گروگرام: جمعہ کی نماز پر تنازع کیوں؟

0

برنداکرات

کوئی یہ سوچتا ہے کہ مسلمانوں کو زبردستی اُن مقامات پر نماز کی ادائیگی سے روکنا، جہاں ان کو باقاعدہ انتظامیہ کی طرف سے اجازت مل گئی تھی، صرف کچھ نفرت پھیلانے والے گروپوں کا کام ہے تو وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹّر کے اس بیان سے اس کی نفی ہوتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کی سرکار کھلے میں نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دے گی، ان کو(مسلمانوں کو) نماز اپنے گھروں میں ہی ادا کرنی ہوگی۔
وزیراعلیٰ کا مذکورہ بیان گمراہ کن ہے۔ جمعہ کی نماز اجتماعی طور پر ادا کی جاتی ہے۔ نماز میں خطبہ اور وعظ ہوتا ہے۔ دیگر دنوں میں لوگ اپنے گھروں میں نماز ادا کرتے ہیں۔ پورے ملک میں یہی ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ ہریانہ بطور خاص مسلمانوں کو اپنے گھروں میں نماز ادا کرنے کے احکامات کیوں دے رہے ہیں۔ کوئی پوچھے کیا مسلمان ہر روز پانچ وقت کی نماز کھلے میں ادا کرتے ہیں۔
دوم یہ ہے کہ وزیراعلیٰ نے جان بوجھ کر حقائق سے چشم پوشی کی ہے۔ گروگرام میں مسلمانوں کی آبادی پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ جمعہ کے روز باجماعت نماز کی ادائیگی میں دشواریاں اس وجہ سے آتی ہیں کیوں کہ وہاں مساجد نہیں ہیں۔ مسلمانوں کی طرف سے مسجد کی تعمیر کے لیے زمین خریدنے کی کوششوں میں سرکاری ایجنسیاں رکاوٹیں کھڑی کررہی ہیں جبکہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کی تعمیر کے لیے زمین دی جارہی ہے۔ سرکار سے درخواست کی جاتی رہی ہے کہ وقف املاک پر جہاں سرکاری اداروں نے قبضہ کرلیا ہے، واپس کردی جائے تاکہ ان مقامات پر مساجد بنادی جائیں اور کھلی جگہوں پر چہاردیواری تعمیر کرادی جائے۔ 2018میں سرکار نے وعدہ کیا تھا کہ وقف املاک واپس کردی جائیں گی مگر ابھی تک کچھ نہیں ہوسکا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کے پاس اس کا بھی کوئی جواز نہیں ہے کہ 2019میں کھلے میں نماز کی ادائیگی سے متعلق انتظامیہ کی طرف سے کیے گئے سمجھوتہ کو اس قدر بے رحمی سے کیوں پامال کیا جارہا ہے۔ انتظامیہ نے نماز کے لیے 37مقامات کی نشان دہی کی تھی۔ نماز جمعہ کی ادائیگی پانچ منٹ کا معاملہ ہے جس میں دو رکعت کی ادائیگی ہوتی ہے اور خطبہ میں بھی 15سے 20منٹ تک لگتے ہیں۔ نماز کے جن مقامات کا تعین کیا گیا ہے وہ زیادہ تر رہائشی علاقوں میں نہیں ہیں۔ بلکہ یہ وہ جگہیں ہیں جو ٹرکوں کو کھڑا کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں یا وہ سڑک کے کنارے یا صنعتی علاقوں کے پاس کے خالی مقامات ہیں۔لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ عوام کو اس سے تکلیف پہنچے گی یا عام راستہ رک جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ سمجھوتے سے پلٹ جانے کا جواز کیا ہے۔ اب یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ انتظامیہ نے ان مقامات کی تعداد دس سے بھی کم کردی ہے جہاں نماز پڑھنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ یہ بالکل نامناسب، غیرمنصفانہ اور مکمل طور پر جانبدارانہ حرکت ہے۔
اس تنازع کاحل نکالنے کے بجائے وزیراعلیٰ ڈرانے اور دھمکانے پر اُتر آئے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ شہری ایسے بھی ہیں جو نماز پڑھنے والوں کے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔ جمعہ کی نماز کے لیے آنے والے افراد میں گارمینٹس اور دیگر کارخانوں میں کام کرنے والے ملازم ہیں جن کی بڑی تعداد غیرمنظم سیکٹر کے لوگوں کی ہے۔
کچھ فیکٹریوں کے مالکان جن کی اکثریت ہندو ہے اپنے ورکروں کو فیکٹریوں میں نماز ادا کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ ان کو اس بات کا احساس ہے کہ اس طرح کی فرقہ وارانہ تفریق ان کی فیکٹریوں میں کام کو متاثر کرے گی۔بہرکیف نماز کے معاملہ میں کئی حلقوں سے حمایت ملی ہے، اس کا مثبت اثر پڑا ہے۔ ایسا کوئی بھی واقعہ سامنے نہیں آیا ہے جہاں فیکٹریوں میں کام کرنے والے ہندوؤں نے نماز کی ادائیگی پر اعتراض کیا ہو۔ گروگرام کے بہت سے لوگ نماز کی ادائیگی کے لیے جگہیں دینے کے لیے آگے آئے ہیں۔
پچھلے دنوں ہندوستان کی سیاست میں دو متوازی رویے سامنے آئے ہیں، ان میں سب سے پہلا اتحاد اور رواداری کی سیاست کا کسانوں اور مزدوروں کی جدوجہد کا کامیابی سے ہمکنار ہونا ہے۔ اس اتحاد نے مختلف علاقوں میں فرقہ واریت کی دیواروں کو منہدم کیا اور اس کی وجہ سے سرکار کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ دوسرا مرکز میں برسراقتدار طبقہ کا ظلم، ایک مرتبہ پھر محدود سیاسی مفادات کے لیے مذہب کا استعمال تھا جو ہریانہ کے وزیراعلیٰ یا گجرات کے ریونیو کے وزیر راجیندر ترویدی کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے۔ راجیندرترویدی نے کہا تھا کہ کھلے عام سڑک پر نان ویج کھانے کی فروخت ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہے۔ اگر گروگرام میں سخت گیر ہندوتو گروپ نماز کی ادائیگی کو روک رہے ہیں تو گجرات میں پولیس نان ویج کھانے کو فروخت کرنے سے روکتی ہے اور ان کا سامان ضبط کرلیتی ہے۔ دوسرے معاملہ میں گجرات ہائی کورٹ نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اترپردیش میں بی جے پی لیڈر ہر تقریر میں فرقہ واریت کی بات کرتے ہیں، اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ اس معاملہ میں سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ایک طبقہ کو سیکورٹی کے لیے خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔ گروگرام میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے معاملہ میں ایک ایسا ویڈیو بھی شیئر ہوا ہے جس میں وی ایچ پی کے لیڈر کہہ رہے ہیں کہ ’’یہ نماز نہیں جہاد ہے۔ یہ دہشت گردی ہے۔‘‘ یہ وہی پروپیگنڈہ ہے جس کے تحت سامان بیچنے والے مسلموں کو ہندو علاقوں میں جانے سے روکا جاتا ہے۔ یہی نہیں کچھ رہائشی علاقوں میں مسلمانوں کو گھر کرایہ پر دینے پر اعتراض جتایا جاتا ہے۔ یہ کام سیکورٹی کا ہوّا کھڑا کرکے کیا جاتا ہے۔ یہ حکمت عملی جان بوجھ کر اختیار کی جاتی ہے تاکہ ایک خاص طبقہ کے خلاف سیکورٹی کا خوف دکھایا جاسکے۔ عوامی جدوجہد کی سیاست سے نفرت اور تفریق کی سیاست پر قابو پایا جاسکتا ہے، مگر اس کے لیے ہمیں وقتی یکجہتی کے جذبات پیدا کرنے کے بجائے یکجہتی کے دیرپا اثرات مرتب کرنے والا ماحول بنانے کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ تفریق پسندوں اور فرقہ پرستوں کی فرقہ واریت اور اقلیت دشمنی کے خلاف سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ان مسائل کو نظرانداز کرنے کی حکمت عملی ان طاقتوں کو مزید مستحکم کرے گی جو فرقہ واریت اور عوامی انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
(مضمون نگار مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کی سینئر لیڈر ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS