تعلیمی ایکٹ میں اسکول یونیفارم کی وضاحت نہیں، حجاب کے آئینی و مذہبی پہلو پرہوگا غور: ہائیکورٹ

0

حجاب تنازع : مذہبی لباس پر اصرارنہیں کرسکتے طلبا
بنگلورو (ایجنسیاں) : کرناٹک ہائی کورٹ کی بڑی بنچ میں حجاب تنازع پر سماعت شروع ہوگئی۔ چیف جسٹس ریتوراج اوستھی کی سربراہی میں جسٹس کرشنا ایس دکشت اورجسٹس جے ایم کھاجی پرمشتمل بنچ نے آج اس معاملے کی سماعت کی۔آج ہائی کورٹ سے اس پر کوئی فیصلہ تو نہیں آیا،تاہم ریاست کے اسکول اور کالج میںحتمی فیصلے تک مذہبی لباس پہننے پر روک لگادی ہے۔عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔ اس کے ساتھ اہم ریمارکس دیے ہیں کہ اسکولوں اور کالجوں میں طلبامذہبی لباس پر اصرار نہیں کر سکتے۔ چیف جسٹس ریتو راج اوستھی نے کہا کہ اسکول اور کالج فوراًکھولے جائیں اور پڑھائی ہونا ضروری ہے۔ ذرائع کے مطابق اگلی سماعت پیر کو دوپہر ڈھائی بجے ہونی ہے اوراس دن عدالت سے کوئی بھی فیصلہ آسکتا ہے۔
اس سے قبل معاملہ کی سماعت کے دوران حجاب پہننے کا مطالبہ کرنے والی طالبات کے وکیل سنجے ہیگڑے نے کہا کہ یونیفارم سے متعلق کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ میں کوئی بات نہیں کہی گئی ہے۔ انہوں نے عدالت سے کہاکہ کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ میں یونیفارم کے حوالے سے کوئی خاص بندوبست نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حجاب اسلام کا حصہ ہے اور اسکولوں اور کالجوں میں اس کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے جلد فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ طلبا کی پڑھائی متاثر نہ ہو، کیونکہ مارچ میں ان کے امتحانات ہونے والے ہیں۔لڑکیوں کے وکیل نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ اسکولوں اور کالجوں میں کسی قسم کی علیحدگی کے جذبات رہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب امتحان میں صرف ڈیڑھ مہینے کا وقت رہ گیا ہے۔ اس لیے اس تنازع کو حل کرنا ضروری ہے۔ چیف جسٹس ریتو راج اوستھی نے کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ تعلیمی ایکٹ میں اسکول یونیفارم کے بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا کہ ہم اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ حجاب پہننا بنیادی حق کے دائرے میں آتا ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ ہم اس بات پر بھی غور کر رہے ہیں کہ آیا حجاب پہننا مذہب کی پیروی کا لازمی حصہ ہے یا نہیں۔ عدالت نے حجاب تنازع کی سماعت کرتے ہوئے میڈیا کو بھی ہدایت دی کہ وہ ہر ایک تبصرے کی رپورٹنگ نہ کریں۔ عدالت نے کہا کہ میڈیا حتمی حکم کا انتظار کرے، جبکہ حکومت کی طرف سے پیش ہوئے اٹارنی جنرل نے اپنی دلیل میں کہا کہ اسکولوں اور کالجوں میں ڈریس کورٹ پر عمل کیاجانا چاہئے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ اسکارف، حجاب یابھگوا گمچھے کے ساتھ داخلے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یہ کوئی اچھی صورتحال نہیںہوگی۔ طلبا کو یونیفارم کورٹ کے ساتھ اسکولوں میں آنا ہوگا۔ دریں اثنا کچھ مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے مدراس ہائی کورٹ نے کہاہے کہ حجاب تنازع سے کچھ نہیں ملنے جارہا ہے، لیکن مذہب کے نام پر ملک کو بانٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ورکنگ چیف جسٹس ایم این بھنڈاری اور جسٹس ڈی بھرت چکرورتی پر مشتمل بنچ نے کہا کہ کچھ طاقتوں نے ڈریس کوڈ کو لے کر تنازع کھڑا کیاہے۔ کورٹ نے سوال اٹھایا کہ پہلے کیا ضروری ہے ملک یا مذہب؟۔

کرناٹک کے وزیراعلیٰ بسوراج بومئی نے حجاب تنازع پر اہم تبصرہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تنازع ظاہر کرتا ہے کہ اگر سماج میں پولرائزیشن ہو تو کیا ہو سکتا ہے۔ ان طلبا کے ذہنوں میں فرقہ وارانہ زہر گھول دیا گیا ہے، جنہیں پڑھائی پر توجہ دینی چاہیے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ میں باہر کے لوگوں سے اپیل کرتاہوں کہ وہ اسکولوں کے احاطے اور ریاست میں ماحول خراب نہ کریں۔پرامن ماحول پیداکرنا ہمارا فرض ہے، تاکہ انصاف کی فراہمی ممکن ہوسکے۔

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS