کیا اتر پردیش جنگل راج میں تبدیل ہو چکا ہے؟

0
کیا اتر پردیش جنگل راج میں تبدیل ہو چکا ہے؟

عبدالماجد نظامی

معروف امریکی دانشور فرانسیس فوکویاما نے جب سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد90کی دہائی میں اپنی معرکۃ الآراء کتاب’’The End of History and the Last Man‘‘لکھی تو اس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انسانی تاریخ اپنی ارتقاء کے مراحل طے کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچ چکی ہے جس کے بعد مزید ترقی کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہی اس کا نقطۂ عروج ہے۔ فوکویاما کے مطابق مغربی لبرل ڈیموکریسی انسانی ترقی کی معراج مانی گئی تھی کیونکہ اب انسانیت ماضی کے دورِ بربریت سے آزاد ہوچکی ہے۔ اب جنگل کا قانون سماج پر نافذ نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک مہذب دنیا وجود میں آچکی ہے جہاں قانون کی بالادستی ہے اور انسان کے بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے نہایت مؤثر اور قابل عمل قوانین وضع کیے جا چکے ہیں جن کی رو سے عدل و انصاف کا نظام قائم کیا جاتا ہے اور ہر فرد کی جان و مال کی حفاظت کی ضمانت قانون میں موجود ہے۔ اسی کتاب میں یہ پیشین گوئی بھی کی گئی تھی کہ دنیا کے جن حصوں میں اب تک مغربی لبرل ڈیموکریسی نہیں پہنچی ہے، وہاں پہنچانے کی کوشش کی جائے گی اور آخرکار ہر ملک اس نظام کو اپنانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گا کیونکہ یہی ترقی و توازن کا عالمی معیار پیش کرتا ہے۔ فوکویاما کے اس دعویٰ میں کتنی سچائی تھی اس پر بات کرنا اس وقت مقصود نہیں ہے لیکن اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ جمہوری نظام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس میں قانون کی بالادستی ہوتی ہے اور دستور کی روشنی میں انصاف کو قائم کرنے کی ذمہ داری عدالت پر رکھی گئی ہے۔ مقننہ، عدلیہ اور تنفیذی ادارے ہر ایک کی ذمہ داریاں طے کی جا چکی ہیں تاکہ سماج میں عدم توازن پیدا نہ ہو اور قانون کے غلط استعمال سے عوام کو بچایا جائے۔ لیکن اگر اترپردیش میں صرف ماہ اپریل کے اندر وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ فوکویاما کی بات بالکل بے معنی نظر آتی ہے کیونکہ اس ریاست میں تمام تر جمہوری اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر جنگل راج کا جیتا جاگتا نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ عتیق اور ان کے بھائی اشرف کو جس ڈھنگ سے15اپریل کو پولیس کی حراست میں تین غنڈوں نے قتل کر دیا اور پولیس تماشائی بنی رہی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خود قانون کے محافظوں نے قانون کی حفاظت کے تئیں عائد ہونے والی اپنی دستوری ذمہ داریوں کو جان بوجھ کر نہیں نبھایا۔ جو لوگ اس قتل میں ملوث تھے، ان کے جو نعرے اور بیانات میڈیا میں آئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں خود اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے اس بیان سے شہ ملی ہے جو انہوں نے25فروری کو ریاست کی اسمبلی میں دیا تھا۔ آدتیہ ناتھ جو کہ ہندوتو کے عناصر کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ بن کر ابھرے ہیں اور جو ماضی میں اقلیتی طبقہ کے خلاف اپنی زہر افشانی کے لیے معروف رہے ہیں، انہوں نے اسمبلی میں کہا تھا کہ ’’اس ہاؤس میں کہہ رہا ہوں کہ مافیا کو مٹی میں ملا دیں گے۔‘‘ ظاہر ہے کہ ان کے پیروؤں نے ان کے اس بیان سے جو مطلب نکالا اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اگر انہوں نے اس جرم کو انجام دیا تو ان کی پشت پناہی ہوگی اور تشددپسند ہندوتو کا وہ ہیرو بن جائیں گے۔ موقعۂ واردات پر عتیق اور اشرف کو قتل کرنے کے بعد ان مجرموں نے ’’جے شری رام‘‘ کا جو نعرہ دیا تھا، اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ قتل آئیڈیالوجی کی بنیاد پر تھا۔ خواہ عتیق احمد اقلیتی طبقہ میں قابلِ تقلید نہ رہے ہوں لیکن ایسے تمام جرائم سے ہندوتو کے شدت پسندوں کو تسکین ہوتی ہے۔ اس جرم کے وقوع پذیر ہونے سے قبل اور بعد میں خود پولیس کا جو رویہ تھا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان مجرموں کے ساتھ ان کی ہمدردی تھی۔ اگر ایسا نہیں تھا تو ان مجرموں پر اترپردیش کی پولیس نے گولی کیوں نہیں چلائی جبکہ یہی پولیس اپنی ریاست میں انکاؤنٹر کے لیے معروف ہے اور2017کے بعد جب سے آدتیہ ناتھ وزیراعلیٰ بنے ہیں، اب تک184لوگوں کو انکاؤنٹر میں مار ڈالا گیا ہے۔ خود عتیق احمد کے19سالہ بیٹے اسد کو اسی یوپی کی پولیس نے 13اپریل کو اس دعویٰ کے ساتھ انکاؤنٹر میں قتل کر دیا تھا کہ اس نے پولیس پر گولی چلائی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر پولیس پر گولی چلانے کی پاداش میں انکاؤنٹر کیا جا سکتا ہے تو پھر ایک ایسے مبینہ ملزمان کو قتل کرنے والوں پر گولی کیوں نہیں چلائی گئی جن کی حفاظت کی ذمہ داری پولیس کی تھی؟ پولیس نے مجرموں کے ساتھ اپنی ہمدردی کا دوسرا ثبوت یہ پیش کیا کہ انہیں اپنی ریمانڈ میں لینے کی درخواست نہیں کی بلکہ جوڈیشیل ریمانڈ میں جانے دینے پر رضا مندی ظاہر کی۔ کیا اگر ان مجرموں کا تعلق مسلم اقلیتی طبقہ سے ہوتا تو پولیس کا رویہ اس وقت بھی اتنا ہی لچکدار اور ہمدردی پر مبنی ہوتا؟ واضح ہے کہ ایسا نہیں ہوتا۔ خود اس ملک کی سب سے اونچی عدالت کا رویہ اس معاملہ میں بہت پر امید نہیں تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آرٹیکل32کے مطابق سپریم کورٹ سے رجوع کرنا بنیادی حقوق میں شامل ہے اور عتیق احمد نے اس حق کا استعمال کیا تھا۔ یہ آرٹیکل کس قدر اہم ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر جی نے اس کو دستور کی روح قرار دیا تھا۔ اسی لیے عتیق احمد نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جو کہ بنیادی حقوق کا محافظ ہے اور خاص طور سے زندہ رہنے کا جو بنیادی حق ہے، اس کو سب سے اوپر رکھا جا تا ہے۔ عتیق احمد کو چونکہ خطرہ تھا کہ اس کی جان لی جا سکتی ہے، اس لیے سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی کہ وہ ان کی حفاظت کا سامان کرے۔ لیکن سپریم کورٹ نے نہ صرف یہ کہ عتیق احمد کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے ان کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا بلکہ جج صاحب نے ایک نہایت ذمہ دارانہ بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’’اسٹیٹ مشینری تمہارا خیال رکھے گی۔‘‘ اپنے اس عمل سے سپریم کورٹ نے دستوری ذمہ داریوں سے پہلو تہی کا ارتکاب کیا ہے جیسا کہ ممبر پارلیمنٹ مہووا موئترا نے انڈین ایکسپریس میں شائع اپنے مضمون میں لکھا ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ عتیق احمد کی جان کو خطرہ تھا، ان کی درخواست کو مسترد کرنے اور انہیں ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دینا بالکل معقول نہیں تھا۔ کوئی بھی شخص وہ خواہ کتنا ہی خونخوار مجرم کیوں نہ ہو، اس کے جرائم کی سزا کا جو طریقہ قانون نے طے کیا ہے اسی کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگر ہر شخص اپنے ہاتھ میں قانون لے لے اور مجرموں کو صاف کرنے کا بیڑا اٹھا لے تو ایسا معاشرہ پرامن رہنے کا خواب نہیں دیکھ سکتا اور انارکی پھیل جائے گی۔ مجرموں کو ختم کرکے پرامن ریاست بنانے کا جو دعویٰ آدتیہ ناتھ کر رہے ہیں، اس سے ان کے چند پیروکار تو خوش ہوسکتے ہیں لیکن جمہوریت اور قانونی بالادستی کے نظام کو کبھی ترقی نہیں مل سکتی اور اس کا قوی امکان ہے کہ خود ان کی پارٹی کو مستقبل میں اس کی بڑی قیمت چکانی پڑے اور اقتدار سے بے دخلی کا ایک طویل سلسلہ ان کا مقدر بن جائے۔ کسی خاص طبقہ سے بے جا عداوت کا بھوت اس قدر دل و دماغ پر حاوی نہیں کرنا چاہیے کہ اس سے معاشرہ کا توازن ہی پورے طور پر بگڑ جائے۔ اس کے علاوہ عوام کے ذریعہ منتخب نمائندوں کو اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ ایسا کوئی بیان نہ دیں جس سے جرائم پیشہ عناصر کو شہ ملتی ہو ورنہ جنگل راج آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بی جے پی ہمیشہ بہار کے سابق وزیراعلیٰ لالو یادو کو جنگل راج کا طعنہ دیتی رہتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یوپی میں جو کچھ گزشتہ پانچ سالوں سے ہو رہا ہے، اس کے بعد بی جے پی کے پاس کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہ جاتا ہے کہ وہ دوسروں پر جنگل راج کا الزام لگائے۔ ریاست اترپردیش کے عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی سیاست کرنے والوں کو اپنا نمائندہ منتخب نہ کریں ورنہ نسلوں کی تباہی سے ان کا شدید نقصان ہوگا اور اس کی تلافی میں کئی دہائیاں گزر جائیں گی۔ نفرت کی سیاست ملک کو کمزور کرتی ہے اور اپنے ہم ملکوں کے ساتھ نفرت کرنے والا سماج ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS