عید اور ہماری ذمہ داریاں

0

یہ درست ہے کہ امسال بھی عید ایک ایسے موقع پرآئی ہے جب کورونا کی دوسری لہر نے پنجے گاڑ رکھے ہیں اور ہر آن اور ہر لحظہ موت کی آہٹ سنائی دے رہی ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ آج تک ہم نے نہ جانے کتنی ہی عیدیں آزادی سے منائی ہیں اورآئندہ بھی منائیں گے۔اگر آج عید وبائی ایام میں آگئی ہے تو شکوے شکایت زیب نہیں دیتے ہیں۔ویسے بھی عید امت مسلمہ کیلئے اس متبرک یوم کا نام ہے جس روز رب العالمین خود میزبان ہونے کی خوشخبری دیتاہے۔اس لیے حزن و ملال میں عید گزارنا ٹھیک نہیں ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی وباکے ایام میں آنے والی اس عید میں حفظ ماتقدم کے طورپر پابندیوں کا التزام بھی ضروری ہے۔انسانیت کو آزمائش میں ڈالنے والے اس وبا کے قیامت خیز دائرے میں رہ کر ہی ہمیں اس عیدکے موقع پر نہ صرف اپنی بلکہ پورے معاشرے کو خوشیوں کو دوبالا کرنا ہے۔
خوشیوں کا تعین بقدرزمانہ و پیمانہ تبدیل ہوتارہتا ہے۔ آج ہم جن حالات سے دوچار ہیں اس کا تقاضہ ہے کہ عید منانے کے ایسے طریقے وضع کریں جو معاشرے میںخوشی کا باعث بنے۔ وبا نے پوری دنیا کی طرح ملک عزیز ہندوستان میں بھی ہماری ذمہ داریوں میںبہت اضافہ کر دیا ہے۔ آج یومیہ ہزاروںلوگ اس وبا سے ملک عدم رخصت ہورہے ہیں۔ کوئی اسپتال پہنچے بغیر تو کوئی اسپتال پہنچ کر آکسیجن، دوائوں اورطبی عملہ کی قلت کا شکار ہوکر ہم سے رخصت ہورہاہے۔ اور پھر اس کے بعد پورے ملک میں کورونا سے مرنے والوں کی تدفین اورا نتم سنسکارایک انسانی المیہ بن کر ہمارے سامنے آیا ہے۔ خوف اور دہشت میںلوگ کورونا مہلوکین کو دریا برد کر رہے ہیں۔ ایسے میںہماری ذمہ داریاں کہتی ہیںکہ ہم اپنی خوشی کے اظہار کا طریقہ بدل لیں۔ بیماروں کی خدمت کے علاوہ تدفین اورانتم سنسکارکی ذمہ داری بھی عید کی خوشی میںشامل کرلیں تاکہ ہمارا معاشرتی حق ادا ہو اور ہمارا رب اپنی میزبانی پر ہم سے راضی ہو جائے۔اس وبا میںدہلی کے عبدالستار انصاری ہمارے لیے قابل تقلید ہیں۔دہلی کے شاستری پارک قبرستان میںبلند مسجد کے رہنے والے عبدالستار انصاری نے انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کورونا مہلوکین کو اپنے کاندھے پر اٹھاکر قبرستان تک پہنچایا۔انہوںنے اپنے ہم خیالوں کے ساتھ مل کر تقریباً177کورونامہلوکین کی تدفین شاستری پارک قبرستان میںکی ہے۔ کئی غیرمسلم کورونا مہلوکین کو شمشان تک پہنچاکرانسانی فریضہ انجام دیا ہے۔جو یقینا قابل تقلید عمل ہے۔
کوروناکی اس وبا نے ملک کے کئی اعلیٰ دماغوں کو ہم سے چھین لیا ہے۔دنیائے اردو ادب سے شمیم حنفی اور مشرف عالم ذوقی،رتن سنگھ کی طرح ہندی ساہتیہ اور بنگلہ ادب کی نامور ہستیاں بھی اس وبا نے چھین لی ہیں۔ ہندوستانی معاشرے میں اٹوٹ محبت کی قندیل روشن کرنے والے مولانا وحید الدین خان، مفتی عبدالحلیم ناگپوری،مفتی سید حسنین رضا رحمانی اور مولاناولی رحمانی جیسی نابغہ روزگار شخصیات بھی اس کورونا میں اللہ پاک کو پیاری ہوگئیں۔ ہماری انتظامیہ اور عدلیہ کے بھی کئی اعلیٰ دماغ اس وبا کی نذر ہو گئے۔ بہار کے چیف سکریٹری، سپریم کورٹ کے نامور وکیل سولی سہراب جی اور سہارنپور ضلع جج طیب احمد بھی ہم سے رخصت ہو گئے۔ ان عظیم ہستیوں کی رخصت نے پورے ملک کو غم واندوہ میں ڈا ل رکھا ہے۔ اس پر روزانہ وبا کی بڑھتی قوت سے نمٹنے میںملکی وریاستی انتظامیہ کی بے بسی عید منانے والوں کیلئے لمحہ فکر یہ ہے۔ اس لیے عید کے نام پر ہم ایسا کچھ نہ کریں جو اس وبا کے بے لگام ہونے میںمدد گار ہو۔ضروری ہے کہ ہم حکومت اور محکمہ صحت کی ہدایتوں کے ساتھ اپنے اکابرین وقائدین ملت کے مشوروں پر عمل کریں۔ سیاستدانوں پر اپنا غصہ اتارنے کے بجائے وبا پر قابو پانے کی تدبیر اختیار کریں،کیونکہ ہمارے درمیان سے محمدشہاب الدین کو کورونا نے چھین لیا ہے اور کئی اسپتال میں زیرعلاج ہیں۔
یہ درست ہے کہ آج تحفظ و احتیاط یہ تقاضا کررہے ہیں سماجی فاصلہ اختیار کیاجائے، اپنے پیاروں سے محبت بھرا مصافحہ اور پرجوش معانقہ نہ کریں۔وفور جذبات میں گلے لگانے سے گریز کریں۔لیکن اس کا مطلب ہرگزیہ نہیں ہے کہ بے رخی و بے اعتنائی کی ردا اوڑھ لیںاور انسانوں سے دور بھاگیں۔ ضرورت ہے کہ ہم اس جسمانی فاصلہ کو اپنے دلوں میں گھر کرنے نہ دیں، محبت کا ایسا چراغ جلائیں جو ہر طرف چھائے ہوئے نفرت کے اندھیرے کو ختم کرنے کا سبب بنے۔ محکمہ صحت کے عملہ اور انتظامیہ کے اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کریں اور انہیںہر ممکن سہولت فراہم کرنے کا عہد کریںتاکہ وہ دیس باسیوں کی جان بچانے کی جی توڑ کوشش میں ہمت نہ ہاریں۔ ہم کوروناعہد میںعید کی خوشیوں کا تعین تبدیل کریں پھر ان شاء اللہ اس وبا پر قابو پانے میں ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔ بقول شاعر
انسان ہیں انسان کچھ اور نہیںہم

مٹ مٹ کے نئی دنیا تعمیر کریںگے
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS