میانمار: نیا کچھ نہیں ہو رہا

0

جمہوریت کے تحفظ کی لڑائی سے بڑی ہوتی ہے انسانیت کی حفاظت کی لڑائی مگر بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ انسانیت کی لڑائی میانمار میں کیسے لڑی جاتی رہی ہے۔ یہ وہی میانمار ہے جہاں روہنگیا مسلمان مارے جاتے رہے ہیں، ان کے گھر جلائے جاتے رہے ہیں مگر لوگوں نے اس طرح خاموشی اختیار کیے رکھی جیسے روہنگیا انسان ہی نہ ہوں۔ حیرت تو تب زیادہ ہوئی جب میانمار میں جمہوری نظام قائم کرنے کی جدوجہد کرنے والی آنگ سان سوکی نے روہنگیاؤں کے ایشو پر لب کشائی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ وہ یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوئیں کہ میانمار میں روہنگیاؤں کا قتل عام ہوا ہے، میانمار کی فوج انہیں ختم کر ڈالنا چاہتی ہے جبکہ وہ اگر چاہتیں تو فوج کی مذمت کر سکتی تھیں مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی فوج کے دائرہ اثر سے میانمار کو نہیں نکال سکیں۔ وہ میانمار کی فوج سے مرعوب رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار میں رہتے ہوئے وہ اس کے خلاف بولنے کی جرأت نہیں جٹا سکیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ فوج کے خلاف اب کیا بولیں گی اور اگر بولیں گی تو ان سے عالمی برادری کو کتنی ہمدردی ہوگی، کیونکہ فوج کی مذموم حرکتوں کی پردہ پوشی کا کام تو انہوں نے بھی کیا ہے۔
1982 میں میانمار میں جنرل نی وِن نے نیا شہری قانون متعارف کرایا تھا۔ اس کے تحت یہ التزام تھا کہ میانمار کی شہریت ان لوگوں کو نہیں دی جائے گی جو 1824 میں برطانیہ حکومت کے سروے میں شامل نہیں کیے گئے تھے۔ اب ظاہر ہے، یہ قانون روہنگیا اور ان جیسے لوگوں کے لیے ہی لایا گیا تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد آنگ سان سوکی کو یہ بات کہنی چاہیے تھی کہ یہ صحیح نہیں کہ لوگوں سے شہریت ثابت کرنے کے لیے تقریباً دوسو برس پہلے کے ریکارڈ مانگے جائیں، اگر ایسا ہی ریکارڈ مانگنا ہے تو پھر یہی ریکارڈ مانگ لینا چاہیے کہ کسی انسان کا دنیا کے پہلے مرد اور عورت سے کتنی نسلوں کے بعد رشتہ ہے مگر آنگ سان سوکی کی میانمار میں جمہوری نظام قائم کرنے کی جدوجہد دراصل اقتدار کے حصول کی جدوجہد تھی، اس لیے ان کا انسانی حقوق سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ وہ کسی بھی معاملے میں مذموم حرکتوں پر مذمت کر کے اپنے ملک کی فوج کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھیں، چاہے معاملہ انسانوں کو جلائے جانے یا کسی اور طرح سے مارنے یا ملک بدر کا ہی کیوں نہ ہو۔ وہ سمجھتی تھیں کہ ان کی خاموشی ان کے لیے حالات سازگار رکھے گی مگر فوج نے ان کی خاموشی کا مفہوم سمجھ لیا، اس لیے اس نے جو کچھ کیا، وہ کوئی زیادہ حیرت کی بات نہیں تھی۔ فوج آخر یہ کیوں نہیں سمجھتی کہ آنگ سان سوکی صحیح معنوں میں طاقتور نہیں ہیں؟ اگر ہوتیں تو اس کے اثرو رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کرتیں، اس کی مذموم حرکتوں کے خلاف بولتیں، اس سے یہ کہنے کی جرأت کرتیں کہ عالمی برادری کی نظر میں میانمار کی ایک ساکھ اس وقت تک نہیں بن سکتی جب تک میانمار میں حیلے بہانوں سے انسانوں کو ہلاک کرنے، انہیں ٹارچر کرنے کا سلسلہ رکے گا نہیں، کیونکہ انسانیت ایسی چیز نہیں جو مذہب، نسل، خطے، زبان، ثقافت یا شہریت کے نام پر دکھائی جائے۔ سوکی چاہتیں تو اپنی فوج کو یہ سمجھانے کی کوشش کر سکتی تھیں کہ شیاما گوپالن امریکہ گئیں اور اگلی ہی پیڑھی میں ان کی بیٹی کو امریکیوں نے نائب صدر بنا دیا تو میانمار میں برسوں گزارنے کے باوجود روہنگیاؤں کو اس ملک کا شہری کیوں نہیں مانا جا سکتا مگر سوکی نے اپنے انداز کی جمہوریت دکھائی، خود کو ایک الگ طرح کا جمہوری لیڈر ثابت کیا۔ اس کا فائدہ فوج نے اٹھاکر انہیں اقتدار سے الگ کردیا۔فوجی سربراہ نے اگر شہریت کا نیا قانون متعارف کرا دیا اور روہنگیاؤں کو شہریت دینے کا اعلان کر دیا تو پھر آنگ سان سوکی کی جمہوری جدوجہد کی اہمیت عالمی سطح پر کیا رہ جائے گی؟ لوگ ان سے بہتر فوجی سربراہ کو کیوں نہیں سمجھیں گے؟
سیاست میں ایک جمہوری لیڈر اپنے مفاد کی خاطر قتل عام پر چپی سادھے رکھ سکتا ہے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ میانمار میں آگے کیا ہوگا، یہ کہنا مشکل ہے مگر فی الوقت لوگ جمہوری نظام بحال کرانے کے لیے مظاہرے کر رہے ہیں۔ 28فروری، 2021کو مظاہرین کو بڑی بے دردری سے میانمار کی فوج نے کچلنے کی کوشش کی۔ اس میں 18لوگوں کو جانیں گنوانی پڑیں جبکہ 30 لوگ زخمی ہو گئے۔ اس جدوجہد سے میانمار کے جمہوریت پسند لوگوں اور لیڈروں کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ میانمار میں جمہوری نظام قائم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ فوج کو اس کے دائرے میں رکھا جائے، میانمار کے سبھی لوگوں کو انصاف کی بنیاد پر مساوی حقوق دیے جائیں اور یہ بتایا جائے کہ میانمار نے یہ حقیقت سمجھ لی ہے، جمہوری نظام کی حفاظت انسانی حقوق کے بلاتفریق تحفظ سے ہی ممکن ہے!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS