دینی اور سائنسی جائزہ

0

ڈاکٹرمحمد اقتدار حسین فاروقی
زیتون کا ذکر قرآن پاک میں اس کے نام سے 6 بار ہوا ہے اور ایک مرتبہ (سورہ المومنون آیت 20) میں اس کی جانب صرف اشارہ کیاگیا ہے یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے طور سینا کے اطراف ایک ایسا درخت پیدا کیا ہے جس میں ایسا تیل ہوتا ہے جوسالن کے کام آتا ہے۔
قرآن کریم کی جن آیات میں زیتون کا ذکر ہوا ہے ان کی تفصیل اس طرح ہے :
(۱) سورۃ الانعام (V1) آیت نمبر 100۔
(۲) سورۃ الانعام (V1) آیت نمبر 142۔
(۳) سورۃ النحل (X1V) آیت نمبر 11
(۴) سورۃ المومنون (XX111) نمبر 20۔
(۵) سورۃ النور (XX1V) آیت نمبر 35۔
(۶) سورہ عبس (LXXX) آیت نمبر29۔
(۷) سورۃ التین(XCV) آیت نمبر 4-1۔
زیتون کانباتاتی نام Olea europaea ہے۔ یہ ایک چھوٹا درخت ہے، جس کی اونچائی اوسطاً25 فٹ ہوتی ہے۔ اس کی پیداوار قلم لگا کر ہوتی ہے، کیونکہ بغیر قلم لگائے ہوئے پودے اچھے پھل نہیں دیتے ہیں۔ اس کے کچے پھل چٹنی اور اچار کے کام میں لائے جاتے ہیں، جبکہ پکے ہوئے پھل انتہائی شیریں اور لذیذ ہوتے ہیں۔یہ بیضاوی شکل کے 2سے6 سینٹی میٹر لمبے ہوتے ہیں، ان کے گودے میں 15 سے 40 فیصد تک تیل ہوتاہے، جواپنی خصوصیات اور صاف وشفاف ہونے میں بے مثال ماناجاتا ہے۔ یہ تیل گودے کواو کھلی میں نچوڑ کر نکالا جاتا ہے۔ اس تیل کااصل جز Oleic acid ہے، جواس میں تقریباً اسی فیصد ہوتاہے۔ اس کے علاوہ اس میںMyristic acid, Palmatic acid, Linoleic اور Stearic acid, Arachic acid بھی تھوڑی مقدار میں ملتے ہیں۔ یہ نہ جمنے والا یعنی Non drying oil کہلاتا ہے۔ اس کی زبردست غذائی خصوصیت کے ساتھ ساتھ بے پناہ طبی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے۔ بغیر پکائے اس کو سالن کے طور پر استعمال میں لایاجاسکتا ہے۔ عربوں میں پرانا دستور تھا کہ طویل سفر یا جنگی معرکوں کے دوران لوگ روٹی کوشہد اورزیتون کے تیل میں بھگو کر کھایا کرتے تھے۔ اس طرح کھانا پکانے کی زحمت اور وقت سے بچا جاسکتا تھا۔
زیتون کاتیل طویل عرصہ غذائی طور پر استعمال معدہ کی تیزابیت کو دورکرتا ہے اورالسر (Ulcer) کو مٹاتا ہے۔ جلدی بیماریوں میں عام طور سے اور دوا میں خصوصاً نہایت مفید ہے۔ کئی اقسام کے مرہموں، پلاسٹروں اورنفیس قسم کے صابن بنانے کی صنعت روغن زیتون کی کافی کھپت ہے۔ دل کے ان امراض میں( جن میں زیادہ چربی کااستعمال نقصان دہ سمجھاجاتا ہے) زیتون کاتیل سود مند ثابت ہوتاہے۔
زیتون کااصل وطن فلسطین ہے اور شام کاوہ علاقہ ہے جو فینی شیا (Phoenicia) کہلاتا ہے۔ یہیں سے اس کی کاشت تقریباً دوہزار سال قبل مسیح میں شروع کی گئی اور اسی خطہ سے یہ پودہ مغرب اورمشرق کے ممالک میں لے جایا گیا۔ یعنی یہیں سے یہ ایران اور افغانستان گیا اور یہیں سے جنوبی یورپ کے ملکوں میں گیا۔ یورپ میں تویہ اتناکامیاب اور عام ہوگیا کہ لوگ سمجھنے لگے ہیں کہ یہ وہیں کاپودہ ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کے دور کے قبل یونانی مفکروں اورحکما نے اسے یورپی پودہ ہی سمجھ لیا تھا اور یہ خیال اس حد تک تقویت پاتا رہا کہ انیسویں صدی میں اس کا نباتاتی نام Olea europaea رکھ دیا گیا، لیکن پچھلی نصف صدی کی تحقیقات کی بنا پر یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ اس کاوطن شام وفلسطین ہے نہ کہ یورپ۔
زیتون کی وطنیت (Nativity) کاحوالہ قرآن کریم کی سورۃ النور کی آیت 35میں دیا گیا ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ :
’’ایک مفید درخت زیتون ہے جونہ پورب کا ہے نہ پچھم کا‘‘۔ گویا کہ قرآن کے مخاطبین اول یعنی عربوں کواس بات کا علم رہا ہوگا کہ ہر پودہ کا ایک وطن ہوتا ہے، جہاں سے وہ دوسرے علاقوں میں لے جایا جاتا ہے اور انہیں بتایا گیا کہ زیتون دوسرے پھل اورپودوں کی طرح مغرب یا مشرق سے نہیں لایا گیا بلکہ یہ وہیں کااصل پودہ ہے۔ عبداللہ یوسف علی نے اس آیت کا انگریزی ترجمہ تویہی لکھاہے کہ ’’زیتون نہ مشرق کا اورنہ مغرب کا‘‘۔ مگر تفسیر (نوٹ نمبر2001) میں تحریر فرمایا ہے کہ زیتون سارے عالم کاہے نہ کہ مغرب یا مشرق کا۔ محمد مارمے ڈیوک پکٹہال۔ آرتھر آربیری اور عبداللطیف نے اپنے قرآنی تراجم (انگریزی) میں بھی یہی لکھاہے کہ ’’زیتون نہ مشرق کا نہ مغرب کا‘‘۔ بہر حال راقم سطور کے رائے میں سورۃ النور میں زیتون کا حوالہ اس کی نباتاتی اصلیت کی جانب ہے جس کوپودہ کی Nativity کہتے ہیں۔
زیتون کی بابت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’زیتون کا تیل کھانے میں بھی استعمال کرو اورمالش میں بھی۔ اس لئے کہ یہ بابرکت درخت کاتیل ہے‘‘۔
زیتون کے باغات جنوبی یورپ، شمالی افریقہ اورعرب کے کئی ممالک میں ملتے ہیں، لیکن اسپین اوراٹلی زیتون کے پھل اور تیل کے پیدا کرنے میں سر فہرست ہیں۔ روغن زیتون کی عالمی پیداوار تین ملین میٹرک ٹن سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہیں۔
روغن زیتون چراغ کی روشنی کے لئے زمانہ قدیم سے بڑا مشہور اوربڑا اہم رہاہے۔ عمدہ قسم کاتیل نہایت شفاف ہوتا ہے۔ اسے اگر کسی صاف برتن یا گلاس کی قندیل میں رکھ دیا جائے توایسا محسوس ہوگاکہ کوئی شے ہے جوخودہی روشن ہے اوراگر اس سے چراغ جلایا جائے توایسا لگے گا کہ گویا نور سے نور نکل رہا ہے۔ اسی حقیقت کی منظر کشی سورۃ النور(آیت 35) میں کی گئی ہے اور روغن زیتون سے روشن قندیل کی روشنی کو ’’نور علی نور‘‘ کہاگیا ہے۔
مغربی ممالک میں امن وشانتی کے نشان کے طور پر فاختہ کو اس طرح پرواز کرتے دکھلایا جاتا ہے کہ اس کے منہ میں زیتون کی پتی ہوتی ہے۔ اس منظر کشی کی بنیاد وہ روایت ہے، جس کی رو سے خیال کیا جاتا کہ حضرت نوحؑ کے زمانہ میں قہر خداوندی ایک طوفانی سیلاب کی شکل میں ظاہر ہوا اور زبردست بربادی کے بعد جب طوفان تھمنے لگا توخوشی اور امن کا پیغام ایک فاختہ پرواز کرتے ہوئے لایا، جس کے منہ میں زیتون کی پتی تھی۔
ارشاد رسول بسلسلہ انجیر (عربی نام : تین )
1۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے انجیر سے بھرا ہوا تھال آیا۔ انہوںنے ہم سے فرمایا کہ ’’کھائو‘‘۔ ہم نے اس میں سے کھایا اور پھر انہوں نے ارشاد فرمایا : ’’اگر کوئی کہے کہ کوئی پھل جنت سے زمین پر آسکتا ہے تومیںکہوں گا کہ یہی وہ ہے کیونکہ یہ بلا شبہ جنت کامیوہ ہے۔یہ بواسیر کوختم کرتا ہے اور جوڑوں کے درد (گٹھیا) میں۔ (راوی حضرت ابودرداء، ابوبکرالجوزیہ)
ارشادات رسول بسلسلہ زیتون
(1)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’زیتون کا تیل کھائو، اسے لگائو، یہ پاک اورمبارک ہے۔ (راوی حضرت ابو ہریرہ، ابن ماجہ)۔
(2)نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذات الجنب کے علاج میں درس اورزیتون کے تیل کی تعریف فرماتے تھے۔ (حضرت زید بن ارقم، ترمذی)
(3)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تمہارے لئے زیتون کاتیل موجود ہے اسے کھائو اوربدن پر مالش کرو۔ یہ بواسیر میںفائدہ دیتاہے۔ (راوی حضرت علقمہ بن عامر۔ الجوزی)
(4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’زیتون کاتیل کھائو اور اسے لگائو کیونکہ اس میں ستر (متعدد) بیماریوں سے شفا ہے۔جن میں ایک کوڑھ بھی ہے۔ (راوی حضرت ابوہریرہ۔ ابو نعیم)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS