چین الجھانا چاہتا ہے

0

چین کی توسیع پسندی عالمی برادری سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بحیرۂ جنوبی چین اور بحیرۂ شرقی چین میں ایک سے زائد ملکوں کے علاقوں پر ہمارے پڑوسی کا نظر بد رکھنا اور ان پر قبضے تک قبضے کی کوشش کرتے رہنا ناقابل فہم نہیں۔ چین پورے تائیوان کو اپنا حصہ مانتا ہے، ہندوستان کے کچھ علاقوں پر بھی اس نے نظریں گاڑ رکھی ہیں مگر حالیہ دنوں میں چینی فوجیوں کی جارحیت سے یہ بات ابھرکر سامنے آئی ہے کہ وہ کسی بھی علاقے میں ایک نیا محاذ کھول سکتے ہیں۔ ریزانگ لا کے پاس ان کی مذموم کارروائی سے بھی یہی بات سمجھ میں آتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’چین نے مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر ہندوستان کے خلاف نیا محاذ کھول دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، تین دن سے مسلسل چینی فوجی ان چوٹیوں پر پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں ہندوستانی فوجی تعینات ہیں۔ جس طرح پہلے پینگونگ جھیل کے شمالی کنارے پر فنگر-4 میں ہندوستان اور چین کے فوجی آمنے سامنے تھے، اسی طرح اب تناؤ کا سب سے بڑا پوائنٹ ریزانگ لا کے پاس کی چوٹیاں بن گئی ہیں۔‘اس سلسلے میں چینی وزارت دفاع نے اپنی غلطیوں کو ماننے کے بجائے الٹے وطن عزیز ہندوستان پر ہی یہ الزام عائد کیا ہے کہ7 ستمبر کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر پہلے ہندوستانی فوجیوں نے گولی چلائی لیکن پچھلے دنوں کے واقعات پر ہی اگر انصاف پسندانہ نظر ڈالی جائے تو چینی فوجیوں کا مذموم عمل اور چینی حکومت کی منشا فہم سے بالاتر نہیں رہ جاتی اور ان کے الزام کی حقیقت کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔
ہندوستان کے خلاف چین کا کوئی بھی پروپیگنڈا اس کے کام نہیں آئے گا۔ اسے وقت رہتے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہندوستان سے تعلقات بہتر رکھنے میں ہی اس کی بھلائی ہے، بڑھتے ہوئے تنازع سے ہندوستان کے بازار میں اس کے لیے گنجائش کم ہوتی چلی جائے گی، اس کی تجارت کا دائرہ یہاں سکڑے گا اور موجودہ غلطی کا احساس اسے آنے والے وقت میں زیادہ ہوگا، کیونکہ کورونا وائرس کے حوالے سے اصل معلومات چھپانے کی وجہ سے دنیا بھر کے ممالک اس سے ناراض ہیں۔ وہ چین سے اپنے تجارتی تعلقات کو محدود کرنا چاہتے ہیں اور اسے عملی شکل دینے کی شروعات ہندوستان کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں نے کر بھی دی ہے مگر امید بھری ان باتوں کے ساتھ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ چین سے لگی ہوئی اپنی سرحدوں پر فوجیوں کو پہلے سے زیادہ مستعد رہنے کے لیے کہا جائے۔ ہمارے جو دیگر پڑوسی چین کے زیر اثر ہیں، ان سے لگی ہوئی سرحدوں کو بھی پہلے سے زیادہ مضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ چین کے بارے میں کچھ بھی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ اس نے سارے عالمی قوانین طاق پر رکھ دیے ہیں ، اس لیے اس سے زیادہ ہوشیار رہنے میں ہی بھلائی ہے۔
کورونا وائرس نے دنیا بھر کے ملکوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ ان ملکوں میں وطن عزیز ہندوستان میں حالات زیادہ خراب ہیں۔ متاثرین کے لحاظ سے وہ دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے باوجود اسے دیگر ملکوں کا خیال ہے۔ اس سے جو بن پڑ رہا ہے، وہ دنیا بھر کے ملکوں کے لیے کر رہا ہے۔ یہی حالات کا تقاضا بھی ہے کہ دنیا کے سبھی ممالک ایک دوسرے کی مدد کریں لیکن چین حالات سے بھرپور فائدہ اٹھا لینا چاہتا ہے، سپرپاور بننے کی وہ اپنی دیرینہ خواہش پوری کر لینا چاہتا ہے۔ اسی خواہش کی تکمیل کے لیے اس نے ترقی کا ریکارڈ بنایا ہے۔ عام طور پر 21 سال میں کسی ملک کی جی ڈی پی میں 5 گنا اضافہ ہوتا ہے لیکن پچھلے 28 سال میں چین کی جی ڈی پی میں 20 گنا اضافہ ہوا ہے۔ چین کی اقتصادیات وطن عزیز ہندوستان کی اقتصادیات سے 5 گنا بڑی ہو چکی ہے جبکہ چند دہائی قبل تک اقتصادیات کے معاملے میں چین ہمارے وطن سے بہت آگے نہیں تھا، البتہ دفاع کے معاملے میں ہمارا وطن آج بھی چین سے پیچھے نہیں ہے۔ اسی لیے چین تیزی سے قدم آگے بڑھانے سے گریز کرتا ہے مگر اسے جہاں موقع ملتا ہے، اپنی اصلیت دکھا دیتا ہے۔ وہ تصادم کے کئی محاذ کھول کر حکومت ہند کو الجھائے رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کی پوری توجہ ان محاذوں پر مرکوز رہے اور کورونا سے متاثر اقتصادیات مزید خستہ حال ہو جائے، چنانچہ موجودہ حالات میں حکومت ہند کو اقتصادیات کو مرکز میں رکھ کر ہی کورونا وائرس اور چین سے نمٹنے پر توجہ دینی ہوگی۔ یہ دونوں ہی مہلک ہیں، ان دونوں کو لگام دے کر رکھنے میں ہی بھلائی ہے اور ہمارے جوان چینی فوجیوں کو اوقات میں رکھنے کے اہل ہیں۔ ہمیں یہ امید رکھنی چاہیے کہ وقت پڑنے پر وہ چینی فوجیوں کی طاقت کا بھرم توڑ دیں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS