نئے سال پر اپنا محاسبہ کیجئے اور ہجری کلنڈر کو رواج دیجئے

0

مولانا محمد قمر الزماں ندوی

آج ہجری تقویم کے اعتبار سے سال کا آخری دن ہے اور آخری تاریخ ہے ، آج کا سورج جیسے ہی غروب ہوگا نئے اسلامی ہجری سال کا آغاز ہوجائے گا ۔ اور ہم سب نئے اسلامی سال میں داخل ہو جائیں گے یعنی 1442ھج ختم ہوکر 1443ھج کی شروعات ہوجائے گی ۔ ایمان والوں کے لئے ہجری اسلامی سال اور تاریخ کی بڑی اہمیت ہے ۔ واقعہ ہجرت سے اسلامی سال اور تاریخ کی شروعات بہت ہی معنی خیز ہے ۔ اس لئے کہ ہجرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا وہ مبارک واقعہ ہے جو نہ صرف مسلمانوں کی ایثار اور جانثاری و فداکاری کا اوج کمال ہے بلکہ یہ اسلام کے ظہور و غلبہ کا نقطئہ آغاز بھی ہے ،اسی بنا پر حضرات صحابہ کرام نے اسلامی کلینڈر کے لئے اسی واقعہ کو بنیاد و اساس بنایا اور یہ ہجری کلینڈر ھجری تقویم سے موسوم ہوا ۔ علماء اور حضرات اہل علم نےلکھا ہے کہ مسلم معاشرہ میں ھجری تقویم کے رواج کو باقی رکھنا فرض کفایہ کی حیثیت اور درجہ رکھتا ہے اس لئے کہ اس سے متعدد عبادتیں متعلق ہیں ۔
مگر افسوس افرنگیوں کی تقلید میں ہم ایسے اندھے ہو گئے ہیں اور مغربی تہذیب کے سیل رواں میں ایسے بہہ گئے ہیں اور مسلمانون کی مرعوبیت اور اس طوفان کے مقابلے سپر اندازی نے نوبت یہاں تک پہچا دی ہے کہ آج زیادہ تر مسلمان نوجوان بلکہ بوڑھے اور ادھیڑ ھجری مہینوں کے نام سے بھی واقف نہیں اور یہ جاننے والے تو اور کم ہیں کہ اسلامی تقویم کی بنیاد کیا ہے ؟ یہ کیوں کر وجود پذیر ہوئ اور واقعئہ ہجرت ہی سے اس کلینڈر کی ابتداء کرنے میں کیا حکمت اور پیغام ہے ؟
اس بے توجھی بے التفاتی اور نا آگہی کا نتیجہ ہے کہ جتنے کلینڈر جنتریاں اور ڈائریاں چھپتی ہیں وہ سب بھی مسیحی عیسوی تقویم کا لحاظ کرتے ہوئے ۔ ضرورت ہے کہ ہم مسلمان ھجری تاریخ کی اہمیت کو جانیں اور سمجھیں اور بلا ضرورت شدیدہ اس تقویم اور سنہ کو چھوڑ کر دوسرے سنہ کو فوقیت اور ترجیح نہ دیں ۔ ہم کو یہ یاد رکھنا اور سمجھنا چاہیے کہ ھجری تاریخ سے سنہ کی ابتداء اور آغاز کا فیصلہ ۱۷ میں ہوا اس وقت سے اب تک صحابئہ کرام اور ہمارے اسلاف قمری مہینوں اور سنہ ہجری کا اہتمام کرتے رہے ہیں اور مسلمانون کو بھی اس کے التزام کی تعلیم دیتے رہے ہیں کیونہ منجملہ شعائر اسلام سے ہے ۔ قمری مہینوں کے نام زبان وحی و نبوت سے ادا ہوئے ہیں اور سنہ ہجری کے بارے میں معلوم ہو کہ ایک مہتم بالشان واقعہ کی یاد گار ہے ۔دوسری طرف ہمیں اس جانب بھی غور کرنا ہوگا کہ سال کے اختتام پر ہم زندگی سے ایک سال دور ہوگئے اور موت سے ایک سال قریب ہوگئے ۔ سال گزشتہ ہم سے جو کمیاں اور کوتاہیاں ہوئیں اس پر اپنا محاسبہ کریں اور آئندہ ہم سے اس کا اعادہ نہ ہو، اس کا عہد و پیمان کریں ۔ اسی طرح سال گزشتہ ہم سے جو نیکیاں اور اچھائیاں ہوئیں اور نیکی اور خدمت خلق کے جوکام ہوئے، اس پر ہم اللہ کا شکر ادا کریں اور آئیندہ ہم سے زیادہ سے زیادہ اچھے اور نیک اعمال ہوں اور ہم زیادہ سے زیادہ انسانیت اور مانوتا کے کام کریں، اس کی توفیق کے لیے خدا برحق سے دعا کریں ۔ نئے سال پر ہم نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ کھڑے ہوجائیں اور یہ عزم کریں کہ قوم ،ملک و ملت اور انسانیت کی جتنی خدمت ہوسکتی ہے، اس کو ان شاءاللہ انجام دیں گے ،انسانیت کی خدمت کریں گے مانوتا کے پیغام کو دوسروں تک پہنچائیں گے ، امن شانتی کی فضا بنائیں گے، اپنی ذات اور صلاحیت سے لوگوں کو فائدہ پہنچائیں گے ، خالق کو راضی کریں گے اور مخلوق کی خدمت کریں گے ، نیز وہ تمام امور انجام دینگے جس سے ، اللہ خوش ہوتا ہے اور اس کی رضا حاصل ہوتی ہے، ۔ اللہ سے دعا کریں کہ آنے والے سال کا ہر لمحہ ، گھڑی ،منٹ اور گھنٹہ ہمارے لئے خیر کا ذریعہ بنے اور ہم ایک لمحہ کی قدر کرنے والے بن جائیں ۔ آمین یا ربّ العالمین

جنرل سکریٹری
مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS