ذکی نور عظیم ندوی -لکھنؤ
عیداسلام کا اہم ترین شعار اور مسلمانوں کی خوشی کا سب سے اہم موقع ہے، یہ اللہ کی مکمل اطاعت یعنی روزوں کے بعد اللہ کی کبریائی اور عظمت کا اعلان اور بندہ کی طرف سے مکمل اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار ہے۔ جو دراصل اسلام کا دیا گیا سالانہ اجتماعی خوشی کا ایک مکمل نظام ہے، جس میں خود بھی خوش رہنے اور دوسروں کو بھی خوشی کے مواقع فراہم کرنے کا مطالبہ ہے۔ اسی لئے اس میں بچوں یہاں تک کہ ان عورتوں کو بھی عیدگاہ لے جانے کا حکم ہے جو شرعی مجبوری کی وجہ سے نماز بھی نہیں پڑھ سکتیں۔
خوشی کا یہ دن اس روزہ کے بعد ہے جس کا مقصدبندوں کے اندر تقویٔ، اللہ کا پاس و لحاظ اورہر شر سے بچنے کا مزاج پیدا کرنا ہے، یہ اس روزہ کے بعد ہے جس کو ’’ڈھال‘‘ قرار دیا گیا کہ اس کا مقصد ہر برائی، عیب، گناہ، نافرمانی، حق تلفی اور ہر طرح کے ظلم و زیادتی سے اس کو ڈھال اور بچائو بنانا ہے۔یہ اس روزہ کے بعد ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ جس نے جھوٹ اور جھوٹے معاملات نہیں چھوڑے اللہ کو اس کے روزہ کی ضرورت نہیں(بخاری عن ابی ہریرہ)، یہ اس روزہ اور قیام و تراویح کے بعد ہے جس میں نبی اکرم ؐ نے کہا کہ کتنے روزہ دار اور تراویح پڑھنے والے ایسے ہیں جنہیں سوائے بھوک اور رات جاگنے کے علاوہ کچھ(ثواب) نہیں ملتا(ابن ماجہ عن ابی ہریرۃ)اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی گالی بھی دے تو آپ یہ پیغام دیں کہ میں روزہ دار ہوں اس حد تک نہیں گرسکتا (متفق علیہ عن ابی ہریرۃ)
یہ اس روزہ کے بعد ہے جس کے بعد بھوک اور پیاس کا کسی قدر احساس ہوا لہٰذا چاند دیکھتے ہی یہ حکم ہے کہ نماز سے پہلے غریبوں کو صدقہ فطر ادا کرکے روزہ میں ہونے والی غلطیوں کی تلافی اور اس دن مسکینوں کے گھر کھانے کا انتظام کیا جائے۔ اور حکم ہوا کہ پورے مہینے روزہ، قیام اور تلاوت کی توفیق اور اس کے عوض بے شمار فوائد وانعامات خالص اللہ کی توفیق اور نوازش ہے لہٰذا اس پر اللہ کی کبریائی اور عظمت کا اعلان کرو اور باآواز بلند تکبیر ’’اللہ اکبراللہ اکبر،لا الاہ الا اللہ، اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد‘‘پڑھو۔
یقینا عید بہت بڑی اور عظیم خوشی ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں نے ایک مہینے کا سالانہ تربیتی کورس مکمل کیا، اللہ کے حکم کے مطابق روزہ اور تراویح کا اہتمام کیا، اس لیے عید کی نماز گویا یہ اعلان ہے کہ ہم خوشی میں بھی اللہ کے سامنے جھکتے اور عیدین کی نماز ادا کرتے ہیں، اور صدقہ فطر کی ادائیگی سے یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہماری خوشی ادھوری ہے اگر سماج کے دبے کچلے غریب پریشان حال بھی خوش نہیں، اسی لئے تو صدقہ فطر ادا کرکے اس کو بھی اس خوشی میں شامل کرنے کے پابند کئے گئے ہیں۔
یاد رکھیں کہ ہم یہ عبادتیں اللہ کے لیے کرتے تھے رمضان کے لیے نہیں، رمضان کا مہینہ جارہا ہے لیکن رمضان کا رب اللہ موجود ہے، قرآن کی عظمتیں، ہدایتیں اور اس کا ثواب اب بھی برقرار ہے، نفلی روزہ کے بھی مواقع موجود ہیں اور اللہ کا حکم ہے کہ اللہ کو پابندی سے کیے جانے والے اعمال زیادہ پسند ہیں چاہے وہ کم ہی ہوں(بخاری عن عائشۃ) لہٰذارمضان کے بعد شوال کے چھ نفلی روزے جو زندگی بھر کے روزے کے ثواب کا ذریعہ ہیں ہمیں اسے بھی رکھنا چاہئے۔
عید الفطرصرف ایک رسم اور عام تہوار نہیں بلکہ ایک الٰہی نظام اور نبوی تعلیمات سے بھرپور خوشی کا عظیم موقع اور سماج کی اصلاح اور اس کو پیارو محبت اور اپنائیت سے منانے کا ایک سنہرا موقع اور پیغام ہے جس میں اسلام مسلمانوں سے چند اہم مطالبے کرتا ہے۔
پہلا مطالبہ صدقہ فطر کی ادائیگی: صدقہ فطر اسلام میں امیر و غریب کے باہمی ربط اور تعلق کی علامت اور یہ وضاحت ہے کہ اسلام میں غرباء، مساکین کی خبرگیری، ان کی مدد، دوسروں کے ساتھ ان کی خوشی کی فکر اور اس میں اضافہ کی کوشش صرف انسانی نہیں بلکہ خالص اسلامی فکر و عمل ہے۔ عید کا چاند دیکھ کر مسلمان پر (جس کو رمضان کے روزہ میں بھوک کی شدت کا کسی قدر احساس ہوا) عید کی نماز سے پہلے مستحقین کی تلاش اور ان کی ضرورت کے مطابق خوراکی کے طور پر ایک ’’صاع‘‘ اناج (تقریبا ڈھائی تین کلو) ان تک پہنچانے کا پابند کر دیا گیا۔
صدقہ فطر فائدے، وقت اور مقدار:صدقہ فطر کے دو بڑے فائدے ہیں (۱)روزہ دار سے روزہ کی حالت میں ہونے والی غلطیوں اور خامیوں کی پاکی و تلافی(۲) عید کے دن ضرورتمندوں، مسکینوں و پریشان حال لوگوں کے کھانے اور غذا کا بھی انتظام۔حدیث میں اس کی ادائیگی کا اصل وقت عید کاچاند دیکھنے کے بعد سے نماز کے پہلے پہلے تک رکھا گیا ہے تاکہ کم از کم اس دن کوئی بھوکا نہ رہے۔ابوداوئودمیں ابن عباس کی حدیث میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ اگر یہ نماز کے بعد ادا کیا جائے تو عام صدقہ ہوگا ’’صدقہ فطر‘‘ نہیں۔ بخاری میںعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں اسے ایک دو دن پہلے دینے کی گنجائش دی گئی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ کی حدیث میںصدقہ فطر گھر کے تمام لوگوں ہر مرد وعورت، چھوٹے وبڑے کی طرف سے نکالنے کی وضاحت کی گئی (متفق علیہ)اس کی مقدار ایک ’’صاع‘‘ ہے، جو ناپنے کا ایک برتن ہے اور ناپی جانے والی چیز الگ الگ کوالٹی کی الگ الگ وزن میں ہو سکتی ہے اسی وجہ سے اس کا وزن حجاز کے صاع کا اعتبار کرتے ہوئے ڈھائی سے تین کلو بتایا گیا ہے اور بطور احتیاط تین کلو کی ادائیگی کو بہتر قرار دیا گیا ہے۔
دوسرا مطالبہ تکبیر تشریق پڑھنا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن آواز کے ساتھ تکبیر پڑھتے تھے جو ایک طرح سے اللہ کی عظمت و کبریائی کا اعلان ہے (الدار قطنی عن ابن عمر) لہٰذا چاند دیکھنے کے بعد عید کی نماز سے پہلے پہلے تکبیر کے یہ الفاظ ’’اللہ اکبراللہ اکبر،لا الاہ الا اللہ، اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد‘‘پڑھو۔
بکثرت اور خاص طور پر عید کے لئے جاتے وقت پڑھنا چاہئے۔
تیسرا مطالبہ غسل کرکے اچھے کپڑے پہننا: عید کے دن نماز سے پہلے غسل کرنا اور جو اچھا و بہتر کپڑا موجود و میسر ہو اس کو پہننا، عطر لگاناجیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کرتے تھے (مؤطا امام مالک عن نافع)
چوتھا مطالبہ نماز سے پہلے کچھ کھانا: عید الفطر میں نبی اکرم ؐ کی سنت نماز سے پہلے کچھ اور عام طور پر کھجور کھانا بھی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر میں بغیر کچھ کھائے نماز کے لیے نہیں نکلتے تھے اور عید الاضحی کی نماز سے پہلے کچھ نہیں کھاتے۔(ترمذی عن عبداللہ بن بریدہ عن ابیہ) پانچواں مطالبہ عید کی نماز پڑھنا: عید کا سب سے اہم عمل عید کی نماز ہے جو نبی اکرم ؐ آبادی سے باہر جا کر عید گاہ میں زائد تکبیروں کے ساتھ ادا فرماتے اور نماز کے بعد خطبہ دیتے۔
[email protected]
عید اللہ کی عظمت اور اس کی اطاعت کا اعلان ہے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS