ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
یہ موسم فیفا ورلڈ کپ کا ہے اور تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی عرب ملک نے اس کو اپنی سر زمین پر منعقد کروانے کا پختہ عزم کیا اور اس میں کامیاب بھی ہوا۔ کامیابی بھی ایسی کہ خود مغربی سیاحوں اور شائقین اس بات کا اعتراف کئے بنا نہیں رہ سکے کہ قطر میں انہیں سکون و اطمینان کے ساتھ پر امن ماحول میں نہ صرف فٹبال میچوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا بلکہ عربوں کی ضیافت اور ان کی وسعت قلبی کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا تجربہ حاصل ہوا۔ قطر میں فیفا کے انعقاد کے اعلان کے بعد سے ہی اس پر طرح طرح حملے کئے گئے تھے اور اس کو دنیا کی نظروں میں بے قیمت بنانے کی بے شمار کوششیں ہوتی رہیں اور اب تک اس کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن مغربی میڈیا کے پروپیگنڈہ کو قطر نے ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا اور پوری جرأت و حق گوئی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا اور کسی بھی مرحلہ میں مغرب کے دباؤ کو قبول نہیں کیا۔ رقبہ کے اعتبار سے اس چھوٹے سے ملک نے گلوبل ساؤتھ کے سامنے یہ شاندار مثال قائم کر دی کہ گلوبل نارتھ کے تمام بے بنیاد پروپیگنڈوں اور ان کی غیر معقول نسلی برتری کا جواب مہذب انداز میں نہ صرف دیا جا سکتا ہے بلکہ اس میں کامیابی بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ تقریباً اسی روح کا اظہار مراکش کی ٹیم نے بھی کیا اور ایسی تاریخ رقم کی کہ خود اہل مراکش خوشی اور حیرت کے جذبات سے لبریز ہیں۔ مراکش کی جیت کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ اس نے فٹبال کی دنیا میں کم سے کم گلوبل ساؤتھ کے لئے ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی ٹیموں کو شکست سے دوچار کیا ہے جن میں بطور خاص یوروپ سے تعلق رکھنے والی بلجیم، اسپین اور پرتگال کی ٹیمیں شامل ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسا مانتا ہوں کہ کھیل کود کو کبھی بھی کسی مذہب اور نسل کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہئے لیکن ہم مغربی تہذیب کے غلبہ کے جس عہد میں جی رہے ہیں اور جہاں اسلاموفوبیا کا ماحول ہر مغربی شئی پر حاوی ہے ایسے ماحول میں جب بھی مراکش جیسی ٹیموں کو فتح نصیب ہوگی تو دنیا کے ستائے ہوئے لوگ گھٹن کے اس ماحول سے باہر آنے اور نفسیاتی بے چینی کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے ان موقعوں کا استعمال ضرور کریں گے۔ قطر میں فیفا مقابلوں کا انعقاد بھی دراصل اسی مغربی بالادستی کو چیلنج کرنے اور گلوبل ساؤتھ کو اس کا مناسب حق دلانے کی ایک کوشش ہے۔ اس بات کو مغربی دنیا بھی سمجھ رہی ہے اور اسی لئے قطر کے بہانہ عرب اور اسلام کے خلاف زہر افشانی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ مغرب کے پالیسی سازوں کو یہ خطرہ ستا رہا تھا کہ اگر قطر فیفا جیسے ایونٹ کو منعقد کروانے میں کامیاب ہوجائے گا تو پھر گلوبل ساؤتھ کے کئی ممالک جن کے پاس مناسب اقتصادی قوت موجود ہے اور جو سیاسی و سماجی استحکام سے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں ان میں یہ خود اعتمادی پیدا ہوجائے گی کہ وہ بھی ان ایوینٹس کا انعقاد اپنی سر زمین پر کر سکتے ہیں۔ عام قارئین کو بظاہر ایسا لگتا ہوگا کہ ایک کھیل کے ساتھ اتنی گہری سیاست بھلا کیسے وابستہ کی جا سکتی ہیں؟ اس کے لئے ہمیں کھیل کو مختلف زاویہ سے دیکھنا ہوگا۔ دراصل فیفا اور اولمپک جیسے عالمی ایونٹس صرف کھیل کے لئے نہیں سجائے جاتے ہیں بلکہ تہذیب و ثقافت کی بالادستی قائم کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ یہ ما بعد استعماری عہد ہے جہاں لوگوں کی زمینوں اور جائدادوں یا ان کے ملکوں پر قابض ہوکر حکومت نہیں کی جاتی ہے۔ بلکہ اب یہ کام ثقافتی اور اقتصادی بالادستی کو قائم کرکے لیا جاتا ہے۔ جو کام کسی زمانہ میں استعماری قوتوں کے لئے بم و بارود اور بحری جہازوں نے کیا تھا آج وہی کام ملٹی نیشنل کمپنیوں اور فلم و ٹیلی ویژن کے ذریعہ لیا جاتا ہے۔ کھیل کود بھی اسی کا حصہ ہے۔ یہ سوفٹ پاور کہلاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلموں اور کھیلوں سے وابستہ شخصیات کا استعمال کرکے انسانی ذہن پر تسلط قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ابھی چونکہ فیفا کا دور چل رہا ہے اس لئے اگر موضوع کو فٹبال کے ارد گرد رکھ کر ہی سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اندازہ ہوگا کہ کس طرح سے اس ایونٹ نے ایک متبادل کلچر اور ثقافت سے دنیا کو روشناس کروایا ہے۔ اب تک ہم عالمی ثقافت کے طور پر صرف مغرب کی ثقافت کو جانتے تھے اور اسی کے ہیروز ہر جگہ مقبول عام و خاص ہوتے تھے۔ کم سے کم ٹیلی ویژن پر جو چیزیں پیش کی جاتی تھیں ان پر مغرب کی چھاپ ہی واضح طور پر نظر آتی تھی۔ لیکن قطر میں فیفا کے انعقاد سے مغرب کی اس بالادستی کو چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی۔ دنیا کو بتایا گیا کہ عرب کو جس طرح ایک مضحکہ خیز شئی اور بے مقصد زندگی گزارنے والے طبقے کے طور پر مغرب اور مغرب زدہ لوگوں کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے وہ درست نہیں ہے۔ اسی طرح اسلام کو ہر وقت قابل نفرت دین اور دہشت گردی کا منبع بتانے کی جو مذموم حرکت جاری رہتی ہے اس کا بھی رد قطر نے پیش کیا اور دنیا کو بتایا گیا ہے کہ اسلام کس طریقہ سے عالمی امن و بھائی چارہ میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اسلام پوری انسانی آبادی کو نسل و رنگ کے بھید بھاؤ سے دور صرف انسانیت کی بنیاد پر جوڑنے کا درس دیتا ہے اور آج مغرب کے ذریعہ پروان چڑھائی گئی خود کشی اور نسل کشی کی تہذیب سے اگر چھٹکارہ پانا ہے تو اسلام جیسا شاندار متبادل موجود ہے۔ قطر نے یہ پیغام بھی دیا کہ شراب اور نشہ کے بغیر ایک مہذب ماحول میں بھی کھیل کو دیکھا جا سکتا ہے اور دنیا بھر سے جو لوگ اس موقع پر جمع ہو رہے ہیں وہ ایک دوسرے سے متعارف ہوکر بقاء باہم کے اصولوں کو اپنی زندگی میں داخل کرنے کا ہنر سیکھ سکتے ہیں۔ یہ وہ پہلو تھا جس کی وجہ سے ایک عرب اسلامی ملک کو نشانہ بنایا گیا۔ کیونکہ ایک عرب اسلامی ملک میں فیفا کے انعقاد سے مغرب کا عرب اور اسلام کے تئیں صدیوں سے پھیلایا گیا پروپیگنڈہ نہ صرف ناکام ہوتا نظر آیا بلکہ نفاق کے دھبوں سے پْر ان کا وہ اصلی چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوتا محسوس ہوا جس کو انہوں نے اب تک خوبصورت بناکر پیش کیا تھا۔ مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن کو مراکش کی جیت نے بھی پہلی بار تب واضح کیا تھا جب بلجیم نے شکست کی تاب نہ لاکر نہایت غیر مہذب ڈھنگ سے اس پر رد عمل دیا تھا۔ دراصل مغرب کی مصنوعی تہذیب تب تک ہی جاذب نظر معلوم ہوتی ہے جب تک اس کو چیلنج کرنے والا حریف سامنے نہ آ جائے۔ مراکش کے ہاتھوں شکست پر بلجیم نے جس پھوہڑپن کا مظاہرہ کیا تھا وہ دراصل یورپ کی اس نفسیات کو ظاہر کرتا ہے جس کے تحت اس نے باقی قوموں بالخصوص مسلم دنیا کو اپنے سے کمتر گردانا ہے۔ لہٰذا جب خود سے کمتر سمجھی جانے والی قوموں کے ہاتھوں شکست ملتی ہے وہ تلملا اٹھتے ہیں اور ان کا وہی وحشی پن سامنے آنے لگتا ہے جو نشاۃ ثانیہ سے قبل ان کی تہذیب کا جزء لازم ہوا کرتا تھا۔ یورپی ٹیموں کے برعکس مراکش کی جیت نے دنیا کے سامنے یہ کلچر پیش کیا کہ اسلام عائلی قدروں کو فروغ دیتا ہے جیسا کہ مراکش کے سْپر اسٹار اشرف حکیمی کے عمل سے ثابت ہوا کہ وہ ہر جیت کے بعد اپنی ماں کی پیشانی کو بوسہ دیتا اور ان کا بے حد احترام کرتا۔ یہی حال ان کے باقی رفقاء کا بھی رہا۔ مراکش کی ٹیم نے یہ پیغام بھی دیا کہ فتح و کامرانی کی صورت میں بھی غرور و نخوت اور وحشیانہ جشن کے بجائے انسان کو اپنے مالک حقیقی کے سامنے سر بسجود ہونا چاہئے۔ ساتھ ہی فلسطین کے عَلم کے ساتھ مراکش کی ٹیم نے جس طرح جشن منایا تھا اس سے یہ پیغام دینا مطلوب تھا کہ دنیا کی مظلوم قوموں کے ساتھ اظہار ہمدردی انسانی طبیعت کا بنیادی خاصہ ہے۔ یہ عمل انسان میں اعلی انسانی قدروں کو فروغ دینے کا ذریعہ بنتا ہے۔ فیفا کے موقع پر شراب کی عدم فراہمی، انسداد نسل کو پروان چڑھانے والی عادتوں کو انسانی حقوق کے نام پر بڑھاوا دینے والے پروپیگنڈوں کو پھیلنے سے روکنا اور مغرب کے طے شدہ اخلاقی اصولوں کے برعکس عالمی تہذیب و ثقافت کی ایک متبادل تصویر پیش کرنا یہ وہ عناصر ہیں جن کو تاریخ میں ہمیشہ جلی حروف سے لکھا جائے گا۔ لیکن قطر میں منعقد ہو رہے فیفا مقابلوں کو بطور خاص اس پہلو سے یاد رکھا جائے گا کہ اس سر زمین پر سعودی عرب اور مراکش نے گلوبل ساؤتھ کو یہ یقین دلایا کہ اگر پوری محنت و جاں نثاری اور ایمان داری سے اپنا کام کیا جائے تو ہر طاقت کو شکست دے پانا ممکن ہے۔ کوئی بھی قوم اسی وقت تک شکست خوردہ محسوس کرتی ہے جب تک اس میں کوئی ایسا قائد پیدا نہ ہوجائے جو اس کو سمجھا سکے کہ ہر بلندی قابل تسخیر ہے۔ مراکش نے اس بات کو عملی طور پر ثابت کیا ہے اور اسی لئے پوری عرب اور اسلامی دنیا میں اس کا جشن منایا جا رہا ہے کیونکہ یہاں سے ایک نئی تاریخ کا آغاز ہو رہا ہے جس کے مثبت نتائج تا دیر محسوس کئے جائیں گے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں