عبدالسلام عاصم
اور سماجی انقلاب میں مذہب کا کردار ہر عہد میں تبدیل ہوتا آیا ہے۔ یہ تبدیلی کبھی اصلاح کی شکل میں آتی ہے تو کبھی معاشرے کو آزمائش میں ڈال دیتی ہے۔آج بھی دنیا کے کئی معاشرے اِس رُخ پر ایک سے زیادہ تغیر کے عمل سے گزر رہے ہیں اور مذاہب سے اپنے اپنے طور پر رہنمائی کشید کرنے والوں کا اِن سب میں کسی نہ کسی طور پر عمل دخل ہے۔
ایسے ہی معاشروں میں ایک معاشرہ تبلیغی جماعت پر پابندی لگانے کے حوالے سے ان دنوں سُرخیوں میں رہنے والے سعودی عرب کا بھی ہے جہاں حکمرانی کے نظام میں سیاست، معاشرت اور مذہب کا ایک دوسرے سے اشتراک تیزی سے تشکیل ِنو کے عمل سے گزر رہا ہے۔ ایک صدی قبل سعودی عرب کے قیام کے بعد شاید یہ سب سے زیادہ دور رس تبدیلی کا عہد ہے جس کا ہم سب کو دستاویزی گواہ بننے کا شرف حاصل ہے۔ مذہبی اقدار، افکار و نظریات اور انہی سے وابستہ اخلاقیات اور اُن کی پاسداری کیلئے مطلوب سیاسی اختیارات کے ساتھ سعودی معاشرہ ابھی کل تک مخلوط سماجی زندگی کی نمائندگی کرنے والی وسیع دنیا بشمول کئی مسلم ملکوں سے واضح طور پر مختلف نظم و ضبط کا حامل تھا۔وہاں ایسی بہت ساری فطری سرگرمیوں پر مطلق پابندی تھی جن کی دوسرے مسلم، دیگر ابراہیمی اور غیر سامی اکثریت والے ملکوں میں مکمل یا محدود پیمانے پر اجازت ہے۔
معاشرے کی تشریح میں اختلاف کا براہ راست تعلق اچھائی یا برائی کی تفہیم سے ہے۔ کچھ حلقوں میں پسند اور ناپسند کو بھی حق و باطل پر محمول کرنے کی فکر عام ہے۔ایسا علم و عقائد کے درمیان ہم آہنگی میں کمی یا سرے سے فقدان کی وجہ سے ہے۔ بیشتر حلقوں میں اربابِ اختیار یومیہ زندگی اپنے طور پر جینے کی عام انسانی آزادی کو بیش و کم تسلیم کرتے ہیں اور اپنے مقتدرانہ عمل دخل کو فوجداری قانون کے تحت مداخلت تک محدود رکھتے ہیں۔دوسری طرف ایک حلقہ ایسا بھی ہے جس کے ذمہ داران زندگی گزارنے کے ہر معاملے میں مکمل طور پر ججمنٹل ہوتے ہیں۔اس نمایاں فرق کے باوجود ایسا ہرگز نہیں کہ جس سماج میں قید و بند زیادہ ہے وہاں صرف زیادتیاں ہی ہوتی ہیںاور جہاں اپنے طور پر زندگی گزارنے کی کم و بیش چھوٹ ہے وہاںسب خیریت ہے۔ ایسا ہوتا تو کسی حلقے میں ایک بھی اچھا انسان نہیں ہوتا اور دوسرے حلقے میں کوئی بُرا آدمی نظر نہیں آتا۔ صحت مند معاشرہ دراصل جسمانی اور ذہنی بلوغت کے سفر کو متوازن رکھنے سے سامنے آتا ہے۔ بدقسمتی سے پابند نظریات کے غلبے والے معاشرے میں اس توازن کی ہر عہد میں کمی رہی ہے۔ یہ کمی خطرناک ہوتی ہے اور زمانے کی رفتار کے ساتھ اس میں بھی شدت کی نوعیت بدلتی رہتی ہے۔چونکہ اچھی تبدیلی کا خیر مقدم کرنا اور ناخوشگوار تبدیلی سے اوب جانا انسانی فطرت ہے، اسی لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ جنوبی اور مغربی ایشیا سمیت دنیا کے کئی خطوں کو اِس وقت علمی اور نظریاتی کشاکش کا سامنا ہے۔
یہ سچ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ایک صدی قبل سعودی عرب کے عوامی معاشرے کی تشکیل مذہبی عقیدے کے ایک مخصوص رُخ پر کی گئی تھی۔ اسلامی متون اور تعلیمات کی مخصوص تشریحات اور انہی کی مناسبت سے شرعی تربیت یافتہ مقتدرات بشمول مذہبی پولیس محکمے، وزارت تعلیم اور دیگر اداروں کی سرگرمیوں نے سعودی عرب کو ایک ایسا رنگ و روپ عطا کر دیا تھا جس کی متعلقہ خطے میں بھی کوئی حقیقی متوازی نظیر کبھی نہیں رہی۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتاکہ سعودی معاشرتی انقلاب دوسرے عرب، خلیجی اور افریقی ملکوں کو بھی متاثر کرے گا،کیونکہ بیشتر سعودی ہمسائے پہلے سے ہی خاصی معاشرتی آزادی کے حامل چلے آ رہے ہیں۔
غلبے والی خصوصیات بہرحال فکری اور نظری زندگی کے کسی شعبے میں کبھی لازوال یا ناقابل تغیر نہیں رہیں، بلکہ ہمیشہ بدلتی آئی ہیں۔ سعودی معاشرے کا موجودہ انقلاب اس کی تازہ نظیر ہے۔ اگرچہ بعض حلقوں کا خیال یہ ہے کہ یہ سب مغرب کے زیر اثرولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ذہنی اُپج ہے اور کچھ لوگ اس میں سازش کا پہلو بھی تلاش کرنے میں کسی عجلت سے باز نہیں آ رہے ہیں، لیکن سماجی نفسیات کے ماہرین کے نزدیک ایسا کچھ نہیں ہے۔وہاں شروع ہونے والا یہ رجحان شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے سے پہلے اپنی جڑیں مضبوط کرنے لگا تھا۔ اب صرف اس میں تیزی آ رہی ہے، جو عین فطری ہے۔ویسے بھی ہر تبدیلی کی رفتار بتدریج تیز ہوتی ہے، خواہ وہ کسی بھی رُخ پر ہو۔
غیر جانبدارانہ تجزیے میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب میں معاشرتی خط و خال اور حکمرانی کے طریق کار میں جو تبدیلیاں آ رہی ہیں وہ مقصدِ کُن سے کسی انحراف کا نتیجہ نہیں، بلکہ فطرت کے تقاضوں پر عمل کی بند راہیں کھولی جارہی ہیں۔ بقول علامہ اقبال تسلیم و رضا کا مقصد بھی یہی ہے۔ ضربِ کلیم میں وہ کہتے ہیں کہ:-
فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہِ عمل بند
مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رضا کا
اسی کے ساتھ وہ کسی اندیشے میں پڑنے کے بجائے امکانات کے در بھی وا دیکھتے ہیں اور اس کا اظہار یوں کرتے ہیں:-
جرات ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے
اے مرد خدا ! ملکِ خدا تنگ نہیں ہے
اس طرح دیکھا جائے تو یہ ادراک مشکل نہیں کہ سعودی معاشرہ ایسے ذمہ داروں سے نجات حاصل کر رہاہے جو فطری طور پر ارتقاء پذیر زندگی کو دینی احکامات کے نام پر جامد اصولوں کے تابع دیکھنا چاہتے تھے۔ اب وہاں نوکرشاہی کی تنظیمِ نو اور اُن کے دائرہ اختیار کو دائرہ عمل میںبدل کر ملک اور عوامی زندگی میں مذہب کے کردار کو بظاہر مقصدِ کُن کے رخ پر انقلاب آشنا کیا جا رہا ہے۔
تغیر کے اِس موڑ پرپوچھا جا سکتا ہے کہ تبلیغی جماعت پر پابندی لگانے کی کارروائی کے ذریعہ سرزمینِ حجاز سے مسلمانوں، آلِ ابراہیم اور دنیا کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟ اس تنظیم پر ازبکستان، تاجکستان اور قزاخستان میں بھی مبینہ طور پر پابندیاں عائد ہیں۔1926 میں قائم ہونے والی تبلیغی جماعت سے سابقہ صدی کی ساتویں/آٹھویں دہائی میں جب میں متعارف ہوا تھا تو بتایا گیا تھا کہ یہ وہ جماعت ہے جو آنحضورؐ کے ساتھ تمام انبیا کی تعلیمات سے زندگی کو مربوط دیکھنا چاہتی ہے اور تبلیغی ذمہ داروں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے کہ کوئی ایک طمانچہ مارے تو تم دوسرا گال آگے کر دو۔مہاتما گاندھی جی نے بھی اسی قول سے استفادہ کیا تھا۔مولانا الیاس مرحوم نے ایک پہلوان نما شخص کو دین کی دعوت دی، توجہ نہ ملنے پر ایک دو بار پھر رجوع کیا تو اُس نے اُن کے ساتھ یہاں تک بدتمیزی کی کہ اُنہیں زمیں پر گرا دیا۔ مولانا نے اُٹھ کر گرد جھاڑتے ہوئے اُس سے کہا کہ آپ نے اپنا کام کر دیا، اب میری بات سنیں۔ اُس شخص کا دل ایکدم سے پسیج گیا۔
ایسا پس منظر رکھنے والی جماعت کیسے انقلاب پذیر عرب معاشرے میں مصیبت نظر آنے لگی! اِس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تنقید، مذمت اور تعریف سے صرف کام چلایا جا سکتا ہے، بات نہیں بنتی۔اوریہ وقت خانہ پُری کرنے کا نہیں بلکہ مذہب یا کسی بھی مذہبی تنظیم سے راست جذباتی وابستگی یا بالواسطہ احترام سے ہٹ کر سوچنے، سمجھنے اورغور کرنے کا ہے۔ایسی غیر جانبداری سے ہی یہ سمجھ میں آئے گا کہ کہاں کیا خلل پڑ رہا ہے! اور زمانے پر اگر کوئی ایسا ویسا تاثر قائم ہو رہاہے تو اُس میں کن باتوں کا عمل دخل ہے!!
واقعات اور سانحات کے اخباری دستاویزات مظہر ہیں کہ جب بھی مذہب کی کمان بزعم خود اپنے ہاتھ میں لے لینے والا کوئی انتہاپسند قانون کی گرفت میں آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی ذہنی پرورش تو کسی معتدل درسگاہ میں ہوئی تھی۔اس اطلاع کو محض اتفاق پر محمول کرنے کے بجائے ذمہ داران کو یہ سوچنا چاہیے کہ مہذب سماج میں جب انتہا پسند پیدا کرنے کا کہیں کوئی کارخانہ کسی ہورڈنگ کے ساتھ موجود نہیں تو پھر کسی بھی معتدل درس گاہ میں لا شعوری طور پر ہی سہی آخر ایسی کیا غفلت ہو رہی ہے جو سننے، پڑھنے اور ماننے تک محدود ذہن رکھنے والوں میں کچھ بدنصیبوں کو مذہب کے نام پر مخدوش تصورات کا حامل بنا دیتی ہے۔
کہتے ہیں کہ دینی، سماجی اور سیاسی رہنماؤں کی بالواسطہ غلطی یا غفلت کے نتیجے میں تقلید کرنے والے براہ راست خسارے کا سودا کر بیٹھتے ہیں۔اس لحاظ سے یہ وقت محض تنقید اور مذمت سے خانہ پُری کرنے کا نہیںبلکہ یہ جاننے، سوچنے اور سمجھنے کا ہے کہ معتدل درسگاہوں میں راست یا بالواسطہ کہاں غفلت یالاشعوری غلطی ہو رہی ہے۔ بالفرض کسی ممکنہ نقص کی شناخت ہوجاتی ہے تو ایک دوسرے پر الزام تراشی میں وقت ضائع کرنے سے قطعی طور پر بچتے ہوئے مثبت اقدامات کے ذریعہ حالات پر پہلے قابو پانے اور پھرمنظرنامے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
سماج کو فطری آزادی کے ساتھ آگے بڑھنے کی سہولت فراہم کرنے کے بجائے اسے بالکل ہی تابع بنا کر رکھنے کا جذبہ بظاہر موجودہ صورتحال کا اہم محرک ہے، جس سے آزادی پسندوں کے ساتھ ساتھ روایات کی پاسداری کرنے والے جامد حلقوں کو بھی باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ کام کسی تنظیم کی تمام تر خدمات کو فراموش کرکے اُس کی سرگرمیوں کے بعض مبینہ ذیلی نتائج کو اصل مان کر اُس پر پابندی لگا کر ہی کیا جائے۔سعودی حکام اور دیگر تمام با شعور عالمی ذمہ داران پر لازم ہے کہ وہ اندیشوں سے نمٹنے اور امکانات کے در وا کرنے کیلئے ممکنہ خطرہ بننے والی کسی بھی ذیلی خرابی کا پہلی فرصت میں نفسیاتی علاج کریں تاکہ نوبت پیشگی اقدام کی صورت میں قدغن لگانے والا انتظامی قدم اٹھانے کی ضرورت تک نہ پہنچے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]