مصر:رفح کے محاذ پر منڈلاتے بادل

0

پوری دنیا کی سفارتی برادری اس وقت مغربی ایشیا کے مختلف مقامات اورراجدھانیوں میں اسرائیل کو غزہ میں جنگ بندی کرانے کے لیے سرجوڑ کربیٹھی ہوئی ہے۔ مصر،قطر اور امریکہ ایک طرف دوسری طرف لبنان میں جرمنی، فرانس، برطانیہ اور لبنان کے مختلف فریق سرگرم عمل ہیں۔ ان میں کئی سطحوں پر کوششیں چل رہی ہیں۔ لبنان میں تین بڑی طاقتوں کے علاوہ امریکہ کے سفارت کار بھی ڈیرا جمائے ہوئے ہیں۔ اس وقت مغربی ممالک کی سب سے زیادہ توجہ لبنان کے میدان کارزار کو سرد کرنے پر مرکوز ہے۔ وہاں معرکہ بہت سخت ہے اور کسی کے لیے ہو نہ ہو اسرائیل کے بہت تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ادھر امریکہ کی قیادت والے نومولود اتحاد نے بحراحمر میں حوثی باغیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی کارروائی کو منظم کیاہے اور اس کا براہ راست فائدہ اسرائیل کو ہورہاہے۔ اس کا الزام ایران کی قیادت والے فوجی گروپوں کی طرف سے لگایا جارہاہے۔
امریکہ کے صدر، وزیرخارجہ اور دیگر سفارت کار جنگ بندی کرانے میں اس حد تک ناکام ہوگئے ہیں کہ انھوں نے اپنی ذمہ داریاں کافی حد تک خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سپرد کردی ہیں۔ امریکہ کے وزیرخارجہ انٹونی بلنکن جو کہ اسرائیلی قیادت کودلاسہ دینے میں اس قدر آگے پہنچ گئے تھے کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان کے خط کو بھی عبور کرگئے اورکچھ قائدین تو ٹرول والے بیانات دینے لگے بعد ازاں غلطی کااحساس ہونے پر دوسرے اداروں کو مداخلت کرنی پڑی اورجب اسرائیل کی بربریت حد سے زیادہ بڑھ گئی توامریکی قیادت نے کہنا شروع کردیا ہے کہ اپنے ملک کے فیصلے خوداسرائیل کی قیادت لے رہی ہے اور وہ اسرائیل کی (انسانیت سوز)کارروائیوں کے لیے ذمہ دارنہیں ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ مغربی لیڈر 7اکتوبر کے افسوس ناک اور دہشت گردانہ حملوں کی اس طرح مذمت کررہے تھے، جیسے یہ حملہ ان پرہی ہوا ہے۔مغربی ممالک مذمت کے معاملہ میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ اسرائیل کی قیادت ان واقعات کو 11ستمبر 2001کی طرح جوڑ کر دیکھنے لگے۔
بہرکیف، آج اور اس لمحہ تک غزہ پر اسرائیل کی بربریت جاری ہے۔ جبکہ مصرکو اب بڑی شدت کے ساتھ احساس ہونا شروع ہوگیاہے کہ اسرائیل کی مصر سے لگی سرحد پر اسرائیل کی کارروائی کے بعد پناہ کی تلاش میں ہزاروں فلسطینی کے رفح سے اس کی سرحدمیں داخل ہوسکتے ہیں۔مصرنے اپنی سرحد کو بکتربند گاڑیوں سے محفوظ ہٹاناشروع کردیاہے کیونکہ بے لگام اسرائیل اپنے شیطانی عزائم کی تکمیل کے لیے کسی حد تک بھی جاسکتاہے۔ یہاں تک کہ اس کی سرحد کے اندر کارروائی کرسکتا ہے۔ مصر کو اپنی سفارتی چالاکی پربڑاگمان ہے اورہو بھی کیوں نا، اس نے اسرائیل کے ساتھ سب سے پہلے تعلقات جوڑ کر اپنے اس بڑے قطعہ اراضی کو خالی کرانے میں کامیابی حاصل کرلی تھی جو اس نے عرب ملکوں کے ساتھ چھ دن کی جنگ (1967)میں گنوائی تھی۔ اسرائیل کے ساتھ تعاون اور ترسیل کی وجہ سے مصر کے سفارت کار اور لیڈر اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ بندیاں کرانے میں کامیاب رہے۔ اب حالات قابو سے باہرہیں،اسرائیل کسی کی نہیں سن رہا، اس کے پاس 7اکتوبر کابہت کارگر عذر ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS