اس بار کا عام بجٹ خاص ہے، کیونکہ یہ بجٹ کورونا وائرس سے پیدا حالات کے بعد پہلا عام بجٹ ہے۔ اس کا بڑی شدت سے انتظار تھا۔ اس بجٹ پر فوری رائے دی جا سکتی ہے مگر حتمی رائے بجٹ کے نکات پر اچھی طرح غور کرنے کے بعد ہی دی جانی چاہیے۔ وزیرخزانہ نرملا سیتا رمن نے مختلف پہلوؤں کا خیال رکھتے ہوئے یہ بجٹ پیش کیاہیمگر سبھی کی توقعات پرپورا اترنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ بجٹ نوکری پیشہ لوگوں کی توقع کے عین مطابق نہیں۔ انہیں یہ امید تھی کہ ٹیکس میں چھوٹ کی حد 2.5 لاکھ روپے سے بڑھا دی جائے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ نوکری پیشہ لوگوں کو یہ امید بھی تھی کہ 80 سی کے تحت سرمایہ کاری پر ٹیکس چھوٹ کی حد 1.5 لاکھ سے بڑھا دی جائے گی لیکن یہ امید بھی بر نہیں آئی، البتہ 75 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں سے کچھ بھی ٹیکس نہ لینے کا فیصلہ اچھا ہے، تاہم اس میں یہ شرط لگا دی گئی ہے کہ یہ چھوٹ پنشن اور سود سے ہوئی کمائی پر ہی ملے گی۔
کیرالہ اور آسام میں اپریل میں جبکہ مغربی بنگال میں اپریل یا مئی میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ ان انتخابات کے مدنظر ہی نرملا سیتا رمن نے کیرالہ کے ہائی وے پروجیکٹ کے لیے 65,000 کروڑ، مغربی بنگال کے 675 کلومیٹر لمبے ہائی وے کے لیے 25,000 کروڑ اور آسام میں سڑک کی تعمیر اور بہتری کے لیے 3,400 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ اس سے ان ریاستوں میں آمد رفت کی سہولتیں بڑھیں گی۔
پیٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں نے لوگوں کو پہلے ہی پریشان کر رکھا ہے، اب وزیرخزانہ نے فی لیٹر ڈیزل پر 4 روپے اور پیٹرول پر 2.5 روپے زراعت سیس لگانے کا فیصلہ کیا ہے تو اس سے ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور اس کے بالواسطہ اثرات سے دیگر اشیا بھی بچ نہیں پائیں گی۔ وزیرخزانہ کا یہ فیصلہ مہنگائی میں اضافے کی وجہ بن جائے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ ایک طرف گلوان تنازع چل رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان کی چین دوستی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ ایسی صورت میں امید یہ تھی کہ حالات کے مدنظر دفاع کے بجٹ میں خاصا اضافہ ہوگا مگر ایسا نہیں ہوا۔ پچھلی بار دفاع کا بجٹ 4.71 لاکھ کروڑ روپے تھا تو اسے اس بار 4.78 لاکھ کروڑ روپے کر دیا گیا۔ وزیر خزانہ کو یہ بتانا چاہیے کہ اس معمولی اضافے کی وجہ کیا رہی؟ کیا ان کی نظر میں دفاع کا بجٹ پہلے ہی کافی تھا کہ اس میں انہوں نے زیادہ اضافہ کرنا ضروری نہیں سمجھا؟
نرملا سیتا رمن نے صحت اور مفاد عامہ کے بجٹ میں 137 فیصد کا اضافہ کیا ہے۔ بجٹ میں 2021-22 میں اس مد کے لیے 2,23,846 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے۔ یہ تجویز اچھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’جان ہے تو جہان ہے۔‘ کورونا کی آمد سے یہ اندازہ ہوا ہے کہ ڈبلیو ایچ او پر بڑی حد تک انحصار ٹھیک نہیں ہے۔ اپنے ملک میں ایسا ہیلتھ کیئر سسٹم قائم ہونا چاہیے کہ وبائی امراض سے نمٹنے میں کسی اور ملک یا کسی ادارے کی طرف دیکھنا نہ پڑے۔ ہمارے پاس باصلاحیت لوگوں کی کمی نہیں۔ ان کا حوصلہ بڑھانے اور ہیلتھ کیئر سسٹم پر خرچ کرنے سے حالات بدل جائیں گے، اس مد میں خرچ کرنے کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ بیرون ملک سے علاج کے لیے ہندوستان آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا، کیونکہ عالمی میڈیکل ٹورزم میں بہت گنجائش ہے، 2025 تک اس کے تقریباً 66 ارب ڈالر ہوجانے کا امکان ہے۔ وطن عزیز ہندوستان میں مختلف طریقے سے علاج کی سہولتیں دستیاب ہیں، اس لیے اس ملک میں میڈیکل ٹورزم کی توسیع کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اس عام بجٹ کو ’آتم وشواس اور آتم نربھرتا کا نمونہ‘ بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم اس بجٹ میں جن اصولوں کو لے کر چلے ہیں وہ ہیں، گروتھ کے لیے نئے امکانات کی توسیع کرنا، نوجوانوں کو نئے مواقع دینا اور تعمیر کے لیے نئے میدان کو فروغ دینا۔‘ وزیراعظم کا ماننا ہے کہ ’ اس بجٹ کے دل میں غریب اور کسان ہیں۔‘ مگر عام لوگ اس بجٹ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، یہ جاننا بھی ضروری ہے، کیونکہ عام بجٹ سے عام لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کی رسوئی کے بجٹ کو بگاڑنے کی وجہ نہ بنے۔
[email protected]
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS