پٹرولیم مصنوعات کی بے لگام قیمت

0

آج ایک بار پھر سرکاری تیل کمپنیوں نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںاضافہ کردیا ہے۔25پیسے فی لیٹر کی شرح سے اضافہ کے بعدکولکاتامیں اب پٹرول 85.92روپے اور ڈیژل 78.22 روپے میں فروخت ہورہاہے۔جب کہ دہلی اور ممبئی میں پٹرول کی قیمت بالترتیب 84.45روپے اور 91.07روپے ہوگئی ہے۔ حزب اختلاف اور عوام کی چیخ و پکار کے باوجود حال کے مہینوں میں جس تیز رفتاری سے ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اس محاذ پربھی ا پنی من مانی سے پیچھے ہٹنے والی نہیں ہے۔یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کا اثر تمام کاروباری سرگرمیوں پر پڑتاہے۔ یہ بات بھی کسی تصدیق کی محتاج نہیں کہ پہلے سے ہی لاغر اور نحیف ملکی معیشت کو کووڈ 19- نام کی غیرمرئی وبا نے بری طرح تباہ کیا ہے۔حالات کا معمول پرآناتو اب بھی ایک خواب بنا ہوا ہے۔ اَن لاک کے تین مہینے گزرنے کے باوجود کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں میں وہ پہلی سی بات نہیں آپائی ہے جس کی وجہ سے عوا م کی آمدن رکی ہوئی ہے ا ور قوت خرید روزبروز کم ہوتی جارہی ہے۔ان حالات میں بازار کی قیمتوں میں اتار چڑھائو کا بنیادی سبب بننے والی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ عوام کیلئے دوہرا عذاب بن گیا ہے۔ معیشت اور سرمایہ کی کشادکاری کے نام پر جب ہندوستان میں پٹرولیم مصنوعات کو سرکاری کنٹرول سے آزاد کیاگیا تھا، اس وقت بڑے بڑے دعوے کیے گئے تھے۔پٹرول کوحکومت نے2010 سے ہی کمپنیوں کے حوالے کررکھا ہے جب کہ ڈیژل سے 2014 میں نگرانی ختم کی گئی، دونوں ہی مواقع پرحکومت نے یقین دہانی کرائی تھی کہ اس کے فوائد صارفین کو حاصل ہوں گے لیکن گزشتہ برسوں کے اعدادوشمار سرکاری دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ایک جانب2014 سے اب تک پٹرول پر ایکسائز ڈیوٹی میں820فیصد اور ڈیژل پر ایکسائز ڈیوٹی میں 258فیصد کا ظالمانہ اضافہ کیاگیا ہے تو دوسری جانب بین الاقوامی بازار میں کروڈ آئل(خام تیل)میں قیمتوں کی کمی کا فائدہ بھی کبھی عوام کو نہیں ملا ہے۔اس کی تازہ ترین مثال کورونا وبا کا موجودہ دورانیہ ہے جب پوری دنیا میں لاک ڈائون کی وجہ سے تیل کی قیمتیں کم ترین سطح پر تھیں، اس وقت بھی ہندوستان میں تیل کی دھار اسلحہ سے بھی تیز ہوگئی۔ حکومت کی ستم ظریفی یہ رہی ہے کہ قیمتوں میں کمی کے بجائے اس نے اسی دوران سال2020کے مارچ اور مئی میں دو قسطوں میں ایکسائز ڈیوٹی میں ہوش ربا اضافہ کردیا۔ پٹرول پر فی لیٹر 13روپے اور ڈیژل پر فی لیٹر 15روپے کے اضافہ کے ساتھ حقیقتاً عوام کی ہڈیوں سے گوداتک نچوڑناشروع کردیا۔ اس عمل سے حکومت نے اپنے خزانہ میںایک سال کے دوران1.9لاکھ کروڑ روپے کی اضافی آمدنی اکٹھی کی۔
عوام کی سمجھ میںیہ بات نہیں آرہی ہے کہ جب پٹرولیم مصنوعات کو بین الاقوامی بازار کے اتار چڑھائو سے منسلک کردیاگیا ہے تو اس کا اثر گھریلو بازار پر کیوں نہیں پڑرہاہے۔ ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کے بعد سے اب تک کی موجودہ مدت کے دوران پٹرول کی قیمت میں14.79روپے اور ڈیژل میں 12.34 روپے کا اضافہ کیاگیاہے۔حالانکہ بین الاقوامی بازار میں فی الحال ایک بیرل یعنی 159لیٹر خام تیل کی قیمت فقط 55ڈالر ہے۔اس شرح سے ایک لیٹر خام تیل کی قیمت فقط25روپے ہوتی ہے۔صفائی کے معمولی خرچ لیکن محصولات کے ظالمانہ اضافہ کے بعد تقریباًسو روپے فی لیٹر بکنے والا یہ مائع عوام کیلئے سوہان روح بن گیا ہے۔ 
مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ ایک ماہ کے اندر ہی خوردنی تیلوں کی قیمت میں 40روپے فی لیٹر کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سات ماہ کے دوران روزمرہ کے استعمال کی تمام اشیا چاول ، دال ، سبزی، پھل کی قیمتیں دو گنی ہوگئی ہیں۔اس دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے رسل و رسائل کے خرچ بڑھیں گے۔ نتیجہ میں مہنگائی کی ایک اورشوریدہ لہر اٹھے گی اور عوام کو زندگی کی ڈور باندھے رکھنا ناممکن ہوجائے گا۔خوردنی سامانوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ سے عوام پہلے ہی بلبلائے ہوئے ہیں اور اگر ان میں ایک بار پھراضافہ ہوتا ہے تو عوا م کا صبر جواب دے جائے گا۔ بہتر ہوگا کہ حکومت ایسی کوئی نوبت ہی نہ آنے دے۔صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کو عوام کے دسترس میں رکھے اور اسے عربی گھوڑا نہ بنائے۔اس کے ساتھ ہی کچھ غیرضروری اخراجات پر بھی قدغن لگائے تاکہ اس پر خزانہ بھرنے کیلئے ظالمانہ محصولات کے گناہوں کا بوجھ کم ہو۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS