اب برڈفلو کی وبا

0

  دنیا بھر کے نظام صحت کو ریت کے گھروندے کی طرح منہدم کردینے والے کورو ناوائرس کا عذاب ابھی ختم نہیں ہوا ہے کہ قدرت نے ہندوستان کو ایک اور امتحان میں لا ڈالا ہے۔ کوروناوائرس سے لڑرہے ہندوستان کو اب برڈ فلوسے بھی مقابلہ ہے۔گزشتہ تین دنوں میں ہندوستان بھر میں ایک لاکھ سے زیادہ پرندے اس موذی مرض کا شکار ہوکر ہلاک ہوچکے ہیں۔انفیکشن پھیلنے کی رفتار کورونا وائرس سے کہیں تیز ہے۔متاثرپرندوں کی تعداد میں ہر گھنٹے ہزاروں کی شرح سے اضافہ ہورہاہے۔معاملہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ملک کی کئی ریاستوں میں الرٹ جاری کردیاگیا ہے اور لوگوں کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ پولٹری پیداوار کھانے سے گریز کریں۔ ملک کے شمال سے جنوب تک راجستھان، ہریانہ سے لے کر مدھیہ پردیش اور کیرالہ تک کے پرندوں میں یہ برڈ فلو پھیل چکا ہے۔ان ریاستوں میں پرندوں سے لیے گئے نمونہ کی تصدیق ہوئی ہے۔ جونمونے سامنے آئے ہیں ان میں برڈ فلو کا ایوین انفلوئنزا پھیلانے والا وائرس H5N1 پوزیٹو پایاگیا ہے ۔ماہرین کے مطابق برڈفلو بالعموم 5 طرح کے وائرس سے پھیلتا ہے جن میں سب سے خطرناک وائرس H5N1 ہے ۔ راجستھان اور ہریانہ میں تو حالات زیادہ ہی خراب ہوتے جارہے ہیں،پوری ریاست میں یہ وائرس کافی تیزی سے پھیل رہاہے۔ راجستھان میں مسلسل کنگ فشر، میگپی اور کوئوں کے ساتھ بگلے کی اموات کی خبریں ہیں۔ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش اور جھارکھنڈریاستوں میں بھی نہ صرف مہاجر پرندے بلکہ کوے بھی بڑی تعداد میں فلو کی زد میں آئے ہیں۔
بنگلہ دیش، چین، مصر، انڈونیشیا اور ویت نام کے ساتھ ہندوستان بھی ان 6ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں پرندوں میں یہ فلو پایا جاتا ہے۔تشو یش کی بات یہ ہے کہ برڈ فلو کے اس وائرس H5N1 کا انفیکشن پرندوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کیلئے بھی یکساں خطرناک ہے۔ برڈ فلو ایک وائرل انفیکشن کی طرح ہے جو نہ صرف پرندوں بلکہ دوسرے جانداروں اورا نسانوں کیلئے بھی اتنا ہی خطرناک ہے۔ برڈ فلو سے متاثر پرندوں کے رابطہ میں آنے والے جانورا ور انسان اس سے آسانی سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ اگر کوئی انسان اس وائرسH5N1سے متاثر ہوتا ہے تو ا س میں پہلے کھانسی،بخار کی علامتیں پائی جاتی ہیں اورپھر دھیرے دھیرے اس کا نظام تنفس اس کا شکار بن جاتا ہے۔یہ وائرس اتنا خطرناک ہے کہ اس سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ پہلی بار ایوین انفلوئنزا 2006میں فروری سے اپریل کے درمیان ملک کے 28مقامات پرپھیلا تھا اور 10لاکھ سے زیادہ پرندے ہلاک ہوئے تھے۔اس کے بعد 2008 میں اس نے مغربی بنگال کی سلونی زمین پر مردہ پرندوں کے پہاڑ کھڑے کردیے تھے۔ بیماری کو قابو میں کرنے کیلئے تقریباً43لاکھ چرند و پرند کو ہلاک کرنا پڑا تھا۔ اب تک ہندوستان کی الگ الگ ریاستوں میں 225 مقامات پر 49 بار یہ وبا پھیل چکی ہے۔اس وقت کی حکومت نے 2013میں اس وباسے نمٹنے کیلئے خطیر رقم سے ایک منصوبہ عمل تیار کیا تھا اور اس کے تحت مختلف ریاستوں میں اس بیماری کی روک تھام کیلئے اعلیٰ درجہ کی سہولتوں اور تکنیک سے مزین تجربہ گاہیں بنائی گئی تھیں۔ یہ کوشش اس وقت بارآور ہوئی اوراس وبا پر قابو پالیاگیا۔
 دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی کوششوں کو سراہتے ہوئے عالمی اداروں نے ہندوستان کو برڈ فلو سے پاک ملک بھی قرار دیا ۔مویشیوں کی صحت کی دیکھ بھال کیلئے بین حکومتی عالمی ادارہ ’ ورلڈ آرگنائزیشن فار انیمل ہیلتھ‘ نے ستمبر2019میں باقاعد ہ اعلان کیا تھا کہ  ’ہندوستان برڈ فلو سے پا ک ملک‘ ہے۔اس کے ٹھیک 14 مہینوں بعد اس وبا کا لوٹ کر آنا ہندوستان کیلئے سنگین خطرہ کی طرح ہے۔ برڈفلو کے موجودہ وائرس کی بابت کہا جارہا ہے کہ پرندوں سے انسانوں میں منتقل ہونے کی اس میں خطرناک صلاحیت ہے اور 60 فی صد یہ خطرہ رہتا ہے، یہ انسانوں میں منتقل ہوجائے۔
ایک ایسے وقت میں جب کورونا کا خطرہ ختم نہیں ہوا ہے اورنہ ہی  ہندوستان میں کورونا ٹیکہ کاری کی مہم شروع کی گئی ہے یہ وائرس پھیلتا ہے تو مشکلات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہندوستان کے تمام شہریوں کیلئے صحت کی بنیادی سہولتیں بھی دستیاب نہیں ہیں اور جوہیں ان کے ناقص ہونے کے شواہد بھی بار بار سامنے آتے رہتے ہیں۔ہیضہ اور دست جیسی بیماریاں، جن کا علاج بھی دستیاب اور سہولتیں بھی میسر ہیں، وہ بھی بارہا جان لیوا بن جاتی ہیں صرف اس لیے کہ متاثر مریض وقت پر اسپتال نہیں پہنچ پاتا ہے اور نہ صحت عملہ متاثرین تک رسائی کا جذبہ رکھتا ہے۔ یہ ہمارے نظام صحت کی کمی اور کجی کے باعث ہوتا ہے۔
ان سب کے باوجود ہندوستان کیلئے اچھی بات یہ بھی ہے کہ اس  برڈ فلو کی دوا اندرون ملک ہی دستیاب ہے۔ حکومت نے 2013 میں جو تجربہ گاہیں بنائی تھیں، ان میں اس کی دوا تیارہوتی ہے اور ہمیشہ مناسب مقدارمیں دستیاب رہتی ہے۔ضرورت ہے کہ حکومت نظام صحت کے بنیادی انفرااسٹرکچرکو مضبوط بنائے اوردوائوں کی بروقت تقسیم کرے تاکہ H5N1کے انفیکشن پر قابوپایاجاسکے۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS