Image:RRS Urdu

حوصلہ افزا مگر اندیشوں سے پاک نہیں
سنجے رائے
ہندوستان اور پاکستان نے ایک بار پھر باہمی تعلقات کو نئے سرے سے جوڑنے کی کوشش شروع کی ہے۔ پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل قمر باجوہ کے ذریعہ پاکستان کے ایک پروگرام میں دیے گئے نرمی کے اشارے کے بعد ہندوستان نے نئے سرے سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ اس کے تحت دونوں طرف سے فوجی عہدیداروں کی میٹنگ میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا سمجھوتہ نافذ کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ اس کے علاوہ سندھو ندی کے پانی کے مسئلے کے حل کے لیے دونوں ملکوں کے عہدیداروں کی ایک دو روزہ اہم میٹنگ نئی دہلی میں منعقد ہوئی۔ اب چرچا ہے کہ دونوں ممالک جلد ہی دلّی اور اسلام آباد میں واقع اپنے ہائی کمیشنوں میں پوری مدت والے ہائی کمشنروں کو بحال کریں گے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی یہ کوشش ایسے ماحول میں شروع کی گئی ہے جب جموں و کشمیر اور لداخ کی زمینی حقیقت پوری طرح بدل چکی ہے۔ جموں وکشمیر اور لداخ مرکز کے زیر انتظام دو الگ الگ علاقے بن چکے ہیں اور ہندوستان کے آئین میں دیا گیا ان کا خصوصی ریاست کا درجہ ختم ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہاں پر حریت کانفرنس کی معنویت پوری طرح ختم ہوچکی ہے اور ریاست میں اہم کردار نبھانے والی دو اہم سیاسی پارٹیوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے اعلیٰ لیڈروں کی بدعنوانی عوام کے سامنے آچکی ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں عوام کے درمیان اپنی ساکھ ہوچکی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے قبضے والے جموں و کشمیر اور لداخ میں سیاست کی نئی پود تیار ہو رہی ہے۔ یہ ایک ایسی پود ہے جو بدلتے حالات کو قبول کر کے ریاست کی ترقی کے لیے وقف رہنے والی ہے۔
تعلقات بحال کرنے کی موجودہ کوشش کے مستقبل پر غور کرنے سے پہلے ہمیں مشرقی لداخ میں ہند-چین تنازع پر بھی غور کرنا ہوگا۔ اس نے چین اور پاکستان کے دل و دماغ میں برسوں سے جڑ جما چکی اس خام خیالی کو دور کر دیاہے کہ بھارت چین کے حوالے سے 1962 کی شکست کی احساس کمتری کا شکار ہے۔ بھارت نے جس طرح لداخ میں چین کی ناپاک حرکت کا جواب دیا ہے، اس سے پاکستان کی آنکھیں کھل چکی ہیں۔ اقتصادی بدحالی کے دور سے گزر رہے پاکستان کے پاس بھارت سے بات چیت کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل ہی نہیں بچا ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس بات چیت کی شروعات کے بعد دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات بہتر ہو جائیں گے؟ کیا پاکستان کشمیر کو لے کر دہشت گردی پھیلانے کی پالیسی پر نئے سرے سے غور کرے گا؟ کیا پاکستان اپنی زمین کا استعمال ہند مخالف سرگرمیوں کے لیے نہیں کیے جانے کے اپنے پرانے وعدے پر عمل کرے گا؟ ان سوالوں کا جواب جاننا بے حد ضروری ہے، کیونکہ یہ جواب پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی اصلی کسوٹی ہیں۔
مانا جا رہا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی اس کوشش کے پیچھے عرب اور متحدہ عرب امارات کا پردے کے پیچھے ادا کیا گیا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ حالانکہ حکومت کی طرف سے نہ تو اس کی تردید کی گئی ہے اور نہ اس کی تصدیق کی گئی ہے، البتہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں امریکہ اور چین نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ چین کی طرف سے بات چیت کا خیر مقدم کیے جانے کے پیچھے جو وجہ نظر آ رہی ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستان سے گزرنے والی اس کی او آر او بی سڑک منصوبے میں پھنسا پینچ شاید سلجھ جائے۔ امریکہ کے سامنے چین کے بڑھتے دائرئہ اثر کو روکنے اور پاکستان کو اقتصادی بدحالی سے باہر نکالنے کے دوہرے مسئلے ہیں۔ کمزور پاکستان کامطلب ہے وہاں پر چین کے اثرات میں اضافہ۔ امریکہ اس طرح کی صورت حال کبھی بھی بننے نہیں دینا چاہے گا۔ افغانستان کے سیاسی استحکام میں پاکستان کا جوکردار ہے، امریکہ کے سامنے وہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ پاکستان اقتصادی بدحالی کے دور سے باہر نکلے۔
اب کلیدی ایشو پر آتے ہیں۔ اپنے خاص جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان یوروپی ملکوں کی اسٹرٹیجی اور عملی اقدامات کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ آج جس طرح کے عالمی حالات ہیں، اس میں پاکستان ایک بار پھر سے امریکہ اوراس کے اتحادی مغربی ملکوں یعنی ناٹو کی اسٹرٹیجی کا محور بنتا نظر آ رہا ہے۔ یہ علاقہ بھارت کو وسطی ایشیا کے بڑے بازار سے جوڑ سکتا ہے۔ اگر بھارت پاکستان کے مابین مذاکرت صحیح سمت میں آگے بڑھے تو بھارت کو اس بازار تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آج جس طرح کے حالات بنے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی اس کوشش کو امریکہ اورمغربی ملکوں کا بھرپور تعاون ملے گا لیکن سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کئی ملکوں کے ہاتھوں کا کھلونہ بنا پاکستان کیا بھارت کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو اس حد تک لے جانے کے لیے تیار ہوگا؟ پاکستان میں فی الحال جو جمہوریت نظر آ رہی ہے، وہ فوج کی بیساکھی پرٹکی ہوئی ہے، خاص طور پر بھارت کے تناظر میں وہاں کی فوج کا ہی فیصلہ اہم ہوتا ہے۔ بدلتے حالات میں پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیاں سست پڑی ہیں مگر ختم نہیں ہوئی ہیں۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ آنے والے وقت میں پاکستان پھر سے ان تنظیموں کا استعمال نہیں کرے گا۔ پاکستان کی کشمیر پالیسی میں کوئی بہت بڑی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ ہاں، فوج کا بیان اس طرف ضرور اشارہ کرتا ہے کہ اس کے پاس کشمیر میں بھارت کے ذریعے کی گئی تبدیلی کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں۔
جنرل باجوہ کا یہ کہنا کہ ہمیں گزری باتوں کو بھول کر آگے کے بارے میں سوچنا ہوگا، ایک ’چھلاوہ‘ ہی لگتا ہے۔ ان کا یہ بیان مجبوری میں دیا گیا لگتا ہے، کیونکہ پاکستان کے سامنے اپنی اقتصادی بدحالی کو دور کرنے کے لیے سب سے پہلے ایف اے ٹی ایف کی گرے فہرست سے اپنا نام باہر نکالنے کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو پتہ ہے کہ بھارت کے تعاون کے بغیر یہ کام مشکل ہے، اس لیے اسے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو ٹھیک کرنے کے لیے مجبوری میں آگے بڑھ کر ہاتھ ملانے کی پہل کرنی پڑی ہے۔ مجبوری میں بنائے گئے تعلقات مجبوری کے ختم ہونے تک ہی رہتے ہیں۔ بھارت-پاک تعلقات کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو یہ بات بالکل صحیح ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان نے ایک نہیں، کئی بار بھارت کے ساتھ دوستی کی کوشش شروع کی ہے لیکن وقت بدلتے ہی اس نے اپنا اصل رنگ دکھایا ہے۔ یاد کیجیے، جنرل پرویز مشرف کے اس بیان کو جب انہوں نے کہا تھا کہ کشمیر ہر پاکستانی کی رگ رگ میں دوڑتا ہے۔ کشمیر کے لیے جنرل پرویز مشرف نے کارگل میں فوج کی دراندازی کرائی اور پوری دنیا میں بدنامی کی وجہ سے پاکستان بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا تھا۔ اس کے بعد جنرل مشرف کو باہمی تعلقات بہتر بنانے کا موقع دیا گیا تھا۔ تعلقات کو بہتر بنانے کی سمت میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے آگرہ میں تقریباً دودہائی پہلے جو پہل کی تھی، وہ تاریخ کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ جنرل مشرف بغیر کسی اتفاق رائے کے درمیان میں ہی مذاکرات چھوڑ کر راتوں رات اسلام آباد لوٹ گئے تھے۔
کشمیر پر بھارت کا رخ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا ہے۔ ظاہر ہے، اب پاکستان کو اس ایشو پر اپنے رخ میں تبدیلی کرنی ہی ہوگی۔ جموں و کشمیر ریاست سے وابستہ دستاویزی ثبوت اس کے حق میں کبھی نہیں رہے۔ آج وہ اقتصادی محاذ پر اپنے وجود کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنے پر مجبور ہے۔ ایسی صورت میں بھارت کو چاہیے کہ وہ وادی میں اپنی اسٹرٹیجی کو اور زیادہ مضبوط کرے۔ کشمیر کو ڈائرکٹ ٹرین سے جوڑ کر جس دن پورے بھارت تک وہاں کی اشیا کی رسائی ہوگئی تووہاں کی اقتصادیات کا بڑا فائدہ ہوگا۔ یہ کام جس تیزی کے ساتھ ہونا چاہیے، اتنی تیزی سے ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ اس سمت میں بھارت کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو پاکستان کے ساتھ اپنی شرطوں پر اقتصادی تعلقات کو آگے بڑھانے پر غور کرنا ہوگا۔ اقتصادی محاذ پر اگر بھارت-پاکستان سے متوقع نتائج حاصل کر سکتا ہے تبھی تعلقات کو بہتر بنانے کی اس پہل کا کوئی مطلب ہے۔ فی الوقت دیکھنا یہ ہوگا کہ بھارت پاکستان یہاں سے اپنے تعلقات کو کس سمت میں لے جاتے ہیں۔
(مضمون نگار ’آج‘ ہندی دینک کے نیشنل بیورو چیف ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS