اسرائیل اور فلسطین کی جنگ کے درمیان ایک مثبت بحث: محمد حنیف خان

0
اسرائیل اور فلسطین کی جنگ کے درمیان ایک مثبت بحث: محمد حنیف خان

محمد حنیف خان

اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد جہاں ایک طرف پوری دنیا میں اسرائیل کے سفارت خانے سرگرم ہوگئے، وہیں دوسری جانب میڈیا میں شور و غوغا مچ گیااور ہر طرف سے دہشت،دہشت گرد کی صدا سنائی دینے لگی۔اس کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آج بھی دنیا کے میڈیا پر یہودیوں کا قبضہ ہے اور عالمی خبریں اور ان کے تجزیے یہی ایجنسیاں دوسرے ملکوں کے اخبارات اور ٹیلی ویژن کو مہیا کراتی ہیں۔ ایسے میں وہ یاتو ایجنسی کی خبر شائع کریں یا پھر اپنی کوئی پالیسی بنائیں اور اس کے مطابق ان خبروں کو ایڈٹ کریں۔اس میں دونوں طرح کے صحافتی ادارے ہیں اول وہ جو من وعن خبریں اور تجزیے چھاپ اور نشر کردیتے ہیں،دوم وہ جو اپنی پالیسی کے مطابق ان خبروں کی کاٹ چھانٹ کرتے ہیں۔
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ نے خبروں کی رپورٹنگ میں لفظوں کے انتخاب اور اس کے پس پشت کارفرما عوامل پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔عالمی سطح کے دو اداروں کناڈا کی براڈ کاسٹنگ کمپنی ’’کینیڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن(سی بی سی) اور برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن(بی بی سی )نے حماس کے لیے لفظ ’’دہشت گرد‘‘ استعمال کرنے سے نہ صرف انکار کردیا ہے بلکہ اپنے ادارتی عملے کو یہ ہدایات دی ہیں کہ وہ سختی سے اس پر کاربند رہیںاور لفظوں کا استعمال بہت سوچ سمجھ کرکریں تاکہ ادارے کی غیر جانبداری مجروح نہ ہوں۔یہ الگ مسئلہ ہے کہ ان دونوں اداروں نے مختلف اوقات میں الگ الگ پالیسیاں اختیار کیں مگر اس معاملے میں سیاسی دباؤ تک کو ان دونوں اداروں نے قبول نہیں کیا بلکہ صحافت کی روح کو سمجھتے ہوئے اس کے مطابق رپورٹنگ کو ترجیح دی ہے۔
اسرائیل اور فلسطین کے معاملے میں پوری دنیا کے میڈیا کا ایک رویہ یہ رہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ’’دہشت گرد اور اسرائیل کی افواج کو ’’دفاعی افواج‘‘ لکھتا رہا ہے،مگر جس طرح سے مذکورہ دونوں اداروں نے موقف اختیار کیا ہے، اس سے اس ہندوستانی میڈیا کو سبق لینا چاہیے جو دن رات اخبارات،ٹیلی ویژن اور آن لائن اشاعتوں میں ’’حماس‘‘ کو قصائی،قاتل اور دہشت گرد جیسی لفظیات سے تعبیر کررہا ہے۔حالانکہ یہی ہندوستانی میڈیا اس وقت خاموش تھا جب اسرائیلی فوج فلسطینی بچوں،اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے پراخچے اڑا رہی تھی۔جب اسرائیلی حکومت اسی فوج کی طاقت سے فلسطین کی زمین چھین کر اس پر دوسرے ممالک سے آنے والے یہودیوں کو بساتی ہے تو میڈیا اس کو بطور خبر بھی شائع اور نشر کرنا ضروری نہیں سمجھتا،کیونکہ ان کی نظر میں اسرائیل ایک امن پسند ملک ہے جس نے پوری دنیا میں رہنے والے یہودیوں کو یہ دعوت دے رکھی ہے اور پالیسی اپنا رکھی ہے کہ وہ آئیں اور اسرائیل میں بسیں۔اس پالیسی پر کبھی اس نے ایک رپورٹ بھی نہیںنشر کی۔ہندوستانی میڈیا اس جنگ میںاسرائیلی میڈیا(حماس کے حملے کے بعدہارٹز جیسے اخبار میں کئی مضامین بنجامن نتن یاہوکے خلاف شائع ہوچکے ہیں،جس میں انہیں بدعنوان،ناکام اورغیرمحافظ قرار دیتے ہوئے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا ہے) سے کہیں زیادہ یہودیوں اور وزیراعظم بنجامن نتن یاہو کا وفادار بن کر سامنے آیا ہے۔اسی لیے وہ اسرائیلی حملوں میں مرنے والوں پر دکھ کا اظہار نہیں کرتا بلکہ اسے وہ اسرائیل کی شجاعت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ورنہ جس طرح سے غزہ میں بمباری ہورہی ہے، کیا وہ کسی دہشت گردانہ کارروائی سے کم ہے؟مگر یہاں ہندوستانی میڈیا کی لائن الگ ہے۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان عمل اور ردعمل ایک عرصہ دراز سے جاری ہے۔ان دونوں کے عمل اور رد عمل کو دنیا کا میڈیا دو نظروں سے دیکھتا رہا ہے اور اس وقت ہندوستان کے میڈیا نے تو حد کردی ہے کہ اس کی نظر میںفلسطین اور اس کا دفاع کرنے والے دہشت گرد ہیں جبکہ اسرائیل اور اس کا دفاع کرنے والے امن پسند ہیں۔ ہندوستان کا میڈیا ایسا کیوں کر رہا ہے، اس کے پیچھے ایک طویل کہانی اور نظریہ ہے جس میں جانبداری ہے جبکہ صحافت کا پیشہ غیرجانبداری کا متقاضی ہوتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ ہندوستانی میڈیا کی طرح پوری دنیا کے میڈیا نے بصیرت اور بصارت دونوں کھو دی ہیں۔عالمی میڈیا میںبرٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی)اورکینیڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن(سی بی سی)عالمی سطح پراہمیت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں،ان دونوں اداروں کی اپنی پالیسی ہے جس سے اتفاق اور اختلاف کا ہر ایک کو حق ہے لیکن ان دونوں نشریاتی اداروں نے جس طرح سے فلسطین کے لیے اپنا موقف اختیار کیا اور اس پر کاربند ہیں وہ لائق ستائش ہے اور اس میں ہندوستانی میڈیا کے لیے کئی سبق موجود ہیں۔اسرائیل، امریکہ، کناڈا،یوروپی یونین اور برطانیہ نے حماس کو مسلح دفاع کی وجہ سے ’’ٹیررسٹ گروپ‘‘ قرار دے رکھا ہے،اس کے باوجود سی بی سی اور بی بی سی حماس کو ’’دہشت گرد‘‘ نہیں لکھ رہے ہیں،جس پر متشدد نظریہ کے حامل افراد چراغ پا ہیں۔
وزارت ثقافت کے سکریٹری لوسی فریزر نے بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی سے شکایت کی تھی کہ بی بی سی حماس کو دہشت گرد لکھنے کے بجائے ملیٹنٹ(عسکریت پسند)لکھ رہاہے،اس سیاسی دباؤ کے باوجود بی بی سی نے اپنی ادارتی ہدایات پر دوبارہ غور کرنے سے انکار کردیا۔ برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کے سیاستداں ایریک جیک پکلس نے بی بی سی پر مناسب یا متوازن کوریج نہ دینے کا الزام عائد کیاہے۔برطانیہ میں یہودیوں کے بورڈآف ڈپٹیز کی صدر میری وان ڈیر زایل نے ایک ٹی وی چینل سے کہا کہ ’’اس حقیقت کے باوجود کہ ہماری حکومت (برطانوی)اور حزب اختلاف نے کہا ہے کہ حماس دہشت گرد ہیں اور یہ تنظیم قانوناً ممنوع ہے، بی بی سی یہ کہنے سے انکار کررہا ہے کہ یہ لوگ دہشت گرد ہیں،وہ ان کو عسکریت پسند بتا رہا ہے۔‘‘
جان سمپسن بی بی سی میں ایک غیر ملکی نامہ نگار اور عالمی معاملات کے ایڈیٹر ہیں،انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں ان سب باتوں کا کچھ یوں جواب دیا کہ ’’دہشت گردی کے لفظ کا استعمال ایک نشریاتی ادارے کی غیرجانبداری کو کمزور کرتا ہے۔برطانوی سیاست داں یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ بی بی سی کو ’’دہشت گرد‘‘ لفظ سے پرہیز کیوں ہے۔گزشتہ چند برسوں میں بہت سے افراد ذاتی سطح پر اس بات سے اتفاق رکھنے لگے ہیں کہ کسی کو دہشت گرد کہنے کا مطلب ہے کہ آپ جانبدار ہو رہے ہیں،حالات کے ساتھ غیر جانبداری سے رویہ اختیار کرنا بند کر رہے ہیں۔
وزیر امیگریشن رابرٹ جینرک کے حوالے سے ’دی ٹیلی گراف‘ نے لکھا کہ انہوں نے کہا ہے آئیے ہم واضح کریں کہ دنیا نے کیا دیکھا ہے،یہ ویسا نہیں تھا جیسا میڈیا میں کچھ لوگ عسکریت پسند یا لڑاکا لکھ رہے ہیں،وہ دہشت گرد تھے،وہ قاتل تھے،وہ بربر تھے۔بی بی سی یا جسے بھی ہم ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں، اسے ویسے کہنا چاہیے جیسا وہ ہے۔
کناڈا کی براڈ کاسٹنگ کمپنی ’’کینیڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن(سی بی سی)نے اپنے ادارتی عملے کو ہدایت دی ہے کہ وہ فلسطین کے عسکریت پسندوں کے لیے لفظ ’’دہشت گرد ‘‘ کا استعمال نہ کریں۔سی بی سی کے ڈائریکٹر جارج اچی کے افشا ہوئے ایک ای میل میں کہا گیا ہے کہ ’’عسکریت پسندوں،فوجیوں یا کسی دیگر کو دہشت گرد سے تعبیر نہ کریں‘‘۔جارج اچی نے مزید لکھا کہ ’’اصطلاح دہشت گرد کی بہت سیاست کاری ہوئی ہے جو کہانی کا حصہ ہے،عسکریت پسندوں کو دہشت گرد بتانے والی کسی حکومت یا ذرائع کے موقف کو پس منظر کے ساتھ جوڑا جانا چاہیے۔یہ یقینی بنانے کے لیے کہ ناظرین سمجھیں کہ یہ رائے ہے حقیقت نہیں۔‘‘ ان دونوں عالمی اداروں کے برعکس ہندوستانی میڈیا اسرائیلی میڈیا بن کر اس کی رپورٹنگ کر رہا ہے،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف جنگ میں اتر آیا ہے،ہندوستانی میڈیا نہ تو کوئی صحافتی پالیسی رکھتا ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت سمجھتا ہے بلکہ وہ وہی کرتا ہے جس میں اسے اپنے نظریاتی اور مالیاتی مفادات نظر آتے ہیں جبکہ صحافت کا بنیادی اصول غیر جانبداری ہے جس کا دامن ہر حال میں میڈیا کو تھامے رہنا چاہیے،کیونکہ ناظرین/ قارئین کے اعتماد کی بنیاد یہی غیر جانبداری ہے جو ہندوستان میں مجروح نہیں ہورہی ہے بلکہ یکسر نابود ہوتی جا رہی ہے۔ میڈیا چونکہ ذہن بناتا ہے، اس لیے اس نے ہندوستان میں فلسطینیوں کے خلاف ماحول بنانے کے ساتھ ہی ہندوستانی مسلمانوں کو بھی اپنی زد میں لے لیا ہے جس سے بہر حال اسے اجتناب کرنا چاہیے۔لیکن اس کے لیے اخلاقی جرأت کی ضرورت ہوتی ہے جس کا مظاہرہ بی بی سی نے اس وقت کیا ہے جب برطانیہ کے وزیراعظم رشی سنک نے حماس کے حملوں کودہشت گردانہ قرار دے کر اسرائیل کے ساتھ کھڑے رہنے کے موقف کا اعادہ کیا ہے۔دوسری طرف ہندوستان کے وزیر اعظم نے ضرور اسرائیل کے حق میں دو بار ٹویٹ کیا لیکن سرکاری بیان میں اس موقف کا اعادہ کیا گیا ہے کہ ہندوستان امن کے ساتھ دو قومی نظریے کے اپنے پرانے موقف پر قائم ہے۔ ایسے میں میڈیا کا اس طرح جانبدار ہوجانا ہندوستان کے موقف صلح کل اور وسودھیوکٹمبکم کے خلاف ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS