قیصر محمود عراقی
کسی پہاڑ سے چشمہ پھوٹا اور ندی بہہ نکلی، چھوٹی سی ندی کسی بڑے میدان سے گزر رہی تھی ۔ اس میدان میں ایک شخص نظارہ قدرت کر رہا تھا ، اس نے دیکھا کہ ندی کے پانی کے ساتھ ساتھ اک بچھو بھی بہہ رہاہے ۔ اسے خیال آیا کہیں یہ مر نہ جا ئے، اس لیے اس شخص نے ہاتھ ڈال کربچھوکو نکال لیا، بچھو نے اس شخص کو کاٹنے کی کوشش کی لیکن اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا اور پھسل کر پانی میں جا گرا، اس شخص نے سوچا کہ بچھو پانی میں ڈوب جا ئے گا، اس لیے اس نے بچھو کو پھر نکالا لیکن بچھو نے اس شخص کوپھر کا ٹنے کی کوشش اور پانی میں کود گیا، جب تیسری بار بھی یہی ہوا تو قریب ہی بیٹھے ایک شخص نے جو اس منظر کو دیکھ رہا تھا، کہا ارے بھائی! کیوں پریشان ہو رہے ہو؟ تجھے پتہ ہے کہ یہ حیوان ہے اور یہ اپنی حیوانیت نہیں چھوڑے گا تو کیوں اپنی جان کا دشمن بنا ہوا ہے ؟ بچھو کی جان بچا نے والے شخص نے کہا، ’’جب ایک حیوان اپنی حیوانیت نہیں چھوڑ سکتا تو میں انسان ہو کر اپنی انسانیت کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ ‘‘ یہ بات تمثیل کی تھی ، کہنا دراصل یہ ہے کہ محاسن اخلاق کے باعث انسان شرف حاصل کر لیتا ہے اور رذائل کے باعث ذلیل بھی ہو جا تا ہے، اس لیے ہمیں چاہیے ہمیشہ وہ کام کریں ،جس سے انسان کا مقام و مرتبہ بلند ہو۔ انسان کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ اللہ رب العزت نے تمام مخلوقات میں سب سے افضل ترین مخلوق انسانوں کو قرار دیا ہے ۔ اس اعزاز پر باقی تمام مخلوقات بھی رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ اللہ رب العزت نے اشرف المخلوقات کا درجہ انسانیت ہی کی وجہ سے ہمیں عطا کیا ہے ۔ اس لیے ایک اچھے انسان کی پہچان ہی انسانیت کی وجہ سے ہے، اگر انسانیت نہیں ہے تو انسان اورباقی وحشی درندوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا ۔ قرآن پاک و احادیث میں بھی متعدد مقامات پر لفظ انسانیت پر ہی زور دیتے ہو ئے فرمایا ہے: ’’ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ‘‘۔ تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ اللہ پاک نے جو مقام و مرتبہ ہمیں عطا کیا تھا کیا ہم اس منزل پر موجود ہیں ؟ بالکل بھی نہیں ۔ ہم نے اپنے ہاتھوں سے انسانیت کو کھو دیا ہے ، آج ہم اور اس جنگلی درندوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ درندے ایک خطرناک اور خونخوار جا نور ہیں، ان کو صرف اور صرف اپنی خوراک سے غرض ہو تا ہے، یہ کبھی بھی دوسروں کے بارے میں نہیں سوچتے اور نہ ہی دوسروں کے لیے پریشان ہو تے ہیں۔ ایک واحد انسان ہی ہے جس میں انسانیت موجود ہو تی ہے اور ہر ایک کے دکھ درد، خوشی و غم میں شامل ہوجا تے ہیں ، اسی وجہ سے اللہ رب العزت نے اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا ہے ۔ لیکن افسوس آج ہم میں انسانیت ختم ہو چکی ہے ، ہر جگہ نفسی نفسی کا عالم بر پا ہے اور ہم مذہبی ، لسانی ، علاقائی بنیادوں میں تقسیم در تقسیم ہو کر انسانیت کا جنازہ نکال چکے ہیں ۔ آج گن کر بتا یا جا سکتا ہے کہ بہت سارے ایسے مخیر اور دولت مند افراد ہیں جو اب بھی غریبوں ، یتیموں، بیوائوں اور مساکین کے حقوق ماں کے دودھ کی طرح حلال سمجھ کر کھا رہے ہیں اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بعد میں یہی لوگ معاشرے میں عدل و انصاف کی باتیں کر تے ہیں۔ اپنی خرابیوں کو پس پشت ڈال کر ’ہر شخص کہہ رہا ہے زما نہ خراب ہے‘، زمانہ خراب نہیں ہے بلکہ آپ او رمیں خراب ہیں، اس وجہ سے ہمیں لگتا ہے کہ زما نہ ہی خرا ب ہے۔ زمانہ او ر معاشرہ انسان سے تشکیل پا تا ہے کیونکہ جب ایک انسان پیدا ہو تا ہے تو نہ وہ پیدائشی طور پر شریف ہو تا ہے اور نہ ہی مجرم بلکہ اس کے اچھے انسان بننے اورمجرم بننے میں یہ معاشرہ اہم کر دارادا کر تا ہے۔ اگر بچہ ایک با اخلاق اور تربیت یا فتہ گھرا نے میں پیدا ہو جا ئے تو ایک اچھا انسان بنے گا، بصورت دیگر بچہ اس معاشرہ میں پیدا ہو جا ئے جہاں تہذیب و تمدن ، اخلاق اور تربیت وغیرہ سے سب نا واقف ہو ں تو بچے کی شخصیت پر بہت برا اثر پڑے گا ۔ آج معاشرے میں انسانیت سسکتی جا رہی ہے ، آج انسان روز مرہ کی زندگی میں اخلاق ، سچائی ، نظم و نسق اور ادب و آداب کا نقش دکھائی دیتا ہے لیکن انسان اپنی کرتوت کی وجہ سے دوسری مخلوقات سے بد تر ہو تا جا رہا ہے۔ آج انسان تو بڑھتے جا رہے ہیں لیکن انسانیت ختم ہو تی جا رہی ہے ۔ اس وجہ سے آج ہم پر ذلت و رسوائی ، غربت و تنگدستی مسلط ہو چکی ہے ۔ یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بد خلقی، بے راہ روی، فحاشی، عریانیت، ہو س، لالچ، ظلم و ستم، نا انصافی، خود غرضی، رشوت اور دھو کہ روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں جو انسان کی اخلاقی پسماندگی کا با عث بنتے ہیں۔ یہی انسان کی وہ اخلاقی خرابیاں ہیں جو تسلسل کے ساتھ انسان کو انسانیت کے دائرے سے با ہر دھکیلتی رہتی ہیں ۔ جوں جوں انسانوں میں اخلاقی پستی بڑھتی جا تی ہے اسی رفتار سے انسان اور دوسری مخلوقات کے مابین انسانیت کی قائم کردہ دیواروں کی بنیا دیں کمزور پڑ جا تی ہیں اگر ہم اسی رفتار سے اپنی اخلاقی پستیوں کا تماشا دیکھتے رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم انسانی شکل کے درندے اور بھیڑئیے بن جا ئیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اپنے دل سے اس ہو س کو نکال دیں اور نئی نسل کو اخلاقیات کی ذمہ داری اور اسلامی تعلیمات کا سبق دیں، عوام کو با شعور بنائیں اور اخلاقیات کی روشن مثال بنیں تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم اپنے سنہرے ماضی کو دہرائیں ۔ ان تمام منفی عناصر کے بارے میں ہم سب کو سوچنا چائیے کہ کہیں یہ تمام عناصر ہم میں تو نہیں اور کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اس معاشرے میں بچھو کی طرح نقصان پہنچا نے کی کوشش کر رہے ہیں اور قدرت اور معاشرہ ہمارے ساتھ انسانی سلوک کر رہا ہے ۔ لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ نفس کے تقاضوں پر آخرت کے فائدوں کو ترجیح دے، دنیا کی شہرت پر خوش ہو نے کے بجا ئے آخرت کی رسوائی سے ڈرے، اپنے با طن و ظاہر کو یکساں رکھے۔ اعتماد و بھروسہ پیدا کر نے کے لیے دین داری کی وضع اختیار کر کے دوسروں کا مال ہضم نہ کر ے اور ذاتی اغراض کے لیے قوم کی نمائندگی نہ کرے۔ حاجی کہلا نے کے لیے حج نہ کر ے بلکہ ہر معا ملے میں اللہ پاک کی خوشنودی حاصل کرے۔ ویسے بھی انسان کو حقیقت میں انسان اس وقت کہنے کا حق حاصل ہو گا جب اس میں انسانیت آجائے گی۔rvr