جماعت اور مذموم صحافت

0

کچھ چینل والے ٹی آر پی یعنی ٹارگیٹ ریٹنگ پوائنٹ بڑھانے کے لیے ایشوز کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ایشوز پر بحث و مباحثے کا پروگرام پیش کرتے وقت، مخصوص رنگ میں رنگتے وقت یہ خیال انہیں نہیں رہتا کہ اس کا کیسا اثر معاشرے پر پڑے گا، ان کے مذموم پروگراموں کی وجہ سے بھارتیہ میڈیا کی کیسی امیج عالمی سطح پر بنے گی۔ انہیں بس اس سے مطلب رہتا ہے کہ پروگرام کی وجہ سے ان کی ٹی آر پی میں کتنا اضافہ ہوگا، چنانچہ تبلیغی جماعت کے ایشو کو بھی کچھ چینلوں نے ایک خاص رنگ میں رنگنے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ ہندوستان میں کورونا پھیلانے کے اصل ذمہ دار جماعت کے لوگ ہی ہیں۔ آج تبلیغی جماعت کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیرمملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی نے لوک سبھا میں بتایا کہ دہلی کے حضرت نظام الدین علاقے میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز سے 29مارچ2020کو 2361 لوگوں کو احاطے سے نکالا گیا تھا۔ دہلی پولیس نے 233لوگوں کو گرفتار کیا اور مولانا سعد کے سلسلے میں جانچ جاری ہے۔ وزیر موصوف کے مطابق، ’دلی پولیس نے 36ملکوں کے 956غیرملکی شہریوں کے خلاف اب تک چارج شیٹس داخل کی ہے۔ مرکزی حکومت نے جماعت میں حصہ لینے آئے غیرملکی شہریوں کا ویزا رد کردیا ہے اور انہیں بلیک لسٹ کردیا ہے۔‘ سوال یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے جماعت کے پروگراموں میں حصہ لینے کے لیے آنے والوں کو ویزا دینے کی ضرورت ہی کیوں محسوس کی؟ وہ اگرویزا نہ دیتی تو اس وقت کون اس سے شکایت کرتا جب کورونا وائرس کے وطن عزیز میں پھیلنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا تھا؟ اس معاملہ میں جماعت انتظامیہ نے بھی کچھ دوراندیشی کا ثبوت نہ دیا۔ اس کی نظرغالباً ہندوستان کے حالات تک ہی محدود تھی، کورونا کے پھیلتے دائرے کو سمجھنے کی ضرورت اس نے محسوس نہیں کی تھی۔
جماعت کے لوگ یہ دیکھ چکے تھے کہ شاہین باغ کے مظاہرین کے حوالے سے کچھ چینلوں نے کس طرح مسلمانوں کے خلاف ماحول بنانے کی کوشش کی تھی۔ اس سے پہلے بھی ان چینلوں نے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع چھوڑا نہیں تھا۔ ایسی صورت میں کوئی بھول کر ڈالنا کہاں کی عقل مندی تھی؟ حیرت اس بات پر نہیں ہے کہ صرف2361 جماعتیوں کی وجہ سے ہندوستان کی 130کروڑ سے زیادہ کی آبادی کو خطرے میں بتانے کی کوشش کی گئی اور اس بات پر ذرا سی توجہ نہیں دی گئی کہ یہ سبھی 2361 لوگ کورونا سے متاثر نہیں ہیں، البتہ حیرت اس بات پر ضرورہوتی جب جماعت کے لوگوں کے بخوشی پلازمہ ڈونیٹ کرنے کی بھی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جاتی، کیوں کہ منفی صحافت اب کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے۔ اس سچائی کو قبول کرلینا چاہیے کہ منفی صحافت کچھ چینلوں کے لیے ایک حقیقت ہے، انہیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں کہ خاص انداز کی ان کی صحافت کا اثر ملک کی گنگاجمنی تہذیب پر کیا پڑے گا، ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کی امیج کیا بنے گی۔ اگست 2020 میں جماعت کے سلسلے میں اپنے فیصلے میں بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ نے بھی میڈیا کی مذمت کی تھی۔ عدالت عالیہ نے غیرملکی جماعتیوں کے خلاف ایف آئی آر کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک سیاسی حکومت اس وقت بلی کا بکرا ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہے جب وبا یا مصیبت آتی ہے اور حالات بتاتے ہیں کہ ان غیرملکیوں کو بلی کا بکرا بنانے کے لیے چنا گیا تھا۔‘
بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ نے کہا تھا، ’ہندوستان میں کورونا وائرس کے تازہ آنکڑے بتاتے ہیں کہ ان لوگوں (تبلیغی جماعتیوں) کے خلاف اس طرح کی کارروائی نہیں کی جانی چاہیے تھی۔ غیرملکیوں کے خلاف کی گئی اس کارروائی پر افسوس کرنے اور نقصان کی بھرپائی کرنے کے لیے کچھ مثبت اقدامات کرنے کا یہ صحیح وقت ہے۔‘ اس طرف کتنی توجہ دی جائے گی، یہ کہنا مشکل ہے، البتہ اس واقع سے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مذہبی پروگرام کے انعقاد کے وقت بدلتے حالات کو نظرانداز کرنا مناسب نہیں۔ مخصوص چینل کے لوگوں کا جو انداز صحافت ہے، اسے بدلنا مشکل ہے، البتہ محتاط رویوں سے زردصحافت کے منفی اثرات سے بچنا کسی حد تک ضرور آسان ہے۔ بددل ہونے کی ضرورت ہرگز نہیں۔ کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے، متاثرین کی مدد کرنے میں جس سے جو بن پڑے، اسے ضرور کرنا چاہیے، کیوں کہ کورونا ایک عالمی وبا ہے اور اسے ختم کرنے میں لوگوں کا حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا بے حد ضروری ہے۔ ایک ایک زندگی قیمتی ہے، اسے بچانے کی کوشش کرنا انسانیت کا تقاضا ہے۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS