خواتین کومحفوظ کرنے کی کوشش

0

دنیا آج تبدیلیوں کے ایسے دور میں داخل ہوگئی ہے جہاں مروجہ اقدار، رسم و رواج، تہذیب وثقافت حتیٰ کہ مسلمہ اخلاقیات تک سب کچھ تیز ترین واقعات کی چکی میں پستے چلے جارہے ہیں۔انسان کے سماجی و خاندانی رشتے بھی برف کی مانند لمحہ بہ لمحہ پگھل رہے ہیں۔ سماج و معاشرہ کی بنیادی اکائی خاندان کا ادارہ بھی فرسودہ اور دقیانوسی سمجھاجانے لگا ہے۔ مساوات مرد وزن کے خوش نما اور پرفریب نعرے کی آڑ میں خواتین کے استحصال کا وافر سامان مہیا کردیاگیا ہے تو ’لیو ان ریلیشن‘ کو قانون کے دائرہ میںلاکر سماجی رشتوںکی حرمت کو بھی جنس بازار بنا دیا گیاہے۔لیکن مغربی سحر میں گرفتارآنکھیں نشاط انگیز لمحوں کے سرور میں ڈوب کر ا س کے مضمرات دیکھنے سے قاصر ہیں۔ ان سب کی قیمت کوئی ادا کررہاہے تو وہ سماج کی نصف آبادی ہے۔مساوات و آزادی کے پرفریب نعروں نے اس کی عزت و وقار، عفت و عصمت حتیٰ کہ نسوانیت اور بنیادی انسانی حقوق بھی سلب کرلیے ہیں۔ایسے میںہندوستان کی عدالت عظمیٰ نے خواتین کے حق میںآج ایک تاریخی فیصلہ دیا ہے۔شادی اور غیر شادی کے امتیاز کو غیر آئینی ٹھہراتے ہوئے عدالت نے خواتین کو 20 سے 24ہفتوں کے حمل کے اسقاط کا حق تفویض کرنے کے ساتھ ساتھ ازدواجی عصمت دری کی بھی وضاحت کی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ عورت کی ازدواجی حیثیت کو اسے ناپسندیدہ حمل کو ختم کرنے کے حق سے محروم کرنے کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتاہے۔ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی بنیاد پر امتیاز کرنا غیر آئینی ہوگا۔عدالت نے واضح کیا کہ اکیلی اور غیر شادی شدہ خواتین کو بھی میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی ایکٹ (ایم ٹی پی )کے تحت حمل کے 24 ہفتوں تک اسقاط حمل کا حق حاصل ہے۔ ایم ٹی پی ایکٹ میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ خواتین کے درمیان فرق مصنوعی ہے اور آئینی طور پر پائیدار نہیں ہے۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ایک 25 سالہ غیر شادی شدہ خاتون نے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور اپنا حمل 23 ہفتے اور 5 دن میں ختم کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس نے عدالت سے کہا تھا کہ اس کا حمل اس کے ساتھی اوراس کی رضامندی سے ہوا لیکن بوجوہ وہ اسے جاری رکھنا نہیںچاہتی۔ لیکن دہلی ہائی کورٹ نے اسے اس بنیاد پرراحت نہیں دی تھی کہ غیر شادی شدہ خواتین جن کی رضامندی سے حمل ہے، وہ ایم ٹی پی ایکٹ کی کسی شق کے تحت نہیں آتیں۔ اس کے بعد اس خاتون نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔سپریم کورٹ نے کئی ایک سماعت کے بعد 23 اگست کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھااور آج اس معاملے پر تفصیلی فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے کہا کہ تولیدی خودمختاری کے حقوق غیر شادی شدہ خواتین کیلئے بھی وہی ہیں جو شادی شدہ خواتین کیلئے ہیں۔ایم ٹی پی ایکٹ کی دفعہ 3(2)(b) کا مقصد عورت کو 20-24 ہفتوں تک کے اسقاط حمل کی اجازت دینا ہے۔ لہٰذا، صرف شادی شدہ کو شامل کرنا اور غیر شادی شدہ عورت کو خارج کرنا آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہو گا۔عدالت کاکہنا ہے کہ اگر ریاست کسی عورت کو پوری مدت کیلئے ناپسندیدہ حمل کرنے پر مجبور کرتی ہے تو یہ اس کے وقار کی توہین ہوگی۔
جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والی عدالت عظمیٰ کی بنچ نے اپنے اس فیصلہ میںایم ٹی پی ایکٹ میں ’ عصمت دری‘ کے دائرہ میں ’ازدواجی عصمت دری‘ کو بھی شامل کیے جانے کی ضرورت کا ذکر کیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر شادی شدہ عورت جبری جنسی تعلقات کی وجہ سے حاملہ ہو جاتی ہے تو یہ بھی عصمت دری کے مترادف ہو سکتا ہے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ شادی شدہ خواتین بھی عصمت دری کا شکار ہو سکتی ہیں۔ عصمت دری کا مطلب ہے رضامندی کے بغیر رشتہ قائم کرنا اور ساتھی کی طرف سے تشدد ایک حقیقت ہے۔ ایسی صورت میں عورت زبردستی حاملہ بھی ہو سکتی ہے۔عدالت کا یہ مشاہدہ دراصل آج ہندوستان میں خواتین کی اصل صورتحال کا عکاس ہے۔تمام تر دعوئوں اور نعروں کے باوجود ملک میں خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں شادی شدہ خواتین کے خلاف زیادہ تر جنسی تشدد کیلئے ان کے شوہر ہی مجرم پائے گئے۔ یعنی ہر 4 میں سے 3 خواتین کیلئے ان کے شوہر دشمن ثابت ہوئے ہیں۔گزشتہ سال نومبر میں جاری ہونے والے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 5 کے مطابق شادی شدہ خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے 83فیصد معاملات میںان کے شوہر قصوروار پائے گئے کہ جب کہ 13.7 فیصد کیسز میں خاتون کے سابق شوہر مجرم ثابت ہوئے ہیں۔ایسے میںاگر عدالت نے ’ ازدواجی عصمت دری‘ کی تشریح کرتے ہوئے اسے جرم کے دائرہ میںرکھا ہے تویہ خواتین کے تحفظ اور ان کے حقوق کی بازیابی کی سمت ایک اہم پیش رفت سمجھاجاسکتا ہے۔
کیا ہی بہتر ہوتا کہ عدالت اگر ’ لیوان ریلیشن‘ جیسے غیراخلاقی و غیر عقلی معاملات پر بھی اسی کشادہ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے دو ٹوک رویہ اپناتی اور اسے واضح طور پر غیر قانونی قرار دے دیتی۔بغیر کسی اخلاقی اور سماجی ذمہ داری کے فقط جنسی تلذذ کیلئے قائم کیاجانے والا یہ رشتہ خواتین کو جنس بازار بنارہاہے، وہیں معاشرہ کی اخلاقیات کو نگل کر انسانی تہذیب کی جڑوں کو بھی کھوکھلا کررہاہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS