ڈاکٹر خان مبشرہ فردوس
نوعمری میں بچے اور والدین کے درمیان دوری کی کچھ وجوہات ہوتی ہیں۔والدین کے لیے اولاد سب سے قیمتی دولت ہے، ان کی زندگی اپنے بچوں کے اطراف گھومتی ہے ،فطری طور پر والدین چاہتے ہیں وہ اپنے بچوں کے بہت قریب رہیں، بچے ان پر اعتبار کریں ، انھیںاہمیت دیں ، ان کی توقع کے مطابق بچے کا رویہ ہو ،والدین کی یہ خواہش شیر خوارگی سے لے کر بچپن تک تو پوری ہوجاتی ہے،تاہم جوں جوں بچے کی عمر بڑھتی ہے وہ والدین سے دوری بنانے لگتا ہے ۔
ٹین ایج، جس کو نو عمری کا دور بھی کہتے ہیں ،یہ دور زندگی کا سب سے الجھا ہوا مرحلہ ہوتا ہے، ہارمونز کی تیزی سے تبدیلی بچوں کی زندگیوں پر اثر ڈالتی ہے، جس سے والدین اور نو عمر؛ دونوں کےآپسی تعلقات متاثر ہونے لگتے ہیں۔ والدین کے لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ وہ اپنے ترقی پذیر بچوں کی منتقلی کواس وقت سمجھیں اور ان کی مدد کریں۔ مزید برآں، اگر آپ کا بچہ نوعمری کو پہنچنے والا ہے، تووالدین کو بچوں کی تبدیلی فکر مند بنا سکتی ہے۔ اکثر والدین بچوں کی نافرمانیوں کو اتنا دل سے لگا لیتے ہیں کہ انہیں بگاڑ تصور کرتے ہیں، یہ سوچ جب بہت زیادہ بڑھ جائے تو والدین کی دماغی صحت کو متاثر کرتی ہے،والدین کو چاہیے کہ بچے کی اس عمر کے تقاضوں کو سمجھیں ،ان میں آنے والی رویے کی تبدیلی کا استقبال کریں۔
اس عمر میں بچوں کو رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ، اس ضرورت کو پورا کرنے اور پریشان کن خدشات کو دور کرنے کے لیے، والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ بامعنی گفتگو کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ بات چیت والدین اور بچے کے تعلقات کو بڑھا سکتی ہے، اعتماد کو فروغ دے سکتی ہے، اور آپ کے نوجوان کو زندگی کے قیمتی اسباق فراہم کر سکتی ہے۔کچھ اہم وجوہات درج ذیل ہیں، جوبچے کی ارتقائی عمل کو سمجھنے میںممدو معاون ہوسکتے ہیں :
والدین کے تئیں حساسیت:بچےکے مشاہدے میں یہ بات ہوتی ہے کہ بچپن سے اس کی والدہ اس کا بہت خیال رکھتی ہیں، اس کے والد اس کی ہر فرمائش پوری کرتےہیں ۔والدین کو وہ اکثر بچوں کے مسائل سے پریشان ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، وہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ والدہ اسکول میں پریشانی کی شکایت پر ٹیچر سے بات کرنے ہی پر مطمئن ہوتی ہے، وہ آپ کے پریشان کن تاثرات کا مشاہدہ کرتا ہے اور یہ تأثر بنالیتا ہے کہ میری وجہ سے والدین بہت تکلیف اٹھارہے ہیں ۔جب وہ نوعمری کو پہنچتا ہے تو وہ اپنے آپ کو مکمل اور فیصلہ کن شخصیت تصور کرنے لگتا ہے، اس عمر میں بچے کے پاس بھرپور توانائی ہوتی ہے، وہ اپنے تجربات اور مشاہدات پر زیادہ یقین کرنے لگتا ہے۔ اس عمر کو ماہرین سوڈو ایج (دور کاذب) بھی کہتے ہیں، جس میں بچے کو یہ مغالطہ رہتا ہے کہ وہ اب بڑا ہے اور اپنے مسائل خود سمجھ سکتا ہے ۔ اپنی دانست میں نوعمر بچے والدین کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے دوری بناتے ہیں، اپنی ذاتی باتوں کو صیغۂ راز میں رکھنا چاہتے ہیں ۔ان ہی وجوہات کےباعث وہ والدین سے اپنے مسائل چھپانے لگتا ہے ۔بچےکی اس کیفیت سے سامنا کرنے والےوالدین کو چاہیے کہ بچے کی سماعت پر صرف مثبت فقرے ان کی جانب سے ثبت ہوں ۔جیسے:’ آپ بہت سمجھدار ہیں، ہمیں یقین ہے آپ اس کام کو بہت اچھا ہوم ورک کرنے کے بعد انجام دیں گے ، آپ کی زندگی میں اصول پسندی سب سے بڑی خوبی ہے ، ہم آپ کو جانتے ہیں ،آپ اسلامی آداب سے سمجھوتہ نہیں کرسکتے ۔‘‘اس طرح کے جملے بچے کو احساس دلاتے ہیں ،جس مقصد سے اس نے دوری بنائی ہے، اس میں والدین کا تعاون ہے۔
والدین کے ذریعہ ملا ہوا معیار:والدین بچپن سے بچے کو ایک معیار دیتے ہیں ۔یہ غلط ہے ،یہ درست ہے،اسی معیار کی وجہ سے وہ خائف ہوتے ہیں کہ والدین سے اس بات کو پوشیدہ رکھا جائے، کیونکہ والدین کی نگاہ میں میرا فلاں ساتھی کی صحبت میں رہنا غلط ہے ، اس لیے وہ والدین دوری بناتے ہیں۔اس سلسلے میں والدین کی کوشش یہ ہو کہ غلط اور صحیح کا معیار بچے کو لاجک کے ساتھ دیں، اس بات کے ساتھ دلائل بھی دیں۔ بچپن ہی سے کسی کی صحبت سے بچنے کی تلقین کرنا مقصود ہوتو بچے پر اس کی وجوہات واضح کریں ۔کسی دوسرے بچے کی صحبت سے روکنے کے بجائے بچے کو خود اپنے ذاتی اصول بنانے کی تلقین کریں، کسی دوسرے بچے سے متعلق جج مینٹل اسٹیٹمنٹ نہ دیں، جس سے بچہ اوور کانشیس ہوجاتا ہے ۔مثلاً: رشتہ داروں کے بچوں کے ساتھ رہنےسے والدین اپنے بچے کو روکتے ہیں، رشتوں سے متعلق منفی فقرے استعمال کرتے ہوئے منع کرتے ہیں ۔ بچپن میں بچے رک جاتے ہیں، لیکن ٹین ایج میں بچے پر آشکار ہوتا ہے کہ وہ منفی فقرے درست نہیں ہیں،حقیقت اس کے برعکس ہے، تبھی بچے کا اعتماد اپنے والدین سے جاتا رہتا ہے ۔وہ نوعمری میں اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ کہ مائیں اس صحبت کو پسند نہیں کریں گی، آپ سے چھپانے لگتے ہیں ۔لڑکیاں اس عمر میں اپنی بیسٹ فرینڈ سے اپنی باتیں شیئر کرتی ہیں، اور لڑکے اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ اپنی ذاتی زندگی سے متعلق باتیں شیئر کرنے لگتے ہیں ۔
جذباتی اور جنسی ارتقاء:نوعمری کا دور جنسی ، جسمانی اور جذباتی ارتقاء کا دور کہلاتا ہے۔ نو عمر بچے اس عمر میں اکثر اپنی جنسیت اور جنس پر سوال اٹھاتے ہیں، اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس تبدیلی کے دور میں احساسات کو سمجھنے یا ان کا صحیح طریقے سے انتظام نہ کر سکیں، کبھی کبھی وہ مایوس ہوتے ہیں اور کبھی پرجوش ہوتے ہیں ۔ مکالمہ شروع کرنے کے لیےخود کی دریافت کی کوشش میں ہوتے ہیں ، انھیںفکر لاحق ہوتی ہے کہ ہم میں کون سی صلاحیت ہے ؟اکثر اسی حوالے سے ان کے ذہن میں سوالات سر اٹھاتے ہیں ۔اگر آپ بچوں کو کھل کر اپنی رائے دینے کی اجازت دیں تو ممکن ہے کہ آپ ان کی مدد کر سکیں ، عین ممکن ہے کہ وہ بھی سکون محسوس کریں، ان کے لیے بھی یہ فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا کہ ان کے لیے کیا بہتر ہے؟ مزید برآںیہ انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ وہ تنہا نہیں ہیں، ہر قدم پر ان کے والدین ان کے ساتھ ہیں ۔
صحت مند تعلقات اور حدود:اس عمر میں والدین اور بچوں کے درمیان صحت مند تعلقات ہونے چاہئیں۔ موجودہ ماحول میں بچے سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے ہیں ،وہاں ان کی ہر اچھی بری بات کو کو پذیرائی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، وہ سوشل میڈیا پر آزادی محسوس کرتے ہیں، غیر محسوس طریقے سے لوگ انہیں گڈ فالوور بنالیتے ہیں ،خاموشی سے بچوں کو کھل کر گفتگو کرنے کی اجازت کا نتیجہ ہے کہ انھیں مینٹور بھی مل جاتا ہے، ایسے حالات میں والدین سے صحت مند تعلقات کا خاتمہ بنیادی بات ہے، والدین کا بچوں سے صحت مند تعلقات بنانے کی شعوری کوشش کرنا پرورش کا اہم حصہ ہے ۔
نوعمروں کو صحت مند تعلقات کی اور صاف و شفاف مکالموں کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنی دوستی، رومانوی تعلقات، اور آن لائن رابطوں کوپسند کرتے ہیں بچوں کو احترام، رضامندی، اور حدود طے کرنے کی اہمیت پر زور دیں۔ غیر صحت مند تعلقات کی انتباہی علامات کی نشاندہی کرنے میں ان کی مدد کریں، جیسے کہ بدسلوکی یا ہیرا پھیری، اور ایسے حالات پیش آنے پر ایماندارانہ بات چیت کو فروغ دیں،ان سے آپ کا صحت مند مکالمہ ہو تو دیانت داری کی تلقین کریں ، مثلا ً:وہ آپ سے کھلے مکالمے کے درمیانی کسی دوست سے اپنے تعلقات کی بابت پوچھیں تو انھیں سمجھائیں کہ اس عمر میں ان کی اسٹڈی پر توجہ مرکوز کرنا کتنا اہم ہے؟ اور اس طرح کے تعلقات ان کی اسٹڈی اور مستقبل کے لیےرکاوٹ بن سکتے ہیں ۔ انھیں جذباتی کمزوری پر کھل کر کسی کے سامنے پیش آنے کے نقصانات سے آگاہ کریں ۔ وقار کے مجروح ہونے کا سبب اور اصول پسندی کے فوائد سمجھائیں ۔سمجھانے کے انداز میں مشاورت ہو، نہ کہ تحکمانہ انداز اختیار کیا جائے۔
ذمہ دار ڈیجیٹل فردموجودہ ڈیجیٹل دور میں: منا سب آن لائن سرگرمی کو حل کرنا ضروری ہے۔ اپنے بچوں سے سوشل میڈیا، سائبر دھمکیوں کے خطرات اور ان کی رازداری کے تحفظ کی ضرورت کے بارے میں بات کریں۔ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اسکرین کے استعمال میں صحت مند توازن رکھیں، اور انھیں محفوظ آن لائن برتاؤ دکھائیں۔ڈیجیٹل دنیا میں بچوں کے ساتھ ہراسانی کے واقعات کا ہونا ممکن ہے۔ والدین کے ساتھ روزانہ مکمل ملاقات ایسی کمزوریوں کو سامنے لانے میں معاون بن سکتی ہے، اس کے برعکس اس عمر میں اپنی کمزوریوں کو صیغۂ رازمیں رکھنا بھی اس عمر کی صفات میں سے ایک ہے۔
منشیات کااستعمال اور ساتھیوں کا دباؤ:نوعمروں کو منشیات، الکحل یا دیگر نقصان دہ مادوں کے ساتھ تجربہ کرنے کے لیے ہم جولیوں کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ منشیات کے استعمال کے خطرات اور نتائج پر بات چیت شروع کریں۔ چھٹی جماعت ہی سے یا اس سے بھی پہلے سے جب بچہ سمجھنے لگے تو اس کے سامنے گٹکا ، سگریٹ ،یا دیگر عادی کرنے والی چیزوں پر گفتگو کریں کہ یہ کس طرح انسان کو قعر مذلت کی جانب دھکیل دیتی ہے ۔ انھیںاپنے ایسے سبھی ساتھیوں سے دوری بنانے کا گر سکھائیں، جن کے گھروں کے ماحول میں ان باتوں پر کنٹرول نہ ہو۔انھیں ’نہیں‘کہنا سکھائیں، انھیں ساتھیوں کے دباؤ کو قبول نہ کرنے کے گر سکھائیں، اپنی ہم جولیوں کی تقلید سے باز رہنا سکھائیں ۔یہ سکھانے کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں ۔ذاتی تجربہ بیان کریں تو یاد پڑتا ہے کہ والدین نے یہ شعر سکھادیا تھا:
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں ہیں جن کو زمانہ بنا گیا
اور شعر کے زیر اثر بچہ تقلید نہ کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ انھیں گاہے بہ گاہے یقین دلائیں کہ اپنے یا کسی دوست سےمدد مانگنا کمزوری کی علامت نہیں ہے۔ اگر کوئی اس طرح بولینگ کا ، یا کسی دوست کے صحبت میں غلط قدم کا احساس ہوتو والدین، دوست یا کاؤنسلر سے مدد لینا ایک اسمارٹ طریقہ ہے۔
کفایت شعاری ا ورخرچ کا سلیقہ:اپنے نوعمروں کو مالی خواندگی کی بنیادیں متعارف کروائیں۔ پیسے بچانے، کم خرچ ہونے اور بجٹ بنانے کی اہمیت کے بارے میں بات کریں۔ بچوں کو پیسے کی قدر اور ناقص مالی فیصلے کرنے کے نتائج سکھائے جائیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ مالی مقاصد طے کریں اور اپنی کمائی، بچت اور خرچ کے حوالے سے دانش مندانہ انتخاب کریں۔ پیسے کی فراوانی اور خرچ کرنے کے سلیقے سے عاری بچے عموماً غلط عادتوں سے متعلق بے نیاز ہوجاتے ہیں، یہ سب سے نازک کام ہے اس دور میں ۔اولاد، اللہ رب العالمین کی امانت ہے ،چونکہ یہ انسانی اثاثہ ہے ،انسانی اثاثہ مادی اثاثوں سے مختلف ہوتا ہے، جنھیں محفوظ جگہ رکھ کر بے نیاز نہیں ہوا جاسکتا ۔حکمت و تدبیر کے ساتھ انسانی وسائل کو راہ دینا ایک ذمہ دارانہ منصب ہے، ہمیں بحیثیت والدین کبھی اس سے غافل نہیں ہونا چاہیے ۔
والدین اور نوعمر بچوں کے درمیان دوری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS