ابونصر فاروق
صلہ رحمی شریعت اسلامی کی ایک معروف اصطلاح ہے۔ عام طور پر لوگ اس کے معنی سے آگاہ نہیں ہیں۔صلہ کا مطلب ہوتا ہے ملانا اور رحم کا مطلب ہے پیٹ۔ رحم مادر کی اصطلاح مشہور ہے۔ صلہ رحمی کا مطلب ہے خونی رشتوں کو قائم رکھنا ۔ انسان اس دنیا میں پیدا ہونے کے بعد جو کچھ کرتا ہے یا کرنے کے قابل بنتا ہے وہ تنہا اُس کی لیاقت اور قابلیت کا کمال نہیں ہوتاہے بلکہ اُس کی شخصیت کی تعمیر میں بہت سے لوگوں کی حصہ داری ہوتی ہے، جن کی ہمدردی، محبت، تعاون، نگرانی، تربیت اور رہنمائی کے سہارے وہ زندگی کے میدان میں اپنی جگہ بناتا ہے۔ ایک شریف آدمی کی شرافت، اخلاق اور احسان مندی کا تقاضہ ہے کہ وہ اُن لوگوں کا احسان مانے جن لوگوں نے اُس پر احسان کیا ہے اور احسان کا بدلہ احسان سے دے۔ وہ لوگ جو اپنے محسن کو بھول جاتے ہیں احسان فراموش کہلاتے ہیں۔ احسان فراموش آدمی کبھی بھی اچھا انسان نہیں ہوسکتا ہے۔ اسلام نے اس بات کو بہت اہمیت دی ہے کہ انسان اپنے محسنوں کو یاد رکھے اور اُن کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئے۔ اس امر کی خلاف ورزی کو اسلام بہت بڑا جرم قرار دیتاہے۔ جس خاندان اور سماج میں لوگ ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھنے والے ہوتے ہیں وہ خاندان اور سماج بڑا خوش نصیب ہوتا ہے۔ اور جو خاندان اور سماج اس نعمت سے محروم ہوتا ہے وہ بڑا بد نصیب سمجھا جاتا ہے۔ آدمی پر احسان دو طرح کے لوگ کرتے ہیں۔ ایک تو وہ جن سے خون کی رشتہ داری ہوتی ہے دوسرے وہ جن سے خون کی رشتہ داری نہیں ہوتی ہے۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی کے اپنے رشتہ دار اُس کے ساتھ بد سلوکی ،خود غرضی اور بے وفائی کرتے ہیں اور غیر رشتہ دار اُن کے مقابلے میں حسن سلوک، ہمدردی اور تعاون کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں فطری طور پر آدمی کو اپنے رشتہ داروں سے نفرت اور غیر رشتہ داروں سے الفت ہو جاتی ہے۔ ایسے مواقع پر یاد رکھنا چاہئے کہ رشتہ داروں کی بدسلوکی کے باوجود اُن کو اُن کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ایسا کرنا جرم میں شمارہوگا۔ رشتہ داروں کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک قریبی رشتہ دار اور دوسرے دور کے رشتہ دار۔ قریبی رشتہ دار والدین، اولاد، بھائی بہن اور میاں بیوی کہے جاتے ہیں اور دور کے رشتہ دار وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ ان قریبی رشتہ داروں کے ذریعہ رشتہ داری قائم ہوتی ہے۔ جائداد کے وارث قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں۔ قریبی رشتہ دار نہ ہوں تو پھر دور کے رشتہ داروں کا نمبر آتا ہے۔ صلہ رحمی کا تقاضہ ہے کہ انسان رشتہ داروں سے تعلق قائم رکھے، اُن کے ساتھ محبت و ہمدردی اور تعاون و خیر خواہی کرتا رہے، اُن کے دکھ درد اور خوشی میں شریک ہوتا رہے اور اُن سے ہر حال میں جڑا رہے۔صلہ رحمی ایک ایسا عمل ہے جس کا قرآن میں تاکیدی حکم آیا ہے۔…یاد کرو اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ ،رشتہ داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی بات کہنا………(البقرہ:ـ۸۳) نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لئے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر کو اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر،مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لئے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عـہد کریں تو اسے وفا کریں اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راستباز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں ۔ (البقرہ:۱۷۷)اور جب تقسیم کے موقع پر کنبہ کے لوگ اور یتیم ومسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی کچھ دو اور ان کے ساتھ بھلے مانسوں کی سی بات کرو۔ لوگوں کو اس بات کا خیال کر کے ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انہیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے اندیشے لاحق ہوتے۔ پس چاہئے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور سچی بات کہیں۔ (النساء:۸/۹) اور تم اللہ ہی کی عبادت کیا کرو اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہ کیا کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ، یتیموں کے ساتھ، غریبوںکے ساتھ، پاس والے پڑوسی کے ساتھ، صاحب مجلس کے ساتھ اور مسافر کے ساتھ اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو۔ بلا شبہہ اللہ تو اُن کو محبوب نہیں رکھتا جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور شیخی بگھار تا ہے۔ (النساء:۳۶) ان آیتوں میں پہلے ماں باپ کا پھر دوسرے رشتہ داروں کا اور پھر یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔دوسری طرف نماز قائم کرنے ،وعدہ پورا کرنے اور حق و باطل کی لڑائی میں ثابت قدم رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اور سند دی گئی ہے کہ ایسے ہی لوگ سچے ایمان والے ہیں اور متقی ہیں۔رسول اللہؐ نے بھی اس موضوع پر بہت قیمتی نصیحتیں کی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے:مسلم کی ایک حدیث میں رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے کہ: ’’رشتہ داروں سے کٹ کر رہنے والا جنت میں نہیں جائے گا‘‘۔ اس حدیث میں جنت سے محرومی کی بات اُن لوگوں کے لئے نہیں کہی جا رہی ہے جو بے نمازی اور بے دین ہیں بلکہ اُن لوگوں کے لئے کہی جا رہی ہے جوشریعت کے پابند، متقی، پرہیزگار اور دین دار سمجھے جاتے ہیں۔کیونکہ جس وقت نبی کریمؐ نے یہ بات کہی تھی اُس وقت سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ کوئی شخص مسلمان بھی ہو اور بے دین اور بے نمازی بھی ہو۔ آج معاشرے میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو نمازی بھی ہیں اور دین دار بھی سمجھے جاتے ہیں مگر اُن کے رشتہ دار اُن سے خوش نہیں رہتے ہیں کیونکہ وہ اُن کے حقوق ادا نہیں کرتے ہیں۔کیا ایسے لوگوں کی عبادت اور دین داری اُن کو جنت میں لے جا سکے گی ؟ اپنی اس فطری کمزوری پر قابو پانے اور عدل و انصاف کا ساتھ دینے ہی کا نام تقویٰ ہے۔ اس سلسلے میں بخاری میں رسول اللہؐ کا ارشاد ہے کہ ’’کمال درجہ کی صلہ رحمی یہ نہیں ہے کہ بھلائی کے بدلے میں بھلائی کی جائے بلکہ کامل صلہ رحمی یہ ہے کہ جو تم سے کٹے تم اُس سے جڑو۔‘‘ ایسے رشتہ دار بھی ہوتے ہیں جو کسی لاگ لپیٹ کے بغیر صاف ستھری بات کرنے اور غلط روش پر ٹوکنے والے ہوتے ہیں۔ ایسے رشتہ دار بہت اچھے دوست ہوتے ہیں۔کم ظرف اور تنگ نظر لوگ ایسے رشتہ داروں کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ صاف گوئی کا طریقہ اختیار کرنے والے رشتہ داروں کو بھی اس کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ باتیں حکیمانہ انداز سے کہیں اور جو رشتہ دار اُن سے کٹیں وہ اُن سے جڑے رہیں۔رشتہ داروں میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بد خواہی کرتے ہیں، غیبت اور چغل خوری کے ذریعہ رشتہ داروں کے درمیان نفرت و عداوت کا بیج بوتے رہتے ہیں۔ ان کی اس روش کی وجہ سے دوسرے رشتہ دار بھی اُن سے نفرت کرتے ہیں اور تعلقات نہیں رکھنا چاہتے ہیں۔ نفرت اوربے تعلقی کا ماحول اگر ایسے ہی بڑھتا رہے تو خاندان کے برباد ہونے کا اندیشہ پیداہوجاتا ہے۔ اس مسئلہ کا حل بھی رسول ؐ نے بتایا ہے ۔ مسلم کی ایک حدیث ہے کہ:ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ ! میرے چند رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں اُن سے جڑتا ہوں اور وہ مجھے کاٹ کر پھینکنا چاہتے ہیں۔ میں اُن سے حسن سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے ظالمانہ برتاؤ کرتے ہیں۔میں اُن سے درگزر کرتا ہوں اور وہ مجھ سے اجڈ پن دکھاتے ہیں۔حضو ر ؐنے فرمایا اگر تو ویسا ہے جیسا کہتا ہے تو گویا تو اُن کے چہرے پر راکھ مل رہا ہے۔ اللہ کے یہاں سے تیرے ساتھ ایک معاون مقررہو گا جو اُن کی شرارتوں سے تیری حفاظت کرتا رہے گا۔ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے دنیا اور آخرت دونوں کافائدہ ہوتا ہے۔ بخاری کی ایک حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جو آدمی یہ بات پسند کرتا ہے کہ اُس کی روزی بڑھائی جائے اور اُس کی عمر میں برکت ہو تو وہ اپنے رشتہ داروں سے اچھا برتاؤ کرے‘‘۔صدقہ و خیرات کے معاملے میں بھی رشتہ داروں کو ترجیح دینی چاہئے۔ ترمذی کی ایک حدیث میں نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و السلا م نے فرمایا ہے کہ : ’’ محتاج اور غریب کو صدقہ و خیرات دینے پر صدقہ کا اجر ہے اور( غریب ) رشتہ دار کو خیرات دینے پر صدقہ اور صلہ رحمی دونوں کا اجر ملے گا‘‘۔ گویا غیر رشتہ داروں کو صدقہ دیں تو اکہرا ثواب ملے گا اور رشتہ دار کو صدقہ دیں تو دوہرا ثواب ملے گا۔ شریعت اسلامی میں صرف مسلم رشتہ داروں سے ہی نہیںغیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنے کا حکم ہے۔
بخاری اور مسلم کی حدیث میں یہ تذکرہ ملتا ہے کہ ’’اسماء بنت ابو بکر ؓ نے صلح حدیبیہ کے زمانے میں حضور ؐ سے پوچھا کہ میری رضاعی ماں جو ابھی مشرکانہ دین پر قائم ہیں مجھ سے ملنے آئی ہیں اور چاہتی ہیں کہ میں اُن کی مدد کروں۔ حضور ؐنے فرمایا اُن کے ساتھ صلہ رحمی کرو اور جو کچھ دے سکتی ہو دو۔‘‘بخاری اور مسلم کی ایک دوسری حدیث میں لکھا ہے کہ : ’’ نبی ؐ کے پاس کچھ ریشمی جوڑے آئے، نبیؐ نے ایک جوڑا حضرت عمر ؓ کو عنایت فرمایا۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ؐ! آپ یہ مجھے دے رہے ہیں ؟ جب کہ آپ ؐاس کے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتے۔ حضورؐ نے فرمایا: میں نے تمہیں یہ پہننے کے لئے نہیں دیا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے وہ جوڑا اپنے مشرک بھائی کو دے دیا جو مکہ میں تھا۔‘‘ ان دو حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک سچے اور خدا ترس مومن کے حسن اخلاق کے حقدار صرف مسلم ہی نہیں غیر مسلم رشتہ دار بھی ہوتے ہیں۔ یوں تو قرآن و حدیث میں صلہ رحمی کی جو ہدایات ملتی ہیں اُن کا تعلق زیادہ تر مالی اور مادی امداد و اعانت سے ہے مگر رشتہ داروں کو دین وشریعت کا پابند بنانے اور اُن کے اخلاق و کردار کو سنوارنے کی کوشش بھی صلہ رحمی کے تقاضوں میں سے ہے۔