عصری تعلیمی اداروں کا قیام اور ہندوستانی مسلمان

0

شاہد زبیری

جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس حال ہی میں مرکزی دفتر جمعیۃ علماء ہند بہادر شاہ ظفر مارگ پر منعقد ہواہے کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ اجلاس میں ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی کے جنون کو ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا گیا اور مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر عوام کی تقسیم کے خطرناک کھیل سے خبر دار کیا گیا اور ملک کے موجودہ حالات اور قانون و انتظام کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ عصری تعلیم کے اداروں کی ضرورت کااحساس کرتے ہوئے مسلم لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کے لئے اسکول کالج خاص کر لڑکیوں کے لئے دینی ماحول میں تعلیمی اداروں کے قیام کی بات بھی کہی گئی ۔جمعیۃ کے قائد محترم مولانا ارشد مدنی نے بھی اپنے خطاب میں عصری تعلیم کے لئے ایسے اسکول کالجوں کو اشد ضروری بتا یا جہاں دینی ماحول میں ہمارے بچے اعلیٰ ’دنیاوی تعلیم‘ کسی رکاوٹ اور کسی امتیاز کے بغیر حاصل کرسکیں اس کے لئے انہوں نے صاحب ثروت اور خوشحال طبقہ کے مسلمانوں کو بھی توجہ دلائی کہ وہ ایسے اسکول کالج قائم کریں۔جمعیۃ کے قائد نے واضح طور پر کہا کہ جس طرح ہمیں مفتی، علماء اور حفاظ کی ضرورت ہے اسی طرح پروفیسر ، ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ کی بھی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہے بغیر نہیں رہ سکے کہ بدقسمتی یہ ہے کہ جو ہمارے لئے اس وقت انتہائی اہم ہے اس جانب مسلمان خاص کر شمالی ہند کے مسلمان توجہ نہیں دے رہے ہیں،وہ دوسری چیزوں پر تو خرچ کرتے ہیںتعلیم ( عصری تعلیم ) پر خرچ نہیں کرتے جبکہ ملک کے موجودہ حالات کا مقابلہ صرف اور صرف تعلیم سے ہی کیا جا سکتا ہے ۔
ایسا نہیں کہ مولانا ارشد مدنی نے یہ پہلی مرتبہ کہا ہے دیگر علماء بھی خاص کر مولا نا کلبِ صادق وغیرہ بھی اس سے پیشتر عصری تعلیم او رعصری تعلیمی کے اداروں کی افادیت اور ضرورت کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں۔ کر ناٹک کے کالجوں سے شروع ہوکر ملک بھر کے اسکول کالجوں تک حجاب کا جو نیا تنازع کھڑا ہو ا یا کھڑا کیا گیا ا س تناظر میں مولانا ارشد مدنی کی عصری تعلیمی اداروں کے قیام کو لے کر تشویش کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے اور اس کی اہمیت بھی سمجھی جاسکتی ہیں۔کرناٹک کی مسلم طالبات کالجوں میں برقع یا نقاب میں تعلیم کا مطالبہ نہیں کررہی ہیں صرف سر ڈھانپ کر حجاب میں تعلیم حاصل کرنے کا حق چاہتی ہیں اس پر کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک سے زائد سماعتوں اور فریقین کے دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے ۔فیصلہ پر سب کی نظریں لگی ہیں ۔
عصری تعلیم کی افادیت اور ضرورت اور عصری تعلیمی اداروں کے قیام پر مولانا ارشد مدنی نے جو کچھ کہا اس پر مسلمانوں میں عصری تعلیم کی تاریخ کے حوالہ سے اس کا اگر اجمالی جائزہ لیںتو یہ مسئلہ لارڈ میکالے کے زمانہ سے مسلمانوں میں کشا کش کا باعث ر ہا ہے۔ لارڈ میکالے کے عصری تعلیم کے نظریہ اور نظام تعلیم سے قبل مسلم سلاطین اور شہنشاہوں کے ادوار میں دینی اور عصری تعلیم کے نام سے علم یا تعلیم کی تقسیم نہیں تھی ۔ دینی اور دنیاوی تعلیم کی تقسیم کا نظر یہ انگریزوں کی دین ہے۔ انگریزوں کے ہندوستان پر قبضہ کے بعد لارڈ میکالے نے جب عصری تعلیم یا انگریزی اور جدید تعلیم سے ہندوستان کو روشناس کرا یا تھا تو مہا راشٹر کے دلت سماجی رہنما جیو تی با پھولے کی اہلیہ ساوتری با پھولے جو اپنی ساتھی مسلم خاتون فاطمہ شیخ کے ساتھ دلت اور کمزور خواتین میں تعلیم کے لئے کوشاں تھیں، انہوں نے کہا تھا کہ سماج کے دلت اور محروم طبقات نے آج تعلیم کی آزادی اور تعلیمی مساوات کی طرف پہلا قدم رکھا ہے۔ اس کے بر عکس مسلمانوں کے مذہبی طبقہ کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی گئی اور اس جدید تعلیم سے مسلمانوں کو مستثنیٰ رکھے جانے کا مطالبہ کیا گیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو 18ویں صدی کے اختتام تک عصری یا جدید تعلیم کی ضرورت اور افادیت کا احساس شدت سے ہو نے لگا تھا لیکن جب تک کافی دیر ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر رفیق زکریا نے اپنی کتاب ’ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کا عروج‘ میں اس کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر رفیق زکریا کے مطابق انگریزوں کے ہندوستان پر قبضہ کے بعد سے سماج میں مرتبہ اور دولت کے حصول کے لئے اور سرکاری عہدوں کے لئے جدید تعلیم کم ازکم انگریزی تعلیم حاصل کرنا لازمی ہو گیا تھا ۔اس معاملہ میں ہندوئوں نے مسلمانوں کو اس وقت بھی میلوں پیچھے چھوڑدیا تھا۔ سر سیّد احمدخاںؒنے مسلمانوں کو جھنجھوڑ نا شروع کیا۔ مسلمانوں کو عصری یا جدید تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لئے سر ولیم ہنٹر کی صدارت میں تعلیمی رائل کمیشن بھی قائم کیا گیا۔ اس کمیشن نے شہادتوں اور عوامل کی بنیا پر 17نکات پر ایک مفصل رپورٹ پیش کی لیکن وہ بھی مؤثر ثابت نہیں ہوئی لیکن مسلمانوں کی تعلیم کے معاملہ میں حکومت کے خصوصی اقدامات اور دیگر عوامل کے نتیجہ میں شمال صوبہ جات میں سر سیّداحمد خاںؒ کے علاوہ بنگال میں نواب عبداللطیف اور سیّد امیر علی نے محمڈن کالج،بمبئی جو اب ممبئی کہلاتا ہے وہاں بدر الدین طیب جی اور عبداللہ دھرمسی انجمن اسلام اسکول ممبئی، سندھ جو اب پاکستان کا حصہ ہے وہاں حسین علی آفندی اور غیر منقسم پنجاب میں انجمن حمایت الاسلام تحریک،علیگڑھ میں ایم اے او کالج، لاہور میں اسلامیہ کالج، کراچی (سندھ) میں مدرستہ الاسلام اور کلکتہ جو اب کولکاتہ ہو گیا وہاں ’مدرسہ‘کا قیام عمل میں آیا جس نے مسلمانوں میں جدیدتعلیم یا انگریزی تعلیم کی شمع روشن کی لیکن جو کام سر سیّد ؒ کے ہاتھوں قائم کئے گئے محمڈن ایجو کیشنل او رینٹل کالج نے کیا وہ کسی اور کے حصہ میں نہیں آیا۔ آگے چل کرمسلم یو نیورسٹی کی شکل میںجس کی تعلیمی خدمات نمایاں ہیں جو آج بھی جا ری ہیں۔ گاندھی جی کی تحریک ترک موالات ooperation) Non-c ( کے تحت محمدعلی جو ہر، حکیم اجمل خاں اور ڈاکٹرمختار احمد انصاری کے ہاتھوں علیگڑھ ہی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی گئی، بعد میں یہ ادارہ دہلی منتقل ہوگیا اور حکیم اجمل خاں کی زمین پر اس کی موجودہ عمارت کی تعمیر کی گئی۔ مہاتما گاندھی اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے ہاتھوں اس ادارہ کا افتتاح عمل میں آیا۔ علیگڑھ تحریک کے نتیجہ میںانجمنِ اسلامیہ کے تحت سہارنپور سمیت یوپی میں مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے گنتی کے قومی اسکول کھو لے گئے جبکہ ان مسلم تعلیمی تحریکو ں سے پہلے ہندوئوںکی اصلاحی اور تعلیمی تحریکیں شروع ہو چکی تھیں جس وقت سر سیّد کی پیدائش ہوئی۔ بر ہمو سماج کے بانی راجہ رام موہن رائے اور ایشور چندر ودیاساگر اس وقت بنگال میں لڑکوں کیلئے اور لڑکیوں کیلئے انگریزی کالج قائم کر چکے تھے ، آزادی سے پہلے شمالی ہند میں آریہ سماج کی تحریک کے تحت ڈی اے وی کالجوں کا قیام دیگر ہندو تنظیموں اور فرقوں کے تعلیمی ادارے تشکیل پا چکے تھے۔مسلمانوں نے 1857 کے بعد دینی مدارس کے قیام پر زور دیا۔ دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارنپور اور ندوۃ العلماء لکھنؤ جیسے عالمی شہرت کے دینی ادارے وجود میں آئے۔ آزادی کے بعد تو ملک میں خاص طور پر شمالی ہند میں دینی مدرسوں کی باڑھ آگئی اور دینی تعلیم کا معیار بھی گھٹ گیا۔ دینی مدارس اور اسکول کالجوں میں مسلمان توازن نہیں رکھ پا ئے ،شمالی ہند میں اگر مسلم بستیوں میں دینی مدارس نظر آئیں گے تو غیر مسلم بستیوں میں اسکول کالجوں کی بہتات نظر آئے گی۔ڈی اے وی کا لجوں کے علاوہ ملک بھر میں آزادی کے بعد آر ایس ایس نے ششو مندر اور ثانوی درجات کے سرسوتی ودیا مندر کے نام سے اسکولوں کا جا ل بچھا دیا ہے۔ مانا ان کے یہاں بھی سنسکرت اور ویدوں کی پاٹھ شالائیں اور گرو کل کھلے لیکن جدید تعلیمی اداروں اور مذہبی تعلیم کے اداروں میں جو توازن غیر مسلموں میں ملتا ہے وہ مسلمانوں میں آج بھی نہیں ہے۔ جدید تعلیم کے میدان میں ہم سے چھوٹی اقلیتیں سکھ جین بھی اسکول کالجوں کے میدان میں کافی آگے نکل گئی ہیں ان کے یہاں پرو فیشنل کالجوں میڈیکل و انجینئرنگ کالجو ں،لاء کالجوں و دیگر مضامین کے کالجوں کی طویل فہرست ہے لیکن ان میں نجی کالج زیادہ ہیں۔ بلا شبہ جنوبی ہند کے مسلمانوں نے عصری تعلیم کے میدان میں شمالی ہند کے مسلمانوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن ان میں اکثرو پیشتر پرائیویٹ ہیں جن کے اخراجات مڈل کلاس کے بس سے بھی باہر ہیں۔ شمالی ہند میں بھی اس طرح کے چند ایک نجی کالج اور ایک دو نجی یونیورسٹیاں ضرور قائم کی گئی ہیں۔ہندوستان کے غیر مسلموں اور مسلمانوں میں عصری تعلیم کو لے کر جو ایک صدی سے زیادہ پر محیط فا صلے ہیں اس کا اثر دونوں فرقوں کی فکر،سوچ، ترقی اور خوشحالی میں بھی صاف دکھائی پڑتا ہے۔ ایک واقعہ مولانا آزاد ؒسے منسوب ہے۔ وزیر تعلیم رہتے ہوئے مولا نا آزادؒ جب دارالعلوم دیوبند کے دورہ پر آئے تو ان کی نگاہ تعمیرات کی انجینئرنگ کے ایک قدیم آلہ جس کو اسطرلاب کہا جاتا تھا اس پر پڑی اور وہ یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ دنیا ہم سے ذہنی سفر میں 200سال آگے نکل چکی ہے ہم ابھی لکیرکے فقیر بنے ہوئے ہیں ۔طوالت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ جدید اور قدیم تعلیم کے نظریہ اور نظامِ تعلیم کو لے کر مسلمانوں میں پائی جانے والی صدیوں کی کشاکش اور اس سے پیدا ہونے والے نتائج کی بابت مزید کچھ کہا جا ئے۔ہمارے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے اس کو سوچنے والا ہر دماغ محسوس کر سکتا ہے اور چشمِ کشا سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس تناظر میںاب ہما رے ارباب مدارس اور دینی جماعتوں میںجدید تعلیم کے اداروں کے قیام کی ضرورت اور افادیت کے تقاضوں اور ضرورت کا احساس جاگ رہا ہے تو یہ خوش آئند ہے، ان کی طرف سے عصری تعلیم کے اداروںاور اسکول کالجوں کے قیام کے لئے جو آواز بلند ہو ئی ہے مسلمانوں کے ہر طبقہ بالخصوص صاحب ثروت اور خوش حال طبقہ کو اس پر لبیک کہنا چا ہئے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS