نیا ’یوکرین‘ نہ بن جائے تائیوان

0

گزشتہ50 سے بھی زیادہ دنوں سے یوکرین پر برستے روس کے گولوں کے شور کے درمیان ایک نئی جنگ کی آہٹ سنائی دینے لگی ہے۔ خدشہ ہے کہ یوروپ کے مشرق میں یوکرین پر جیسا حملہ روس نے کیا، ایشیا کے مشرق میں تائیوان پر کم و بیش ویسا ہی کچھ کرنے کا منصوبہ چین بھی بنا سکتا ہے۔ گزشتہ جمعرات کو ایک امریکی وفد کے تائیوان دورہ کو اس کی وجہ بتایا جارہا ہے۔ امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات سے متعلق کمیٹی کے صدر باب مینینڈیج کی صدارت والے اس وفد میں امریکی کانگریس کے چھ مختلف عہدیدار شامل تھے۔ تائیوان سے چین کے تنازع کی آگ ویسے تو دہائیوں سے سلگ رہی ہے، لیکن اس وفد کے دورہ نے اس میں نئی چنگاری لگادی ہے۔ دورہ سے بوکھلائے چین نے اگلے ہی دن یعنی جمعہ کو مشرقی بحیرئہ چین اور تائیوان کے جزیرہ کے آس پاس کئی جنگی جہاز، بمبار طیارے اور لڑاکو جیٹ کے ساتھ طاقت کا مظاہرہ کرڈالا۔ حالاں کہ چین کی جانب سے اسے فوجی ٹریننگ بتایا گیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح طور پر باور کرادیا گیا کہ اس کی وجہ امریکہ کی جانب سے بھیجے گئے ’غلط اشارے‘ ہیں۔
یہ ’غلط اشارے‘ دراصل اس سفارتی نظام کی جانب اشارہ ہے جس میں ’ون چائنا‘ پالیسی کے تحت چین یہ توقع کرتا ہے کہ امریکہ کی سرکاری لائن بیجنگ میں بیٹھی حکومت کو ہی چین کا اصل نمائندہ تسلیم کرنے کی ہونی چاہیے۔ ون چائنا پالیسی کا مطلب اس پالیسی سے ہے، جس کے مطابق چین نام کا ایک ہی ملک ہے اور تائیوان الگ ملک نہیں، بلکہ اس کا ایک صوبہ ہے۔ چین دنیا پر اس پالیسی کو ایک الگ انداز میں ماننے کا بھی دباؤ ڈالتا ہے۔ اس کے مطابق جو ممالک پیپلز ریپبلک آف چائنا یعنی چین کے ساتھ سفارتی رشتے رکھنا چاہتے ہیں، انہیں تائیوان یعنی ریپبلک آف چائنا سے اپنے تعلقات ختم کرنے ہوں گے۔ ایسے میں چین کا کہنا ہے کہ اسے سائیڈلائن کرکے تائیوان میں اپنا وفد بھیج کر امریکہ نے اس نظام کی خلاف ورزی کی ہے۔ ملٹری ڈرل کے ساتھ ہی چین نے یہ بھی صاف کیا ہے کہ امریکہ کو تائیوان کے ساتھ کسی بھی طرح کا سرکاری لین دین بند کردینا چاہیے۔
چین کی ’ون چائنا‘ پالیسی کے جواب میں امریکہ تائیوان ریلیشن ایکٹ یعنی تائیوان سمجھوتہ کا ذکر کرتا ہے۔ اس کے تحت امریکہ تائیوان کو چھوڑ کر پورے چین کو تسلیم کرتا ہے۔ امریکہ دعویٰ کرتا ہے کہ شی جن پنگ امریکی صدر جوبائیڈن سے بات چیت میں اس معاہدہ پر عمل کرنے پر اتفاق کرچکے جس کے تحت امریکہ تائیوان کے ساتھ غیررسمی رشتے بناسکتا ہے، ہتھیار فروخت کرسکتا ہے اور تائیوان کے دفاع میں اس کی مدد بھی کرسکتا ہے۔ اسی بنیاد پر امریکہ نے تائیوان کے حالات کو یوکرین سے الگ بتاتے ہوئے چین کو صاف کردیا ہے کہ تائیوان کے تعلق سے اس کی پالیسی الگ ہے۔
سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب کچھ دن پہلے ہی تائیوان کے وزیردفاع چین کے ساتھ ان کے ملک کے فوجی تعلقات کو چار دہائی کا سب سے برا دور بتاچکے ہیں۔ ساتھ میں اس بات کا خدشہ بھی کہ سال 2025تک چین تائیوان پر حملہ کرسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو امریکہ کاغذوں پر مبنی جس پالیسی کا ذکر کررہا ہے، وہ جلد ہی اسے زمین پر اتارنی بھی پڑسکتی ہے۔
ایسی کئی وجوہات ہیں جو چین کو اس جرأت کے لیے ترغیب دے سکتی ہیں جو روس نے یوکرین میں کی ہے۔ چین سب سے بڑی ترغیب تو اسی بات سے پاسکتا ہے کہ امریکہ کی قیادت والے ناٹو سے لے کر یوروپی یونین اور اقوام متحدہ تک یوکرین پر حملہ کو لے کر روس کا کوئی ٹھوس نقصان نہیں کرپائے ہیں، بلکہ یہ سبھی روس سے ایک ایسے تنازع میں الجھ گئے ہیں جس کا کوئی سرا نہیں نظر آرہا ہے۔ اس لحاظ سے روس-یوکرین تنازع کے لمبا کھنچنے میں چین کو اپنے فائدے کے ساتھ ساتھ تائیوان پر حملے کا وہ ’موقع‘ بھی نظر آرہا ہے جس کے لیے وہ کئی دہائیوں سے کوشش کررہا ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ کئی مواقع پر کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ تائیوان کے ساتھ چین کا پھر سے انضمام ضرور ہوگا۔ ماضی میں الگ ہوئے علاقوں کو واپس چین میں ملاکر اپنی طاقت کا لوہا منوانا جن پنگ کی برسوں پرانی خواہش بھی رہی ہے۔خاص بات یہ ہے کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے طاقت کے استعمال کے امکانات کو کبھی خارج نہیں کیا۔ اس لیے یہ بھی ایک کھلا راز ہی ہے کہ تائیوان پر دنیا اس کے دعوے کو قبول کرے اس کے لیے چین گزشتہ تقریباً دو سال سے تائیوان کے آس پاس سمندر میں اپنی فوجی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہی کرتا جارہا ہے۔ اسی طرح چینی طیارے تائیوان کی ہوائی سرحد میں مسلسل دراندازی کرتے رہے ہیں۔ دراندازی کے ان واقعات سے چین اور تائیوان کے مابین مسلسل کشیدگی قائم ہے۔
اس ہفتہ کی شروعات میں تائیوان میں ایک اور دلچسپ بات سامنے آئی ہے۔ تائیوان کی فوج نے شہریوں کے تحفظ پر ایک ہینڈبک جاری کی ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تائیوان میں کوئی جنگ چھڑتی ہے یا کوئی آفت آتی ہے تو اپنی جان بچانے کے لیے شہریوں کا ردعمل کیسا ہونا چاہیے؟ اس ہینڈبک میں شہریوں کی سہولت کے لیے اسمارٹ فون ایپ کے ذریعہ پانی اور کھانے کے سامان کی سپلائی، بمباری سے بچنے کے لیے شیلٹر کی تلاش کے ساتھ ساتھ ایمرجنسی فرسٹ ایڈ کٹ تیار کرنے کے ٹپس شامل ہیں۔ آگے چل کر اسے اسپتالوں اور روزمرہ کی ضرورتوں کے لیے دکانوں کی فہرست سے اپ گریٹ کیے جانے کا بھی منصوبہ ہے۔ تائیوان میں ہر شہری کے لیے چار ماہ کی فوجی خدمت لازمی ہے اور سرکار اس کی مدت آگے بڑھانے پر غور بھی کررہی ہے۔ فوج کی جانب سے بیان آیا ہے کہ اس عمل سے حفاظتی تیاریاں مستحکم ہوں گی اور لوگوں کو زندہ رہنے میں مدد ملے گی۔ اب پہلی نظر میں تو یہ سب کچھ کسی ایمرجنسی سے نمٹنے کی تیاریاں ہی لگتی ہیں۔ تائیوان میں پہلے نہ تو ایسی کوئی ہینڈبک جاری ہوئی، نہ شہریوں کی فوجی خدمات کی میعاد بڑھانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ تائیوان نے اسے معمول کا عمل بتایا ہے اور ایسے کوئی اشارے نہیں دیے ہیں جس سے یہ محسوس ہو کہ چین اس پر کسی حملہ کا منصوبہ بنارہا ہے۔ تائیوان کا کہنا ہے کہ ہینڈبک جیسے تمام طریقوں کے منصوبے تو روس-یوکرین جنگ شروع ہونے سے پہلے کے ہیں۔ لیکن اس کی تیاریاں روس کے حملہ کے بعد یوکرین کے ردعمل سے کافی مماثلت رکھتی ہیں۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) کا اندازہ ہے کہ سبھی طرح کے فوجیوں کو ملاکر چین کی فوجی طاقت 20.35لاکھ سرگرم فوجیوں کی ہے جو تائیوان کے 1.63لاکھ فوجیوں کے مقابلہ میں تقریباً 12گنا ہے۔ ایسے میں آمنے سامنے کا تصادم ہوا تو تائیوان بہت کوشش کرکے بھی چین کے حملہ کی رفتار کو آہستہ ہی کرسکتا ہے، جیسا یوکرین نے روس کے ساتھ کیا ہے۔ امریکہ کا ساتھ تائیوان کے لیے بازی پلٹے نہ پلٹے، مگر یہ صورت حال چین اور تائیوان کے ساتھ ساتھ پورے ایشیا-پیسفک خطہ کے امن اور استحکام کو ضرور خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ اس امن اور استحکام کا ذکر امریکی این ایس اے جیک سلون کے بیان میں بھی آیا ہے۔ چین کی ملٹری ڈرل سے کچھ گھنٹے قبل ہی سلون نے واضح کیا ہے کہ امریکہ تائیوان اسٹریٹ کی سیکورٹی کو چیلنج دینے والی کسی بھی کارروائی پر خاموش نہیں رہے گا۔ تقریباً 50دن پہلے کی بائیڈن انتظامیہ کا ایک اور بیان غور کرنے کے لائق ہے۔ یوکرین پر روس کے حملہ کے دوران آئے اس بیان کا لب لباب یہی تھا کہ جس طرح کی بات یوروپ میں ہوسکتی ہے، وہ انڈو-پیسفک میں بھی ہوسکتی ہے۔ تو کیا وہ خطرہ سچ ثابت ہونے جارہا ہے؟ کیا اب تائیوان کو نیا ’یوکرین‘ بنانے کی تیاری ہے؟
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS