عدالت نے فیصلہ سنادیا

0

   دسمبر 6 1992 سیکولر ہندوستان کی تاریخ کا ایک منحوس دن تھا۔ اس دن وہ ہوا تھا جس کی امید گنگا جمنی تہذیب میں یقین رکھنے والوں نے تو کم سے کم کبھی نہیں کی ہوگی۔ اس دن بابری مسجد مسمار کی گئی تھی۔ مرکز میں کانگریس کی سربراہی والی حکومت تھی، نرسمہاراؤ وزیراعظم تھے۔ اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت تھی، کلیان سنگھ وزیراعلیٰ تھے لیکن نرسمہا راؤ اور کلیان سنگھ کی ’کارکردگی‘ جگ ظاہر تھی۔ بابری مسجد کی مسماری کی خبریں چھپیں، وہاں پر موجود لیڈروں کی خوشیاں مناتے ہوئے تصویریں چھپیں، لیڈروں کے بیانات چھپے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہی کہ بابری مسجد کو گرانے کے لیے کارسیوکوں میں کن لیڈروں کی تقریروں نے جنون بھرا لیکن قانون کی دیوی کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ پٹی اسے غیرجانبدار بناتی ہے۔ اسی لیے ججوں کے فیصلوں میں غیر جانبداری تلاش کی جاتی ہے مگر فیصلے ’اجتماعی قومی ضمیر کی تسکین‘ اور ’آستھا‘ کی بنیاد پر سنائے جانے لگیں تو غیر جانبداری کی تلاش کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ویسے یہ ضروری نہیں کہ ایک معاملے کو لوگ جس طرح دیکھ رہے ہیں، جج صاحبان بھی اسی طرح دیکھیں، اس لیے بابری مسجد کی مسماری کے معاملے میں ’مضبوط ثبوتوں کے فقدان‘ میں بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی سمیت سبھی 32 ملزمین کو بری کرنے کا فیصلہ لکھنؤ میں واقع سی بی آئی کی اسپیشل کورٹ نے سنا دیا۔ یہ فیصلہ حیرت زدہ کرنے والا نہیں ہے۔ اس سے قبل بابری مسجد ملکیت معاملے پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے یہ نظیر پیش کر دی ہے کہ عدالت عظمیٰ بھی انصاف ہی کرتی ہے، انصاف کے سوا کچھ نہیں کرتی۔ اب اس انصاف کو اگر کوئی ناانصافی مانتا ہے تو یہ اس کا قصور ہے کہ وہ ہمارے نظام عدل کو سمجھ نہیں پا رہا ہے جبکہ عدالتوں سے آنے والے فیصلے اسے بار بار سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ نیو انڈیا ہے، اس میں اسی طرح کے فیصلے سنائے جائیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ ’انصاف میں تاخیر ناانصافی کے مترادف ہے۔‘ بابری مسجد مسماری کا فیصلہ 27 سال بعد آیا ہے۔ اس فیصلے کے انتظار نے بچوں کو بڑا بنا دیا اور بڑوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ایک معاملے میں فیصلے تک پہنچنے میں اگر 27 برس سے زیادہ لگ جاتے ہیں تو پھر کروڑوں معاملے میں کتنے برس لگیں گے، کیونکہ یہ ملک کروڑوں لوگوں کا وطن ہے، یہاں متعدد مذہبوں اور ذاتوں کے لوگ رہتے ہیں، مختلف طرح کے مسئلے ہیں۔ کئی سنگین نوعیت کے ہیں جیسے بابری مسجد مسماری کا مقدمہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق، سی بی آئی کی اسپیشل کورٹ نے 5نکات کی بنیاد پر فیصلہ سنایا۔ پہلا نکتہ یہ تھا کہ ’بابری مسجد مسماری معاملے میں کسی طرح کی سازش کے ثبوت نہیں ملے ہیں یعنی یہ سانحہ منصوبہ بند نہیں تھا۔ ۔۔۔پورا واقعہ اچانک وقوع پذیر ہوا اور جن لوگوں کو ملزم بنایا گیا ہے، ان کا اس مسماری سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘ دوسرا نکتہ یہ تھا کہ ’ سی بی آئی نے جو آڈیو-ویڈیو ثبوت پیش کیے، ان کی صداقت کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ سی بی آئی نے تقریروں کے جو ثبوت مہیا کرائے ہیں، ان میں بھی آواز صاف نہیں ہے۔‘ تیسرا نکتہ یہ تھا کہ ’کارسیوا کے نام پر لاکھوں لوگ ایودھیا میں جمع ہوئے، ان میں سے کچھ کارسیوکوں نے غصے میں آکر مسمار کر دیا۔ ان میں سے کسی کی بھی پہچان ظاہر نہیں ہو پائی۔‘ چوتھا نکتہ یہ تھا کہ ’ چارج شیٹ میں تصویریں پیش کی گئیں لیکن ان میں سے زیادہ تر کے نگیٹو کورٹ تک نہیں پہنچائے گئے، اس لیے تصویر ثبوت نہیں مانی جاسکتی۔ اخباروں میں لکھی باتوں کو کورٹ قابل اعتبار ثبوت نہیں مان سکتا۔‘ اور فیصلے کی بنیاد اس پانچویں نکتے پر تھی کہ ’وشو ہندوس پریشد کے نیتا اشوک سنگھل مسماری کے خلاف تھے، کیونکہ اسٹرکچر کے نیچے مورتیاں تھیں جسے گرانے سے مورتیوں کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔‘ 
بابری مسجد مسماری معاملے کے فیصلے پر سی پی آئی (ایم) کے لیڈر سیتا رام یچوری کا کہنا ہے کہ ’یہ پوری طرح سے انصاف کا مذاق بنانے جیسا ہے۔ بابری مسجد مسماری معاملے میں ملزمین کو بری کر دیا گیا۔ کیا مسجد اپنے آپ مسمار ہو گئی؟ ‘مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے فیصلے پر کچھ کہنے سے انکار کرتے ہوئے یہ کہا کہ ’اب مسلم تنظیمیں مل بیٹھ کر طے کریں گی کہ اس کے خلاف آگے اپیل کرنی ہے یا نہیں۔‘ یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کون سی ملی تنظیمیں؟ وہ تنظیمیں جو کاغذات پر ہیں یا وہ تنظیمیں جن کے ترجمان خبروں میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں یا وہ تنظیمیں جو واقعی کام کرتی ہیں مگر اپنی تشہیر کرانے میں دلچسپی نہیں رکھتیں؟ بابری مسجد کی مسماری پر فیصلہ بہار اسمبلی انتخابات سے ایک ماہ قبل آیا ہے۔ یہ ووٹ کی سیاست پر کتنا اثر ڈالے گا، کہنا مشکل ہے، البتہ خستہ ہوتی اقتصادی حالت اور بڑھتی بے روزگاری اور مفلسی کے مدنظر توجہ وِکاس پر دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ بھوکے آدمی کو روٹی کے علاوہ کم چیزیں نظر آتی ہیں۔ 
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS