ٹھنڈے ہوتے غصہ کا پھر بھڑکنا

0

سی ایس ورما

سلجھتی ہوئی گانٹھ ایک ناسمجھی سے کس قدر الجھ جاتی ہے، جمعرات کی دیر شام کا واقعہ اس کی واضح مثال ہے۔ یوم جمہوریہ کے دن جمہوریت کی توہین کرنے کا داغ لگنے کے بعد کسانوں نے دہلی کی سرحدوں پر لگائے گئے تمبوؤں کو ہٹانا شروع کردیا تھا۔ ایسا لگنے لگا تھا کہ معاملہ سنجیدگی سے نمٹ رہا ہے اور انتظامیہ کے افسران راستہ کھلوانے میں اب کامیاب ہوجائیں گے۔ مگر حکمراں جماعت کے لیڈروں اور ان کے کارکنان نے انتہائی جوش میں غلطی کردی اور انہیں زبردستی ہٹانے کی کوشش کی۔ نتیجتاً جو تمبو خود اکھڑ رہے تھے، وہ پھر سے جم گئے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کسان بہت ہی جذباتی برادری ہے۔ بیشک کاشتکاروں کی کمیونٹیز میں تمام طرح کے آپسی اختلافات ہوں، لیکن جب کسان دیکھتے ہیں کہ کوئی ان کے مفاد کے لیے لڑرہا ہے اور وہ اتنا اکیلا پڑگیا ہے کہ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں، تب ہر کوئی متحد ہوجاتا ہے۔ غازی پور بارڈر پر بھی یہی ہوا۔ کسان لیڈر راکیش ٹکیت کے آنسو نے تحریک چلانے والوں کو پھر سے متحد کردیا اور خالی ہوتی سڑکیں دوبارہ مظاہرین سے بھرگئیں۔
سوال اب بھی وہی ہے کہ آخر اس تحریک کا انجام کیا ہے؟ چوں کہ بیچ کا راستہ سب سے مفید ہوتا ہے اس لیے بات چیت ہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔ اب تک حکومت کے نمائندے اور کسان لیڈر 11مرتبہ بات چیت کی میز پر آمنے سامنے ہوچکے ہیں۔ حکومت اس پر متفق ہوگئی ہے کہ وہ اگلے ڈیڑھ سال تک نئے زرعی قوانین کو نافذ نہیں کرے گی اور کمیٹی ان پر غور کرے گی، جس میں کسانوں کے ذریعہ منتخب کیے ہوئے نمائندوں کو بھی خاطرخواہ جگہ دی جائے گی۔ ہر تحریک کا مقصد دباؤ بنانا ہوتا ہے۔ اور حکومت اتنے دباؤ میں تو آہی گئی ہے کہ اس نے فی الحال ان قوانین سے دوری برتنا مناسب سمجھا ہے۔ موجودہ حالات میں یہی سب سے اچھا حل ہے کہ کسان لیڈروں کو اس پر تیار ہوجانا چاہیے۔
ہاں، منیمم سپورٹ پرائس(ایم ایس پی) ایک ایشو ضرور ہے۔ حکومت نے ابھی اسے جاری رکھنے کی بات کہی ہے۔ مگر اس کی گارنٹی سے خریدار و صارفین پر کیا اثر پڑے گا، اس کا بھی مطالعہ ضرور ہونا چاہیے۔ اس سے عوامی تقسیم کے نظام پر پڑنے والے اثرات کا بھی اندازہ لگانا ضروری ہے۔ ایم ایس پی میں ترمیم ہو یا نیا قانون بنے، ان سب کا ایک طے شدہ عمل ہوتا ہے۔ مناسب راستہ سے ہی ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔ اس تحریک کے اقتصادی اثر سے حکومت بھی ہلکان ہوگی۔ مانا جارہا ہے کہ دہلی کے بارڈر سیل ہونے سے ملک کی معیشت کو ہر دن 3,500کروڑ روپے کانقصان ہورہا ہے۔ اس نقصان کی وجوہات ہیں، مال کی ڈھلائی میں دیری، ٹیکس کی وصولی نہ ہونا، جی ایس ٹی اکٹھا نہ ہونا، صنعتی علاقوں کی سرگرمیوں کا تقریباً تھم جانا وغیرہ۔ دیکھا جائے تو حکومت پر دوطرفہ دباؤ ہے۔ اسے تحریک چلانے والے کسانوں کو بھی منانا ہے اور اپنی معاشی صحت میںبھی بہتری لانی ہے۔
دباؤ کسان لیڈروں پر بھی ہوگا۔ لال قلعہ کے واقعہ سے اس تحریک پر ایک داغ لگ ہی گیا ہے۔ کسان لیڈر بھی یہ سوچنے کے لیے مجبور ہوئے ہوں گے کہ بھیڑ اتنی ہی اکٹھی کی جائے کہ وہ ڈسپلن میں رہے۔انہوں نے محاسبہ ضرور کیا ہوگا کہ غلطی کہاں ہوگئی؟ اب وہ بھی اپنا چہرہ بچانے کی کوششوں میں ہیں۔ گزشتہ دنوں سے جس طرح اشتعال انگیز باتیں بند ہیں، اگر ایسا پہلے ہوا ہوتا تو 26جنوری کا واقعہ شاید ہی ہوتا۔ ہر تحریک کی شروعات میں توانائی ہوتی ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مایوسی کااحساس پیدا ہوجاتا ہے اور توانائی کمزور پڑنے لگتی ہے۔ جوش میں ہی سہی، مظاہرین نے غلطی تو کر ہی دی۔ لہٰذا اب اس تحریک کو ختم ہوجانا چاہیے۔
مناسب حل تو یہی ہے کہ بات چیت جہاں ٹھہر گئی ہے، اس کو آگے بڑھایا جائے۔ سپریم کورٹ نے بھی ایکسپرٹ کمیٹی بنائی ہے۔ کسان لیڈروں کو اس کے سامنے بھی پیش ہونا چاہیے۔ ان قوانین کو نافذ نہ کرنے کا ایک مقررہ وقت دے کر تحریک کا باعزت خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ انہیں تحریک کو نتیجے کی طرف لے جاناچاہیے، نہ کہ قبل ازوقت موت کی طرف۔ اس میں غیرسیاسی خیالات کی بھی سخت ضرورت ہوگی۔ چرچہ کسانوں کی قابل رحم حالت کے بارے میں بھی ہونی چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ یہ برادری نہ صرف خوش حال بنے، بلکہ سماجی ڈھانچہ بھی مضبوط بنارہے۔ جمعہ کو سنگھوبارڈر پر گاؤں والوں اور کسانوں میں ہوئی جھڑپ اسی کمزورہوتے(Cracking ) تانے بانے کا نتیجہ ہے۔
دراصل دقت یہ ہے کہ کسانوں کو ووٹ بینک سمجھ لیا گیا ہے۔ بیشک وہ یکمشت کسی پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے، لیکن ان کے نام پر زبردست سیاست کی جاتی ہے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر طبقہ کے کسانوں کے مسائل الگ الگ ہوتے ہیں۔ پنجاب کے کسان منڈی اور ایم ایس پی سے متعلق آواز بلند کرتے ہیں تو مغربی اترپردیش کے کسان گنا بقایہ سے متعلق۔ مدھیہ پردیش یا چھتیس گڑھ کے کسانوں کے لیے چاول ایشو ہوگا تو کیرالہ یا جنوبی ریاستوں کے لیے ناریل۔ مہاراشٹر میں پیاز، بندیل کھنڈ اور گجرات میں دالوں کی پیداوار سے منسلک کسان پریشان ہوسکتے ہیں۔ فصل کی اگر صحیح قیمت نہیں ملتی تو بربادی آتی ہی ہے۔ سیاسی لیڈر اسی آگ میں اپنی روٹی سینکنا چاہتے ہیں۔ کوئی ان مسئلوں کا ٹھوس حل نہیں چاہتا، بلکہ ایشوز کو قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، تاکہ کسانوں کے ووٹ انہیں ملتے رہیں۔ سیاسی لیڈروں کو ان ایشوز کو ہوا نہیں دینی چاہیے۔ نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ کووڈ-19 وبا میں بھی یہ زرعی معاشرہ ہی ہے، جس کے سبب ہمیں مقابلتاً کم نقصان ہوا ہے۔ اس لیے کوشش یہی ہونی چاہیے کہ کسانوں کی زرخیزی قائم رہے۔
اس طرح کی افراتفری کے کئی نقصان ہیں۔ دشمن ملک بھی اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے لال قلعہ پر ایک مخصوص مذہب کے علامتی نشان کا جھنڈا لہرایا گیا تو اسے پاکستان کے ٹوئیٹر ہینڈلر نے خالصتانی جھنڈے کے طور پر تشہیر کیا۔ واضح ہے، ایسی لمبی تحریکیں نہ حکومت کے مفاد میں ہیں، نہ ملک کے اور نہ ہی تحریک چلانے والوں کے، لیکن بڑا نقصان عام آدمی کا ہوتا ہے، کیوں کہ ان تحریکوں سے ہونے والے معاشی نقصانات کی تلافی اسی کی جیب سے کی جاتی ہے۔
(مضمون نگار سابق ایڈمنسٹریٹوآفیسر ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS