وزرائے خارجہ کی میٹنگ

0

بدلتے وقت کے ساتھ حالات بدلتے ہیں اور اسی مناسبت سے رشتوں کا تعین ہوتا ہے۔ اکثر ممالک اپنے ہم مزاج ملکوں سے رشتہ استوار یا مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کی طرح امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا میں بھی جمہوریت ہے اور اس لحاظ سے یہ ایک جیسے ممالک ہیں۔ گزشتہ 50 سال میں ان کے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں، اس لیے مل کر ان کا آگے بڑھنا ان کے لیے بھی اچھا ہے اور دنیا کے لیے بھی اچھا ہے۔ ’کویڈ‘ ملکوں یعنی ہندوستان، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے وزرائے خارجہ کی ٹوکیو میں ہوئی دوسری میٹنگ اسی لیے اہمیت کی حامل ہے۔ اس موقع پر امریکہ کے وزیر خارجہ مائک پومپیو نے واضح لفظوں میں کہا کہ ’کویڈ میں اتحادی ہونے کے ناطے اب یہ بے حد ضروری ہے کہ ہم اپنے لوگوں اور اپنے اتحادیوں کو چینی کمیونسٹ پارٹی کے استحصال، بدعنوانی اور داداگیری سے بچائیں۔‘ پومپیو نے بجا طور پر کہا کہ ’چین کی جارحانہ توسیع پسند پالیسی بحیرئہ جنوبی چین، بحیرئہ شرقی چین، میکانگ، ہمالیہ، تائیوان ہر جگہ دیکھنے کو مل رہی ہے۔‘ چین کے بڑھتے قدموں کو اگر آج نہیں روکا گیا تو آنے والے وقتوں میں وہ کئی ملکوں کے لیے دردسر بن جائے گا، کیونکہ چین ایک نہیں، کئی ملکوں کی خودمختاری کا احترام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پورے تائیوان کو وہ اپنا حصہ مانتا ہے۔ ہندوستان کے علاقوں پر دعوے پیش کرتا ہے۔ بحیرئہ جنوبی چین اور بحیرئہ شرقی چین میں ایک سے زائد ملکوں کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے وہ مسلسل کوشاں رہتا ہے۔ اسے یہ خیال ہی نہیں کہ سمندروں میں کسی بھی ملک کا علاقہ ایک حد تک ہی ہوتا ہے، اس کے بعد کا علاقہ عالمی آبی راستے کے طور پر چھوڑ دیا جاتا ہے مگر چین تیل، گیس، مچھلیوں کے کاروبار اور اسٹرٹیجک پوزیشن حاصل کرنے کے لیے بحیرئہ جنوبی چین اور بحیرئہ شرقی چین کے علاقوں پر قبضہ کرلینا چاہتا ہے۔ اسے وقت رہتے روکنا ضروری ہے۔ اس کے بڑھتے قدموں کو روکنے میں تاخیر نہیں کی جانی چاہیے، کیونکہ چین بڑی تیزی سے بحریہ کی طاقت میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس نے یہ ذہن بنا رکھا ہے کہ زیادہ سے زیادہ سمندری علاقوں پر اسے قبضہ کرنا ہے اور یہ حقیقت جگ ظاہر ہے کہ جس ملک کا قبضہ سمندر کے جتنے بڑے علاقے پر ہوتا ہے، وہ ملک اتنا ہی زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔
کویڈ کی میٹنگ میں نئے حالات کے مطابق ہی ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس- جے شنکر نے اپنی بات رکھی ہے۔ ان کی اس بات پر کویڈ ملکوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ ’سبھی چنوتیوں پر ایک جیسی سوچ رکھنے والے ملکوں کو ساتھ آنا ہوگا۔‘ ہندوستان کے وزیرخارجہ نے یہ بات بھی کہی کہ ’ہم علاقائی خودمختاری اور تنازعات کے پرامن حل کے لیے پابند عہد ہیں۔‘ اور ہندوستان کا یہی وہ موقف ہے جس کی وجہ سے اس نے اب تک تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، ورنہ اتنی طاقت اس کے پاس ہے کہ وہ چین کی جارحیت کا جواب جارح انداز میں دے سکتا تھا مگر وہ جانتا ہے کہ پڑوسیوں سے حتی الامکان تعلقات بنائے رکھنے کی ہی کوشش کی جانی چاہیے، طاقت کا استعمال بحالت مجبوری اور آخری متبادل کے طور پر ہی کیا جانا چاہیے۔
وزرائے خارجہ کی میٹنگ اور کویڈ‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے چینی حکومت کے ترجمان ’گلوبل ٹائمز‘ نے لکھا ہے کہ ’ہندوستان شاید ہی امریکہ کے پالے میں جائے گا۔ سرد جنگ کے وقت سے ہی ہندوستان کسی ایک گروپ میں نہیں رہا ہے۔ ہندوستان خود سپرپاور بننا چاہتا ہے، اس لیے امریکہ کی دھن پر ناچنے کا اس کا کوئی ارادہ ہی نہیں ہے۔‘ یہ سچ ہے کہ ہندوستان نے گروپ بندی میں کبھی یقین نہیں کیا، کیونکہ اس کے تعلقات امریکہ سے اچھے رہے ہیں تو پہلے سوویت یونین سے اچھے تھے اور اس کے بعد سے روس سے اچھے ہیں۔ دیگر ملکوں سے بھی اس کے تعلقات اچھے ہیں۔ ہندوستان کی پالیسی توسیع پسند اور جارح نہیں، البتہ اس کی پالیسی دفاعی ہے۔ اسے یہ منظور نہیں کہ کوئی ملک اسے آنکھیں دکھائے یا اس کی زمین پر قبضہ جمانے کی کوشش کرے، اس لیے کویڈ میں اس کی شمولیت کو کسی ملک کے خلاف نہیں بلکہ 3ملکوں سے اس کے اتحاد اور تعاون کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ ہاں! اگر کوئی ملک ہندوستان کو طاقت دکھانے کے لیے بے چین ہوجائے اور ایسی صورت میں اس کے ساتھ امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کھڑے ہو جائیں تو یہ وقت کی مانگ ہوگی اور اس کے لیے ذمہ دار ہندوستان نہیں ہوگا۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS