شنگھائی تعاون تنظیم کی افادیت

0

پروفیسر عتیق احمدفاروقی
وسط ایشیا میں واقع ازبکستان کے ثمرقند میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس -سی-او) کی چوٹی کانفرنس گزشتہ دنوں چرچہ کا موضوع رہی۔اگر اس کے نمایاں پہلو کا ذکر کیاجائے تو وہ ہے وزیراعظم نریندرمودی اورروسی صدر پوتن کی ملاقات۔ اس موقع پر مودی جی نے پوتن سے کہا کہ ’ یہ جنگ کا موقع نہیں ہے‘ ۔ دراصل وزیراعظم کا اشارہ یوکرین کی جانب تھا۔ حالانکہ یوکرین جنگ کی شروعات سے ہی نئی دہلی کا یہی موقف ہے لیکن مودی جی کا کھلے طور پر اس کی نشاندہی کرنا یہ ظاہر کرتاہے کہ روس کیلئے چیلنج بڑھ گئے ہیں اوریہ اس کے منصوبوں کی مطابق سمت میں نہیں جارہاہے۔ یوکرین جنگ کو لیکر نہ صرف ہندوستان بلکہ چین کی پریشانی بھی واضح طور پر دکھ رہی ہے۔ خود پوتن اس بات کو تسلیم کرتے دکھے کہ وہ یوکرین جنگ کے مسئلے پر چین کے سوالوں اورتشویش کو سمجھتے ہیںوہ بھی تب جبکہ کھل کر ایسا کچھ نہیں کہا۔ الٹے پوتن سے صدر شی چن پنگ کی ملاقات پر چین یہی دکھلانے کی کوشش کررہاہے کہ دونوں قائدین کی میٹنگ امریکی چیلنجوں سے نمٹنے کی مشترکہ کوششوں پر مرکوز رہی ۔چین نے یہی ارادہ ظاہر کیا کہ وہ روس کے ساتھ کام کرنے کا خواہش مند، سپرپاورس کی ذمہ داری سے باخبر اورعدم استحکام سے گزررہی دنیامیں استحکام اورمثبت توانائی کے استعمال میں کردار نبھانے کی سمت میں سرگرم ہے۔ اس کے باوجود عالمی چیلنجوں کے مدعے پر مودی جی کہیں زیادہ خوش آہنگ تھے جب انہوں نے پوتن سے کہا ’ہم پہلے بھی فون پر کئی بار اِس موضوع پر گفتگو کرچکے ہیں‘۔ مودی جی کا مفہوم خوردنی اشیاء کا تحفظ ، ایندھن کا تحفظ اورکھاد کی دستیابی سے تھاجوکہ آج دنیا کے سب سے بڑے مسئلے کی شکل میں ابھراہے۔ اس لحاظ سے دنیاکے کئی کمزور ممالک پر یہ مسئلہ بہت بھاری پڑرہاہے۔ مودی جی نے امن کی راہ پر گامزن ہونے کی پیروی کرتے ہوئے پوتن کو جمہوریت ، مصلحت اندیشی اور مذاکرہ کی اہمیت کی بھی یاد دلائی۔ اگروسیع النظری کا مظاہرہ کیاجائے تو ایس -سی -او چوٹی کانفرنس کا انعقاد کافی شاندار رہا۔ اس کی توسیع کا بھی اشارہ ملا۔ بحرین، مالدیپ، کوئت ، متحدہ عرب امارات ایس سی او میں نئے مکالمہ معاونین بنائے گئے ہیںجبکہ مصر ، سعودی عرب اورقطر کیلئے یہ طریقۂ عمل شروع کیاگیاہے۔اس کا 121نکاتی ثمرقند اعلامیہ بھی خاصہ بلند حوصلہ ہے، جو 27-2023کیلئے وسیع لائحہ عمل طے کرتے ہوئے ایس -سی-او اراکین ممالک کے درمیان دوستی اورتعاون سے متعلق بندوبست کا خاکہ کھینچتاہے۔ اس کے باوجود اس کانفرنس نے گروپ کے اندر تقسیمی رجحان کو بھی واضح کیا۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد یہ پوتن اور چن پنگ کی پہلی ملاقات تھی اوراس میں شی اپنے روسی ہم منصب کو جملوں کے علاوہ اورکچھ نہیں دے پائے۔ یہ حقیقت ہے کہ چین بڑی مقدار میں روس سے سستاتیل خریدرہاہے لیکن اس نے روس کی ابھی تک کوئی بڑی مدد نہیں کی ہے۔ ثمر قند میں شی یوکرین پر کسی بھی طرح کی چرچاسے بچے۔ اِس کے بجائے انہوں نے وسط ایشیاء میں چین کے وسیع کردار پر زور دیاچونکہ روس ابھی اس محاذ پر کچھ خاص نہیں کرسکتا۔ دیکھاجائے چین -روس روابط وقت کے ساتھ یکطرفہ ہوتے جارہے ہیں اورایس-سی -او اس کی توثیق کا تازہ پڑاؤ بنا۔
اس کانفرنس کے ذریعے روس مغربی ممالک کو یہ دکھانے کی کوشش میں تھا کہ وہ الگ تھلک نہیں ہواہے مگر اُس کیلئے یہ پلیٹ فارم پریشان کن ثابت ہواکیونکہ یوکرین پر روسی جارحیت پر شاید ہی کوئی رکن کھل کر ماسکو کی حمایت میں آیاہو۔ یہ بھی واضح ہورہاہے کہ روس کہیں زیادہ تیزی سے یوکرین میں اپناکنٹرول گنوارہاہے۔ روس کی پسند کے متبادل بھی محدود ہوتے جارہے ہیں۔ اس کا اثر ایک علاقائی طاقت کی شکل میں اس کی حیثیت پر بھی پڑرہاہے۔ وقت کے ساتھ ظاہرہوتی روس کی کمزوریوں سے سابق سوویت قوموں کی اپنے مستقبل کے تئیں تشویش میں اضافہ ہواہے۔ ماسکو پر ان کا انحصار ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ کمزورروس اپنے اقتصادی اورجنگی معاملوں کو مؤثر طور پر سنبھالنے کے اہل نہیں رہے گا۔ جہاں روس ابھی یوکرین میں پھنسا ہواہے و ہیں آرمینیا اورآذر بائیجان میں کچھ دنوں قبل ہی کشیدگی پھر سے بڑھ رہی ہے۔ جس وقت ایس-سی-او میں اچھے پڑوس کو لیکر مذاکرہ چل رہاتھا ، اُسی دوران وسط ایشیاء میں قزاخستان- تاجکستان سرحد پر لڑائی کا نیا محاذ کھل گیا۔ ان کی ہزار کلو میٹر لمبی سرحد میں سے ایک تہائی حصہ پر تنازعہ ہے۔ ایک دیگر وسط ایشیائی ملک قزاخستان نے بھی یوکرین پر روس کی حمایت کرنے میں ہچک دکھائی اورتوانائی کی ضرورت کیلئے وہ مغرب کا رخ کررہاہے۔ اس علاقے کے زیادہ تر ممالک اپنی تجارت کو بڑھاکر روس پر اپنا انحصار گھٹانے کی کوشش میں ہیں۔ پچھلے مہینے ہی تزکستان نے امریکی قیادت میں ہوئے فوجی مشق میں ترکمانستان ، قزاخستان، گرغستان ،منگولیا، پاکستان اورازبیکستان نے حصہ لیا۔ ظاہر ہے کہ وسط ایشیائی ممالک اورچین وہندوستان جیسی ابھرتی اقتصادی اعلیٰ طاقتوں کے ساتھ نئے مواقع تلاش کررہے ہیں۔ اب روس اُن کیلئے ایک مسئلہ جیسا بن گیاہے۔ موجودہ حالات میں ایس -سی -او کیلئے مستقبل میں مزید مسائل بڑھنے کے امکان ہیں۔ وسط ایشیاء میں بہتر رسائی اورآزاد آمدورفت کیلئے نئی دہلی کا مفاد اس میں سمجھ میں آتاہے۔ وہیں زیادہ تروسط ایشیائی ممالک کی طرح روس اورچین کے ذریعے اس مغرب مخالف پلیٹ فارم بنانے میں اس کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ چین کو جامع انداز میں نظراندازکرکے ہندوستان نے روس کو اس رخ سے باخبر کردیا ہے۔ جب ہندوستان رکن ممالک سے دہشت گردی کے خلاف اشتراکی رضامندی کی امید لگائے ہوئے تھا اُسی دوران چین اقوام متحدہ میں پاکستانی دہشت گرد ساجد میر کی حمایت کرکے اُسے ناامید کررہاتھا۔ہندوستان کی اتنی سی غلطی ضرور ہے کہ آج جو ملک میں متعدد شدت پسند ہندو گرو پ پیدا ہوگئے ہیں جو ایک خاص طبقے کو نشانہ بنارہے ہیں، اُن کی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے وہ کوئی دلچسپی نہیں دکھارہاہے۔ بہر حال اِس میں کوئی شک نہیں کہ ایس -سی-او کے اندر داخلی تضاد ہی مستقبل میں اُس کی ترقی میں حائل ہوں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS