ ذات پر کائنات کو ترجیح دینے والے از خود اخبارات کی سرخیوں کی زینت نہیں بنتے بلکہ ان کا کام تذکرے میں رہتا ہے جیسا کہ اِن سطروں میں آپ دیکھ رہے ہیں۔
فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے کا عمل سے مربوط ذومملکتی حل1993میں نکال لیا گیا تھا۔ اِس حل کو کاغذ سے میدانِ عمل تک لانے میں جو خلل پڑتا گیا وہ زندگی کے خواستگاروں نے نہیں ڈالا، کم و بیش دونوں طرف کے موت کے تاجروں نے کام بگاڑا۔ اس طرح دیکھا جائے تو حقیقی اور سائنٹفک علم سے مالامال لیکن زندگی کے امن رخی تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر اسرائیل اور عقائد سے غیر صحت مند طور پر مغلوب حماس اپنے اپنے عوام کی حقیقی نمائندگی نہیں کرتے۔ دونوں کو بس اپنی محدود سوچ عزیز ہے جس کے بل پر وہ ایک دوسرے پر غالب آنا چاہتے ہیں اور اس کیلئے وہ اپنے عوام کے جذبات کا کاروبار کرنے پر مجبور ہیں۔ یہودیوں اور مسلمانوں کی ایک دوسرے سے نفرت کے مشترکہ کاروبار کو علم اور عقائد دونوں کا استحصال کرنے والوں نے ہمیشہ فروغ دینے کا کام کیا ہے۔ ایک جانب دونوں طرف کے ظلمت پسندوں نے نفرت کی نئی نئی تشریحات پیش کیں تو دوسری طرف حقیقی اور سائنسی ذہانت سے نت نئی تباہ کن ایجادات کا کام لیا گیا۔ یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں۔ دونوں طرف کے کاروباریوں نے ایک دوسرے کی منفی سوچ سے بھی خوب استفادہ کیا ہے۔ تازہ ایپی سوڈ میں اس کا بھر پور مظاہرہ کیا جارہا ہے۔
غزہ پٹی میں تادم تحریر مسلسل اسرائیلی بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ دونوں طرف کی ہلاکتیں سیکڑوں سے ہزاروں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ایسے میں کیا اسرائیل کی صیہونی حکومت یہ بتانے کی جرأت کرے گی کہ کوئی چالیس لاکھ کی آبادی والے متعلقہ خطے کے ہر فلسطینی شہری کا نام و نشان مٹا کر یا انہیں وہاں سے بے دخل کرکے کیا اُس جگہ یہودی آبادکاری ممکن ہے!اور کیا کسی ہمسائیگی کے بغیرایک صیہونی ملک کا حتمی قیام عمل میں لایا جا سکتاہے! شدت پسند حماس سے بھی یہ سوال کیا جائے کہ کیا متعلقہ خطے میں تقریباً نوے لاکھ کی اسرائیلی آبادی کو دریائے نیل میں غرق کیا جا سکتا ہے! اور کیا اس طرح کے وقفے وقفے سے پیدا کی جانے والی صورت حال میں حماس اور اسرائیل دونوں اُس بازیابی پر اتفاق سے پھر جانے کے متحمل ہیں جس کے لیے ماضی کے اسرائیلی اور تنظیم آزادیٔ فلسطین کے رہنماؤں نے جدوجہد کی تھی۔
درپیش منظر نامے کے کینوس پر ایک طرف اسرائیل سائنسی علم کا پوری طاقت کے ساتھ منفی استحصال کر رہا ہے اور دوسری جانب حماس مذہبی ہوش سے کام لینے کے بجائے جوش میں آ کر اُن جانوں کی بازی لگانے کو حکمت سمجھ رہا ہے جن کا لازمی استعمال مثبت حکمت کیلئے ہونا چاہیے۔ ایسے میں دونوں کیا یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ وہ کہیں زیادہ تو کہیں کم انسانی جانوں کے اس طرح بے دریغ زیاں کے رخ پر کب تک ایک دوسرے سے نبرد آزما رہیں گے!کیا اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو جو یہودی انتہا پسندی کی علامت بن کر ابھرے ہیں، یہ بتانے کی جرأت کریں گے کہ انہوں نے ایک ’’یہودی مملکت‘‘کا جو نعرہ لگارکھا ہے، اُس کا قیام کتنے لاکھ انسانوں کی لاشوں پر عمل میں آئے گا!! متاثرہ خطے کی زندگیاں کیا اسی کام کیلئے رہ گئی ہیں کہ اُنہیں کسی یہودی مملکت یا اسلامی مملکت کے انتہائی غیر انسانی تصور کی نذر ہونے کیلئے رات دن پروان چڑھایا جائے اور پھر ایک جھٹکے میں قربان کر دیا جائے۔
دونوں طرف کے عام انسانوں کی ذہنی حالت اس قدر تباہ ہو چکی ہے کہ وہ بس سانس لیتے رہنے کی خاطر جینے کیلئے پناہ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ خواہ یہ پناہ اُنہیں مستقبل کے وعدے فراہم کریں یا انتہائی غیر انسانی سوچ رکھنے والی حال کی حربی طاقتیں۔ ماضی بعید میں ایسے ہی بھیانک منظرنامے سے اولادِ ابراہیم میں مسیحیوں نے خون خرابے میں صدیاں ضائع کرنے کے بعد مرحلہ وار نجات حاصل کی تھی۔ پتہ نہیں یہودیوں اور مسلمانوں کو اس کا عملی ادراک کب ہوگا! وقت آگیا ہے کہ اب ایشیائی اور افریقی براعظموں کی نمائندگی کرنے والے ممالک بھی یوروپ سے ’’صحت مند اختلاف‘‘ اور ’’تعمیری اتفاق‘‘کا ہنر سیکھیں اور دنیا کو رہائش کی بہترین جگہ بنانے میں ایک دوسرے سے اشتراک کریں۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS