وزرائے خارجہ کی بات چیت

0

 

وطن عزیز ہندوستان اور چین کے مابین تنازع ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے جب کہ اس تنازع کا ختم ہونا ہندوستان  کے حق میں بھی ہے اور چین کے حق میں بھی، کیوں کہ تنازع مزید بڑھے گا تو اس کا اثر دونوں ملکوں کی باہمی تجارت پر پڑے گا اور اس سے دونوں ملکوں کا ہی نقصان ہوگا، البتہ چین کا نقصان زیادہ ہوگا اور ہندوستان کا نقصان کم۔ اس سلسلے میں پچھلے چند برسوں کی بات اگر نہ بھی کی جائے اور بات اگر مارچ میں ختم ہونے والے مالی سال 2020کی کی جائے تب بھی دونوں ملکوں کے مابین تجارت کا عدم توازن صاف نظر آتا ہے۔ مالی سال 2020 میں چین نے ہندوستان کو 65.3ارب امریکی ڈالر کی اشیا ایکسپورٹ کی تھی جب کہ وطن عزیز ہندوستان نے 16.6ارب امریکی ڈالر کی اشیا ہی چین کو ایکسپورٹ کی تھی۔ایسا لگتا ہے کہ یہ بڑھی ہوئی تجارت اور اس کا عدم توازن بھی چین کو مزید آگے بڑھنے سے روک رہا ہے مگر وقتاً فوقتاً وہ مذموم اور اشتعال انگیز کارروائی کرتا رہتا ہے تاکہ ہندوستان کے تحمل اور اس کی جوابی کارروائی کی شدت کا اندازہ لگاسکے۔ یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت ہند نے بڑی چابکدستی سے حالات کو ہینڈل کیا ہے۔ وہ عالمی برادری کو یہ اشارہ دینے میں کامیاب ہے کہ ہندوستان ہر حال میں امن چاہتا ہے جب کہ وہ کمزور نہیں ہے، جواب دینے کی طاقت اس میں ہے۔ ماسکو میں ہندوستان کے وزیرخارجہ ایس جے شنکر اور چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی کی ملاقات کو بھی اسی تناظر میں دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ دونوں وزرائے خارجہ کے مابین دو گھنٹے تک چلی ملاقات کا ایک مثبت نتیجہ یہ ابھر کر سامنے آیا ہے کہ چین اور ہندوستان نے تناؤ ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے مگر چین کا سابقہ پوزیشن کو زیادہ بدلنے پر متفق نہیں ہونا باعث تشویش ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ آنے والے وقت میں چین اس سلسلے میں بھی نرم رویہ اختیار کرنے کے لیے تیار ہوجائے گا۔
رپورٹ کے مطابق، ’بات چیت کے دوران چینی نمائندہ یہ بتانے میں ناکام رہا کہ لداخ میں 50ہزار فوجی اور بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی تعیناتی کیوں کی گئی؟‘ اس سلسلے میں بھارت کا یہ موقف حق بجانب ہے کہ چینی فوجیوں کی تعیناتی دونوں ملکوں کے مابین 1993 اور 1996 میں ہوئے سمجھوتوں کی خلاف ورزی ہے‘۔ بہتر یہی ہے کہ چین وقت رہتے اپنی غلطی محسوس کرلے۔ وہ اگر امریکہ کی طرح سپرپاور بننا چاہتا ہے تو اسے اس سے یہ بات سیکھنی چاہیے کہ وہ ان ملکوں کو خواہ مخواہ تنگ نہیں کرتا جن سے اس کے مفاد وابستہ ہوں۔ چینی سربراہ شی جن پنگ کو ہند-چین تعلقات پر غور کرتے وقت دونوں ملکوں کی تجارت کے عدم توازن کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے اور یہ بات بھی انہیں نظرانداز نہیں کرنی چاہیے کہ عالمی برادری کورونا کے پھیلاؤ میں چین کو ملزم مانتی ہے، اس لیے چین کے لیے دنیا بھر کے ملکوں سے پہلے کی طرح تجارتی تعلقات برقرار رکھنا آسان نہیں ہوگا۔
ہندوستان کے وزیرخارجہ ایس جے شنکر اور چین کے وزیرخارجہ وانگ ژی نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ’سرحد پر دونوں ملکوں کی افواج مذاکرات جاری رکھیں گی، اپنی موجودہ سرگرمیوں سے فوراً پیچھے ہٹیں گی، مناسب فاصلہ قائم رکھیں گی اور کشیدگی کم کریں گی۔‘ انہوں نے یہ کہا ہے کہ ’نئے اقدامات کے لیے کوششیں تیز کی جائیں گی تاکہ امن و سلامتی قائم ہوسکے‘۔ یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ ’نئے اقدامات‘ کیا ہوں گے، اس لیے آئندہ کے حالات کے بارے میں زیادہ کچھ کہنا مشکل ہے، البتہ گفتگو کا بند نہ ہونا اور دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کا گفتگو کی میز پر بیٹھنا، دو گھنٹے تک گفتگو کرنا، یہ بھی کم بڑی بات نہیں۔ دونوں کی گفتگو حوصلہ افزا، امید افزا ہے۔ امید رکھی جانی چاہیے کہ چین بھی اسی طرح اپنے پڑوسی ہندوستان کی اہمیت سمجھے گا، اس سے بہتر تعلقات قائم رکھنے کے لیے اقدامات کرے گا جیسے ہندوستان چین اور دیگر پڑوسیوں کی اہمیت سے واقف ہے اور اس کی یہ کوشش رہتی ہے کہ اس کی طرف سے اس کے پڑوسیوں کو فائدہ پہنچے، نقصان نہ پہنچے۔ تنازعات نہ رہیں اور اگر ہوں تو ختم ہوں۔ اس سلسلے میں ہندوستان نے بنگلہ دیش سے جس طرح پرامن طریقے سے سرحدی تنازع حل کیا، وہ ایک مثال ہے۔ اسی مثال کی بنیاد پر ہندوستان اور چین اپنے باہمی تعلقات بہتر بناسکتے ہیں اور ان کے مابین تنازع قصہ پارینہ بن سکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS