کووی شیلڈ‘ یا ’ کوویکسین‘؟’

0

کرب  اذیت، خوف، افراتفری اور اضطراب کی ایک سالہ مدت کے بعد اب ہندوستان کے لوگوں کوبہت جلد مسرت اور اطمینان کا موقع نصیب ہونے والا ہے۔ ڈرگس کنٹرولر جنرل آف انڈیانے اندرون ملک بنائے جانے والی کورونا کی دو ویکسین کو ہنگا می استعمال کی منظوری مرحمت کردی ہے۔منظوری کے بعد حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنی تیاریاں پوری کرلی ہیں اور ویکسین کی تقسیم اور ضرورت مندوں تک پہنچانے کا ہوم ورک مکمل کرلیا ہے۔اگلے 7دنوں میںیہ کام شروع کردیاجائے گا۔ مرکزی وزارت صحت نے اپنی کارگزاریاں بھی بتائی ہیں اور کہا ہے کہ ملک بھر میں پرائمری ویکسین اسٹورتیار کرلیے گئے ہیں۔شمال سے جنوب تک یہ ویکسین کرنال، ممبئی، چنئی اور کولکاتا میں بنائے گئے اسٹور میں بڑے پیمانے پر ذخیرہ کی جائیں گی اور ملک بھر میں بنائے جانے والے 37 ویکسین سینٹر تک انہیں پہنچایا جائے گا۔ جہاں سے وہ ضلع سطح اورپھر ابتدائی صحت مراکز پر بھیجی جائیں گی۔ہر ہندوستانی کی یہ فطری خواہش ہے کہ ویکسین محفوظ طریقے پر اس تک پہنچیں اور وہ پہلی فرصت میں اس سے استفادہ کرے لیکن اس بیچ آنے والی دو خبروں نے ویکسین ملنے کی خوشیوں کو مندمل کردیا ہے۔پہلی خبر بنارس سے آئی ہے جس نے محکمہ صحت کی تیاریوں کے دعوے کی پول کھول دی ہے۔ بنارس کے ایک ضلع اسپتال میں کورونا ویکسین سائیکل کے کیریئر پر رکھ کر پہنچائی گئی ہے۔ جو ویکسین انتہائی محفوظ طریقے سے پہنچائی جانی چاہیے تھی اس کیلئے محکمہ صحت نے صریحاً غیرذمہ داری اور لاپروائی کا مظاہرہ کیا۔کورونا پروٹوکول کو نظرانداز کرتے ہوئے اسے سیکڑوں ہاتھوں سے گزار کر صحت مرکز تک بھیجاگیا۔دوسری خبر کورونا ویکسین بنانے والی دو کمپنیوں سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا اور بھارت بائیوٹیک کے مالکان و سربراہان کے درمیان ایک دوسرے کی ویکسین کو ناقص قرار دینے کیلئے جاری جنگ کی ہے۔
سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے کووی شیلڈ اور بھارت بائیوٹیک کی کوویکسین کو منظوری دے دی گئی ہے۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا ہندوستان کیلئے ایکسٹرازینیکا آکسفورڈ کی ویکسین کووی شیلڈ تیار کررہا ہے اوراس کے سربراہ آدار پونا والا کا دعویٰ ہے کہ کورونا کے خلاف دنیا بھر میں تیار ہونے والی ویکسین میں صرف تین فائزر، ماڈرنااور ان کی کمپنی کی کووی شیلڈ ہی موثر ہیں باقی جتنی ویکسین بنائی جارہی ہیں وہ سب پانی جیسی ہیں۔جب کہ بھارت بائیوٹیک کے منیجنگ ڈائریکٹر کرشنا ایلا کاکہنا ہے کہ ان کی سودیسی ویکسین، ’کوویکسین‘ کے 10فیصد سے بھی کم سائیڈ ایفیکٹ ہیں جب کہ دوسری جتنی ویکسین ہیں ان کے سائیڈ ایفیکٹ 60سے70تک ہیں۔ ایک ایسی وبا جس نے پوری دنیا کو ہیجان زدہ کردیا ہو، اس سے مقابلے کیلئے بنائی جانے والی کسی بھی دوا، ٹیکہ یا ویکسین کیلئے حتمی طور پر یہ دعویٰ نہیں کیاجاسکتا ہے کہ وہ تیر بہدف ثابت ہوگی۔ لیکن امید وبیم کے درمیان ہزاروں طرح کے تجربات اور سیکڑوں افراد کو کلینیکل ٹرائل کا ایندھن بنانے کے بعد یہ یقین قوی تر ہوجاتا ہے کہ ویکسین یا ٹیکہ مرض کی ہلاکت خیزی کو کم کرے گا۔اسی امید اور یقین کی بنیاد پر ڈرگس کنٹرولر جنرل آف انڈیانے دونوں ٹیکوں ’ کووی شیلڈ ‘ اور ’ کوویکسین ‘ کو منظوری دی ہے۔ پورا ہندوستان اب انتظار کی کیفیت سے گزررہا ہے کہ کب اسے ٹیکہ نصیب ہوگا اور وہ اپنی مدافعتی قوت کو بڑھاکر اس موذی مرض سے لڑنے کے قابل ہوگا۔ ایک عام ہندوستانی کیلئے کورونا کا یہ ٹیکہ کافی اہمیت رکھتا ہے۔ چاہے وہ سیرم انسٹی ٹیو ٹ کا آکسفورڈ کے اشتراک سے بنایا ہوا ’ کووی شیلڈ‘ ہو یا بھارت بائیوٹیک کا اندرون ملک ساختہ ’کوویکسین‘ ہو۔ان کی دستیابی پر سبھی کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں۔ اب اگر تجارتی بنیاد پر ایک دوسرے کو کم تر ثابت کرنے کیلئے دونوں کمپنیاں ایک دوسرے کے ٹیکہ کی برائیاں کرتی ہیں تو یہ ہندوستان کے کروڑوں لوگوں کے ساتھ بھیانک مذاق ہوگا۔ ٹیکہ کی امید پر ہی ہندوستان کے سواارب لوگوں نے مایوسی، اضطراب، افراتفری، کرب اور خوف کی ایک سالہ مدت گزاری ہے، ان کی امیدوں پر اوس ڈالاجانا کسی بھی حال میں مناسب نہیں کہاجاسکتا ہے۔ان دونوں ہی کمپنیوں نے ٹیکہ کی تیاری میں جہاں اپنا سرمایہ اور محنت لگائی ہے وہیں قوم کی گاڑھی کمائی سے اربوں روپے کی سرکاری امداد بھی حاصل کی ہے۔ مزید منافع کی ہوس میں ایک دوسرے کے ٹیکہ کی برائی کاروباری اخلاقیات کے ساتھ ساتھ صریحاًانسانیت مخالف بھی ہے۔شنید ہے کہ دونوں کمپنیاں’ وسیع ترعوامی مفاد‘ میں اپنے بیانات سے رجوع کررہی ہیں۔ بہتر ہوگا کہ اس موقع پر حکومت بھی سامنے آئے اوردونوں ٹیکوں سے متعلق ان کی کمپنیوں کے بیانات سے اٹھنے والے شکوک و شبہات کے بادل دور کرے تب ہی یہ ٹیکہ کاری مہم عوام کیلئے نوید مسرت ہوگی۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS