یوکرین پر روسی جارحیت اور مسلم دنیا پر اس کے اثرات

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

کمیونسٹ انقلاب سے قبل آرتھوڈوکس عیسائیت کا ایک اہم ترین مرکز سمجھا جانے والا ملک روس مسلم دنیا سے برسوں برسر پیکار رہا ہے۔ ان کی جنگ کی سب سے طویل تاریخ عثمانی خلفاء کے خلاف ہی رہی ہے۔ ترکوں اور عثمانی سلطانوں کے ساتھ جس جنگ کا آغاز روس نے سترھویں صدی میں کیا تھا اس کا سلسلہ انیسویں صدی تک جاری رہا۔ اس تاریخی پس منظر کو اگر دھیان میں رکھا جائے تو ان دنوں یوکرین پر جاری روسی جارحیت کے تناظر میں ترکی کے موقف کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ یوکرین معاملہ میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اپنی غیر جانب داری کو واضح کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں دکھائی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ تازہ صورتحال نے ان کے ملک کو ایک مشکل موڑ پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ ایک طرف روس کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت حساسیت سے پر ہے تو دوسری طرف ناٹو اور امریکہ کے ساتھ معاملہ کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ انہوں نے سنجیدہ کوشش کی تھی کہ کسی طرح جنگ کی نوبت نہ آئے اور اسی لئے یوکرین اور روس کے درمیان ثالثی کا کردار نبھانے کی بھی پیشکش کی تھی لیکن چونکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کا اصرار جاری رہا کہ امریکی ادارہ خود اس سلسلہ میں بات کرے اس لئے زیادہ کامیابی نہیں مل پائی۔ ترکی نے امریکہ اور ناٹو ممبران کو بھی سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ روس کے جوسکیورٹی سے متعلق خدشات ہیں ان پر ٹھنڈے دماغ سے غور کیا جائے اور ان خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ برلن میں سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر انہوں نے یہی بات دہرائی اور پرائیوٹ گفتگو میں یورپ کے لیڈران کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وقت رہتے ہوئے روسی شکایتوں کو دور کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔ البتہ جب روس نے یوکرین کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا تو ترکی نے روسی جارحیت کو ناقابل قبول بتاتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا اور یوکرین کو یقین دلایا کہ وہ اس کی وحدت و سالمیت کی حمایت کرتا ہے اور تمام قسم کے انسانی تعاون کا اعلان کرتا ہے۔ ترکی نے روسی جارحیت کی مذمت ضرور کی لیکن اس کے خلاف کوئی معاندانہ موقف اختیار کرنے سے گریز کیا ہے اور خود کو ایک غیر جانب دار پارٹی کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روسی جہازوں کے لئے اپنے بحری گزرگاہوں کو بند نہیں کیا اور نہ ہی مغربی ممالک کے ذریعہ روس پر عائد شدہ کسی پابندی کا خود کو حصہ بنایا ہے۔باوجودیکہ حالیہ برسوں میں ترکی اور یوکرین کے درمیان دفاعی سیکٹر میں تعلقات مضبوط ہوئے ہیں اور ترکی نے اپنے دفاعی مصنوعات خاص طور سے بیرکتر ڈرون یوکرین کے ہاتھوں فروخت کیا ہے جن کا استعمال روس کے خلاف اس جنگ میں ہو بھی رہا ہے البتہ جنگ کے سایہ میں ترکی نے اس کا لحاظ رکھا ہے کہ اس نے یوکرین کو کسی بھی قسم کا ملٹری تعاون پیش کرنے کا اشارہ تک نہیں دیا ہے اور جو دفاعی مصنوعات یوکرین کے ہاتھوں فروخت کی گئی ہیں اس کے بارے میں ترکی کے وزیر دفاع نے یہ کہہ کر اپنا دامن بچا لیا ہے کہ فروخت ہونے کے بعد اب وہ ہتھیار خریدنے والے ملک کی ملکیت ہے۔ انقرہ کو معلوم ہے کہ اگر اس نے یہ درمیانی راستہ اختیار نہیں کیا تو روس کے ساتھ اس کے سیاسی، عسکری اور اقتصادی ہر قسم کے تعلقات متاثر ہو جائیں گے۔ اس پورے معاملہ کا ایک مثبت پہلو ترکی کے لئے یہ ضرور ہے کہ وہ اس حالیہ بحران کا استعمال ناٹو اور امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنے میں کرے گا اور اپنے مقام اور اہمیت کا احساس دلاکر اپنے تعلقات کی ان کمزوریوں کو دور کرنے کی سعی کرے گا جو حالیہ دنوں میں در آئی ہیں۔ لیکن اس معاملہ میں ترکی کو کتنی کامیابی ملے گی اس کا صحیح اندازہ اس وقت لگایا جا سکے گا جب جنگ کا رخ آئندہ چند دنوں یا ہفتوں میں واضح ہوگا۔
ترکی کے علاوہ ملک شام پر بھی روس اور یوکرین کے مابین اس جنگ کا اثر پڑنا لازمی ہے۔ یوکرین میں روس نے جب سے جنگی محاذ کھولا ہے تب سے شام کے ان علاقوں میں روسی بمباری اور ملٹری آپریشن میں کمی آئی ہے جن پر شام کی اپوزیشن جماعتوں کا قبضہ ہے۔ اس تخفیف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ روس کو اپنی ساری توجہ مشرقی یوروپ اور بالخصوص یوکرین پر مرکوز کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ اس تبدیلی حالات کی وجہ سے ادلب کے علاقہ میں بسنے والے عوام کو خاص طور سے راحت کی سانس لینے کا موقع مل رہا ہے۔ شامی عوام کا معاملہ بشار الاسد سے بالکل مختلف ہے۔ بشار الاسد تو روسی صدر ولادیمیر پوتن کے مرہون منت ہیں کیونکہ اسی کی بدولت ہی الاسد کا خانوادہ اپنے ظلم و جور کا سلسلہ آج بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگر روسی فوج کی بربریت اور وحشت ناک بمباری حلب اور حمص کے معصوم بچوں اور عورتوں تک پر نہ ہوئی ہوتی تو بشار الاسد آج حکومت پر قابض نہ ہوتے۔ یہ اسی احسان مندی کا تقاضہ ہے کہ بشار الاسد نے یوکرین پر روسی جارحیت کی نہ صرف یہ کہ کھل کر حمایت کی ہے بلکہ اسے تاریخ کی دھارا کو صحیح سمت میں موڑنے جیسا قدم قرار دیا۔ بشار الاسد کی مانیں تو روسی صدر ولادیمیر پوتن موجودہ دنیا میں اس توازن کو بحال کر رہے ہیں جس کا فقدان سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد ہوگیا تھا۔ بشار الاسد اپنی پوتن چاپلوسی میں یہاں تک کہہ گئے کہ ناٹو کی توسیع پسندی کا مقابلہ کرنا روس کا حق ہے کیونکہ ناٹو ممالک کی یہ پالیسی دنیا کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ ناٹو کی پالیسیوں نے یقینا دنیا بھر میں عدم توازن پیدا کیا ہے لیکن روس کی جارحیت کا دفاع اتنے پرجوش انداز میں کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ بشار الاسد صرف اخلاقی طور پر ہی دیوالیہ پن کا شکار نہیں ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے مشترک انسانی قدروں سے بھی مکمل طور پر اپنا رشتہ توڑ لیا ہے۔ یہ وہی بشار الاسد ہیں جس نے اپنے ہی ملک کے ننھے بچوں تک پر زہریلی گیس اور کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال بڑی بے رحمی سے کرکے انہیں ختم کر دیا اور زندہ بچ جانے والے لاکھوں لوگوں کو گھر بدر ہونے اور دیار غیر میں ذلت و بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا۔ ایسا شخص بھلا یوکرین کے عوام کا دکھ درد کہاں سمجھے گا۔ البتہ اپوزیشن جماعتوں کے لئے یہ ایک مناسب موقع ہے جس میں اگر وہ اپنی جمعیت کو مضبوط کرلیں اور آپسی انتشار و تفرقہ کے ماحول کو ختم کرکے ایک متحد محاذ قائم کرلیں تو شامی عوام کے مسائل کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ شام کی اپوزیشن جماعتوں نے جن واضح الفاظ میں یوکرین پر روسی بربریت کی مذمت کی ہے وہ در اصل اس حقیقت کا عکاس ہے جس سے وہ خود گزر چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جنگ کے نتیجہ میں عوام کو کتنی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔
تیسرا مسلم ملک لیبیا ہے جس پر یوکرین بحران کا مثبت اثر وقتی طور پر پڑا ہے۔ 2011 کی عرب بہاریہ کے بعد سے ہی لیبیا اتھل پتھل کا شکار ہے اور شام ہی کی طرح لیبیا میں بھی روس نے اپنے قدم جما لئے ہیں۔ ان دنوں لیبیا ایک نئے قسم کے سیاسی تناؤ کا شکار ہے کیونکہ عبوری حکومت کے وزیر اعظم عبدالحمید دبیبہ اپنے منصب کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں جبکہ پارلیمنٹ نے سابق وزیر داخلہ فتحی باشا کو نئی حکومت تشکیل دینے کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔ باشا کو پارلیمنٹ کے صدر عقیلہ صالح کے علاوہ روس کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس کا خطرہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ اگر روس نے یوکرین کا محاذ نہیں کھولا ہوتا تو لیبیا میں ان دونوں لیڈران کے آپسی انتشار کا وہی نتیجہ نکلتا جو اس سے قبل حفتر کی قیادت میں لیبیا دیکھ چکا ہے۔ عقملندی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ لیبیا کے لیڈران اپنی سمجھ کے ناخن لیں اور یوکرین بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے گیس کے ذخائر کے لئے یورپ کے اس بازار پر حاوی ہو جائیں جس پر اب تک روس کا قبضہ رہا ہے۔ الجزائر اور لیبیا ان ممالک میں سے ہیں جو یورپ سے قریب ہیں اور گیس کے قدرتی ذخائر سے مالامال ہیں۔ یورپ اس وقت روس کا متبادل ڈھونڈھ رہا ہے اور اس سلسلہ میں تمام گیس پیدا کرنے والے ممالک سے بات چیت جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر اس وقت بھی اپنے مسائل حل کرکے ترقی کی پلاننگ نہ کی گئی اور روس کو یوکرین میں فتح حاصل ہوگئی تو لیبیا کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں بھی وہ اپنی توسیع کا کام شروع کر دے گا اور پھر روسی سامراج کو روکنا مشکل ہوجائے گا۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS