طیب اردگان کا دورۂ سعودی عرب :یہ ملاقاتیں یہ باتیں !

0

شاہنواز احمد صدیقی
عالم اسلام کے دو عظیم ملک سعودی عرب اور ترکی بدلے ہوئے عالمی منظر نامہ میں تعلقات بہتر بنانے کی جستجو کررہے ہیں۔ ترکی ہمیشہ سے ہی عالمی سیاست میں اہم رول ادا کرتارہا ہے اور طیب اردگان کے برسراقتدار آنے کے بعد ترکی نے اپنی پالیسی کو مغرب اور ناٹو کے سائے سے نکال کر آزادانہ طور پر اختیار کی ہے۔ ابتدامیں یوروپ ناٹو اور امریکہ وغیرہ نے ترکی کی موجودہ قیادت کو نظرانداز کرنے کی ناکام کوشش کی تھی مگر اب ایک ترقی یافتہ اور خوشحال طاقت جو اسلحہ سازی کے میدان میں اپنے جھنڈے گاڑرہی اور سائنس ٹیکنا لوجی کے میدان میں بھی اپنا مقام بنایا ہے۔ آج عالمی سطح پر اپنی سفارت کاری کے جو ہر دکھارہی ہے اور روس کی قیادت والا بلاک ہو یا ناٹو ممالک- ترکی اپنا مقام بنا چکا ہے، اس طرح سعودی عرب بھی موجودہ نوجوان لیڈر محمد بن سلمان کی مضبوط اور روشن خیال قیادت ، فرسودہ روایتی طور طریقوں کو پیچھے چھوڑ کر بالکل منفرد انداز میں قائدانہ رول ادا کررہی ہے اور آج یہ دو عظیم لیڈر اپنی پرانی رقابت کو ترک کرکے ایک دوسرے کے ساتھ مراسم کو مستحکم اور ثمر آور بنانے کی سعی کررہے ہیں۔ یہ ملاقات عالمی سیاست میں میل کا پتھر ثابت ہوسکتی ہے ۔ دونوں طاقتوں اور اس کے علاوہ عالم اسلام نے گزشتہ دو دہائیوں کے تجربات میں محسوس کرلیا ہے کبھی ایک بلاک اور کبھی دوسرے بلاک کا آلۂ کار بننے سے بہتر ہے خود اپنے مفادات اور معاملات کو مد نظررکھتے ہوئے آزادانہ پالیسی واضح کی جائے اور اپنے حلیفوں اور رفیق ملکوں کے ساتھتعاون کیا جائے۔
ترکی یوروپی ملک ہے ، ناٹو کا ممبر ہے، ترکی میں جمہوریت کی جڑیں، امریکہ اور برطانیہ سے زیادہ گہری ہیں اور ترکی میں جمہوری نظام میں فوج کی مداخلت کو بھی بالکل ختم کردیا گیا ہے۔ ترکی کا سماج کسی یوروپی ملک سے زیادہ بیدار اور باشعور سماج سے ہے۔ اقتصادی ، صنعتی اور دیگر جدید میدانوں میں اس کی ترقی آنکھوں کوخیران کرنے والی ہے۔ عالم اسلام میں اس کی اہمیت اور شاندار تاریخ پر لکھنے کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہیں، اس کے باوجود یوروپی یونین، اس کو مکمل درجہ دینے میں تامل کررہی ہے۔ فرانس جیسے ممالک جن کا افریقہ اور دیگر ممالک میں انتہائی شرمناک ماضی ہے، مختلف بہانوںسے یوروپی یونین میں اس کی مکمل طور پر شمولیت پر رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے۔
پچھلے دنوں یوکرین میں روس کی کارروائی کو لے کر سعودی عرب پر پٹرول اور دیگر توانائی کے وسائل کی سپلائی بڑھانے کے لیے دبائو ڈال رہا تھا مگر سعودی عرب نے ایک اپنی مرضی اور اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے آزادانہ فیصلے کیے ہیں۔ بہرحال سعودی عرب سے محبت اور عقیدت اپنی جگہ اس عظیم ملک کی قیادت نے دوراندیشی کے شواہد پیش کیے ہیں وہ لائق تحسین ہیں۔ یوکرین کے تناظر میں اس کے موقف کو منفرد مقام دلایا ہے۔ آج سعودی عرب کا معاشرہ دیگر معاشروں کی طرح خواتین کو ترقی کرنے، سماجی، سیاسی اور اقتصادی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے مواقع فراہم کررہا ہے اور یہ باور کرادینا چاہتا ہے کہ عرب اور بطور خاص سعودی عرب کی آدھی آبادی (خواتین)کسی دوسرے ملک سماج یا مذہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کی طرح تمام صلاحیتوں سے آراستہ ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں عظیم ملکوں کی قیادت کس طرح اور کتنی جلدی عالم اسلام انسانیت کی فلاح ثمر آور شراکت کو یقینی بناتی ہیں۔ پوری دنیا کی نظراس ملاقات پر لگی ہوئی ہیں۔
ترکی نے عسکری اعتبار سے کئی خطوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھا یا ہے، اس میں سینٹرل ایشیا کے وہ ممالک کافی اہمیت رکھتے ہیں جو کسی زمانے میں سویت یونین کا حصہ تھے۔ اس طرح افریقہ کے کئی ممالک ، لیبیا، تیونس الجیریا و قرب جوار کے ممالک میں قابل ذکر ہیں، ترکی نے قطر اور مالیہ میں اپنے فوجی اڈے بنائے ہیں لیبیا، شام، عراق میں اس کی فوجوں کا اہم رول ہے، ناگورنا کا را باغت میں ترکی نے کلیدی رول ادا کیا ہے جبکہ فلسطین کے معاملہ میں اس نے فلوٹیلہ بھیج کر جرأت مندانہ اقدام کرکے اپنی اہمیت کو منوالیا ہے۔ آج اسرائیل بھی اس سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔
وہ اس کو منفرد مقام پر کھڑا کرتا ہے اس طرح ناٹو کا دم چھلہ بننے کی بجائے ترکی نے روس کے ساتھ قریبی رشتے بنائے ہیں۔ روسی ڈیفینس سسٹم خرید کر ناٹو کو انگشت بہ دندان کردیا ہے۔ ترکی نے عالمی معیشت میں اپنی منفرد حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے چین، قطر، سائوتھ کوریا اور یو اے ای کے ساتھ اپنی کرنسیوں میں تجارت کی ہے، یہ تجارت ان ملکوں کی قومی کرنسیوں میں لین دین تقریباً 28ملین ڈالر کا ہوگیا ہے، ظاہر ہے کہ مغربی ممالک کی بالادستی والے’’ عالمی اقتصادی‘‘ نظام کے لیے یہ کوئی نیک شگن نہیں ہے اور امریکہ اور مغربی ممالک کی بالا دستی کو چیلنج کرنے والا ہے۔ انقرہ سعودی عرب کے ساتھ اسی طرح کے اقتصادی سمجھوتوں کی امید لگائے بیٹھا ہے، سعودی عرب اور ترکی میں تجارتی سمجھوتے دونوں ملکوں کے لیے ثمر آور ثابت ہوں گے۔ ترکی دیگر عرب ملکوں جیسے یو اے ای کے ساتھ کئی سمجھوتے کیے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS