عبدالماجد نظامی
یوپی اے سرکار جس کی قیادت سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کر رہے تھے وہ جب اپنی دوسری اننگ میں پہنچی تو اپنی جہت کھو چکی تھی اور منموہن سنگھ کی سرکار مختلف قسم کی تنقیدوں کا شکار بنائی جا رہی تھی۔ پورے ملک میں ایسا ماحول قائم کردیا گیا تھا مانو جیسے اب بس قیامت کی ہولناکی ہی کی آمد باقی ہے۔ میڈیا کے ذریعہ شب و روز یہ پروپیگنڈہ پھیلایا گیا کہ یوپی اے سرکار شدید کرپشن کا شکار ہے اور پالیسی سازی کا عمل بالکل ٹھپ پڑچکا ہے۔ اگر ملک کو دوبارہ ترقی کے راستہ پر ڈالنا ہے تو اس کے لیے نریندر مودی کو حکومت کی باگ ڈور دینی ہوگی تاکہ وہ ہندوستان کو ترقی کے اسی عروج تک پہنچا سکیں جہاں آج گجرات موجود ہے۔ اس پروپیگنڈہ سے عوام اور خواص دونوں ہی بے حد متاثر ہوئے اور اس امید میں نریندر مودی کو حکومت کی کمان تھما دی گئی کہ وہ شاید اپنے نعروں کو حقیقت کا روپ دینے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے اور ملک کو ترقی کے منازل طے کروانے میں اپنا کردار نبھائیں گے۔ لیکن زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ نریندر مودی اپنے اس وعدہ کے ایفاء میں بری طرح ناکام نظر آئے۔ ان کے عہد حکومت میں سب سے پہلا دھچکا ہندوستانی عوام کو اس وقت لگا جب انہوں نے اچانک سے نوٹ بندی کا اعلان کر دیا۔ اس کے نتیجہ میں چلتی پھرتی اور ترقی کی سمت میں گامزن تجارت کو زوردار جھٹکا لگا اور وہ رُک سی گئی۔ عام انسانوں کی زندگیاں اتھل پتھل ہوگئیں اور کئی لوگوں کی جانیں بھی اس پالیسی کی نذر ہوگئیں۔ پالیسی سازی کے محاذ پر گجرات ماڈل کی یہ پہلی ناکامی تھی جس نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ اس کے پیچھے عوام کے مفاد کی حفاظت کا جذبہ کارفرما نہیں تھا۔ نوٹ بندی کا بنیادی مقصد کیا تھا، اس کے بارے میں بھی بشمول انسداد دہشت گردی اتنی باتیں بیان کی گئیں کہ یہ طے کرنا مشکل ہوگیا کہ آخر ایسا کیا کیوں گیا تھا۔ اس کے بعد رہی سہی کسر جی ایس ٹی کے نفاذ سے پوری ہوگئی۔ ان پالیسیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس گجرات ماڈل کے سہارے نریندر مودی سرکار حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے آئی تھی اور جنہوں نے ہر سال دو کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا، ان کے ہی دور حکومت میں ہندوستان کے اندر شرح بے روزگاری نے گزشتہ 45سالوں کا ریکارڈ توڑ دیا اور بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا۔ پھر ایک دن پالیسی کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک اعلیٰ ترین عہدہ دار نے یہ کہہ کر اپنا پلہ جھاڑ لیا کہ وہ بس ایک جملہ تھا۔ لیکن انہوں نے کبھی غور نہیں کیا کہ جسے وہ جملہ کہہ کر بہت آسانی سے بچ کر نکلنے کا راستہ بتا رہے ہیں، دراصل اسی جملہ کی بنیاد پر کروڑوں ہندوستانیوں نے ان میں اپنا اعتماد جتایا تھا تاکہ وہ ان کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنی دستوری ذمہ داریاں نبھائیں گے۔ انہیں عوام کے سامنے آکر بیان دینا چاہیے تھا کہ یہ سیاسی شعبدہ بازی کا حصہ تھا۔ آج اسی سیاسی شعبدہ بازی کا نتیجہ ہے کہ موربی جیسا جانکاہ حادثہ پیش آیا جس میں135قیمتی جانیں تباہ ہوگئیں۔ بعض لوگوں نے اپنی فیملی کے چار چار افراد ایک ساتھ کھو دیے اور پورا گھر ماتم کدہ میں تبدیل ہوگیا۔ یہ اس گجرات ماڈل کی سخت ناکامی ہے جس کو بنیاد بناکر پورے ملک میں اس کا ڈھنڈورہ پیٹا گیا تھا۔ یہ واقعہ خود وزیراعظم نریندر مودی کی امیج کے لیے بہتر نہیں ہے جنہوں نے ملک اور بین الاقوامی سطح پر یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ جرأت مندی کے ساتھ مشکل فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ہندوستان کو ایک مضبوط اور طاقت ور ملک کے طور پر دنیا کے نقشہ پر رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق گھڑی سازی کے میدان میں کام کرنے والی کمپنی اوریوا/اجنتا کو پل کے نظم و انتظام اور درستگی کی ذمہ داری 2008میں پہلی بار اس وقت دی گئی تھی جب نریندر مودی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز تھے۔ یہ ہندوستان کی امیج کے لیے بھی اچھا نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارا ملک دنیا بھر میں اپنے انجینئروں کی صلاحیت اور اپنے میدانِ عمل میں ممتاز کارکردگی کے لیے معروف ہے۔ اگر موربی جیسے واقعات کو رونما ہونے کا موقع دیا جائے گا تو ہندوستانی قابلیتوں کو شک کی نظر سے دیکھا جائے گا اور اس کی وجہ سے اس قسم کے قائدانہ رول ہندوستانیوں کے حوالہ نہیں کیے جائیں گے جن کے لیے آج ہندوستانی دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ جس کمپنی کو معلق پُل سازی اور اس کے مناسب نظم و انتظام کا تجربہ نہیں تھا، اس کو بھلا یہ ذمہ داری سونپی ہی کیوں گئی؟ اور آج جب یہ دل دوز واقعہ پیش آیا ہے تو آخر اس کے مجرموں کو کیا قرار واقعی سزا مل پائے گی؟ کیا اس بات کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ ایسے جانکاہ حادثات مستقبل میں پیش نہ آئیں؟ ان سوالوں کا مناسب اور معقول جواب اس لیے بھی مطلوب ہے کیونکہ ہندوستان جیسا ملک جہاں کی ثقافت دنیا کی قدیم ترین ثقافتوں میں سے ایک ہے، وہاں آج بھی انسانی زندگیوں کی ارزانی کا تماشہ جاری ہے۔ آئے دن یہ خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں کہ کہیں اسپتال میں آگ لگ گئی کیونکہ آگ زنی کی روک تھام کا انتظام نہیں کیا گیا تھا یا جن افسران کی ذمہ داری تھی کہ وہ جانچ پڑتال کریں، انہوں نے اپنی ذمہ داری ایمان داری سے نہیں نبھائی اور رشوت لے کر معاملہ کو ہلکے میں لیا جس کے نتیجہ میں انسانی جانیں تلف ہوئیں۔ موربی جیسا ہی حال کئی فیکٹریوں کے مزدوروں اور گاؤں و شہروں میں بسنے والے ان کمزور طبقوں کا ہوتا ہے جن کو ہر دور میں حکومتیں نظرانداز کرتی ہیں اور ان کے مسائل کے حل کی طرف اپنی توجہ مبذول نہیں کرتی ہیں۔ اب یہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ایک آخری لکیر کھینچ دی جائے اور طے کیا جائے کہ آئندہ کسی ہندوستانی کی جان اس طرح اکارت نہیں ہوگی۔ جو افسران اور افراد ایسے واقعات کے لیے ذمہ دار پائے جاتے ہیں انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ ہندوستانی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کی جرأت کوئی نہ کر سکے۔ سیاسی لیڈران کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اس بات کا عزم کریں کہ وہ ’جملوں‘ کا جال بُن کر عوام کو نہیں پھانسیں گے بلکہ حقیقت کے دائرہ میں رہ کر قابل عمل وعدے کریں گے اور ان کو بروئے کار لانے کی سنجیدہ کوشش بھی کریں گے۔ اس کا آغاز اگر گجرات سے ہی کیا جائے تو بہتر ہوگا جہاں اسمبلی انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے۔ یہی وقت ہے کہ عملی طور پر یہ ثابت کیا جائے کہ گجرات ترقیاتی ماڈل ایک جملہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ یہ تبھی ممکن ہوپائے گا جب موربی سانحہ کے اصل مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]