پہاڑوں میں آفات انسانی غلطی کا شاخسانہ

0

بھگوتی پرساد ڈوبھال
پورے ہمالیائی علاقہ شمال مشرق سے لے کر جموں و کشمیر اور لداخ، ہماچل اور اتراکھنڈ تک کی جغرافیائی ضرورتیں میدانی حصوں سے مختلف ہیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان علاقوں کے لیے جو بھی اسکیمیں اور پالیسیاں بننی چاہئیں، وہ ابھی تک نہیں بنی ہیں۔ اب تک سبھی فیصلے کام چلاؤ رہے ہیں۔
حالاں کہ ہر مرتبہ منصوبہ بنتا ہے، اس پر پیسہ خرچ ہوتا ہے، لیکن پھر بھی مسائل جوں کے توں ہیں۔ اس کی تازہ تباہ کن مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ آل ویدر روڈ کو ہی لیجیے- اس کا تصور اس مقصد سے کیا گیا تھا کہ پورے سال، ہر موسم میں یہ سڑکیں کھلی رہیں گی، کسی بھی طرح کی رکاوٹ نہیں آئے گی۔ رشی کیش سے گنگوتری، بدری ناتھ، کیدارناتھ اور جمنا کے راستوںپر ٹریفک مسلسل بلاتعطل چلتا رہے گا۔ سب خوش تھے کہ راستے اب کسی بھی موسم میں بند نہیں ہوں گے۔اس سے ریاست کی معیشت بہتر ہوگی۔ مگر اب اس کے ٹھیک برعکس ہورہا ہے۔ ان راستوں کی تعمیر شروع ہوئی، تبھی سے ہر مسافر کو تکلیف جھیلنی پڑرہی ہے۔ اس کا سبب ہے سڑکوں کو بنانے میں جو کٹائی کی گئی اور سڑک چوڑی کرنے میں جس طرح راستہ میں آنے والی چٹانوں کو توڑا جارہا ہے، وہ سائنسی طریقہ/طریق کار قطعی نہیں ہے۔ ان کے تعمیراتی کاموں میں مصروف انجینئروں کے کام کے طریقے سے متعلق شروع سے خدشہ برقرار تھا۔ اس خدشہ کا سبب تھا کہ پہاڑ کو کاٹنے پر جو پشتہ وہ دے رہے تھے، ان کا ایک سال تک بھی رکنا مشکل تھا، کیوں کہ پتھروں کی ترتیب سے چنائی نہیں کی گئی۔ ویسے بھی ہمالیہ کے پہاڑ ابھی کچے ہیں، ان کو بے ترتیبی سے چھیڑنے پر برسات میں مٹی اور پتھر پانی کے ساتھ بہنے کی پوری گنجائش ہے اور یہی ہورہا ہے۔ پہاڑوں کو سیدھا کاٹا جارہا ہے۔
ان کے کٹان میں ایسی کوئی بنیاد نہیں رکھی گئی جو مٹی کو بہنے سے روک سکے۔ ویسے بھی پہاڑ کچے ہیں، ان کو کاٹنے کے لیے سڑک کے اوپری اور نچلے علاقوں میں بڑی تعداد میں شجرکاری کی ضرورت تھی، کیوں کہ برساتی پانی کے بہاؤ کو روکنے کے لیے پیڑوں کا ہونا ضروری ہے۔ پیڑوں کی جڑیں مٹی کو پکڑتی اور پانی کی رفتار کو کنٹرول کرتی ہیں۔ ایسا کوئی کام سفری راستوں میں نہیں کیا گیا ہے۔ آل ویدر روڈ کی تعمیر سے پہلے بھی سڑک بنی ہوئی تھی، اس میں
سڑک کے اوپری حصوں میں چھوٹی چھوٹی نباتات اُگی ہوئی تھیں، جو زبردست بارش میں مٹی کے کٹاؤ کو روکنے میں کامیاب تھیں، لیکن آل ویدر سڑکوں کے لیے کی گئی کٹائی میں کسی طرح کے سائنسی طریق کار کا استعمال نہیں کیا گیا۔ اس کے لیے جغرافیائی سائنسدانوں کی صلاح نہیں لی گئی۔ مٹی کی فطرت اور چٹانوں کی مضبوطی کی جانچ نہیں کی گئی۔
مکمل ہمالیائی علاقہ حساس ہے۔ آئے دن اس علاقہ میں زلزلہ آتا ہے، جس سے پہاڑ کمزور ہوگئے ہیں۔ کبھی کبھی تیز زلزلے زبردست نقصان کردیتے ہیں۔ اس بات کو بھی سڑک بنانے والوں نے نظرانداز کیا ہے۔ چٹانوں کو توڑنے میں بارودی دھماکہ کیا جارہا ہے جو پہاڑوں اور مٹی کے قدرتی طریقہ سے ٹھہراؤ کو مزید حساس بنارہے ہیں، نتیجتاً حادثات کو دعوت دے رہے ہیں۔
ترقی کی کوئی مخالفت نہیں، لیکن اس کی قیمت پر جنگلات اور پہاڑوں کی مٹی بہہ کر سمندر میں چلی جائے تو پھر کیا فائدہ؟ جنگلات کی اندھادھند کٹائی نے ویسے ہی پہاڑوں کی خوبصورتی اور اس کے استحکام کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے۔ ہمالیہ سے نکلنے والی زیادہ تر ندیاں آج ہر موسم میں حادثات کا سبب بنی ہوئی ہیں۔
پہاڑی علاقوں میں ہورہے تعمیراتی کاموں سے متعلق کچھ سوالات ہیں، جن کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے-
کیا سڑکوں کو چوڑا کرنے کے لیے بارودی دھماکہ طے معیار پر کیا جارہا ہے؟ کیا چٹانوں کی کٹائی کسی ماہرارضیات کے اصول و ضوابط کے مطابق کی جارہی ہے؟ برسات کے وقت کٹائی سے متعلق کوئی اصول ہے تو اس پر عمل درآمد ہورہا ہے یا نہیں؟گزشتہ چھ ماہ کے اندر بادل پھٹنے کی درجنوں مثالیں ہیں، جس سے کئی گاؤں اتراکھنڈ کے نقشہ سے غائب ہوگئے ہیں۔ یہی نہیں، گلیشیر بھی ٹوٹ کر ندیوں کے دہانوں پر آئے اور ان کے بہاؤ کو روک کر مصنوعی جھیل بنائی گئی۔ اس جھیل کے پھٹنے سے ندیوں کے کنارے بسے علاقے تباہ ہوگئے۔ ایسے ہی حادثات میں جوشی مٹھ کے پاس این ٹی پی سی کے زیرتعمیر منصوبہ کے علاوہ پاور ہاؤس کو تباہ کرکے ملبہ الکنندا ندی کے ذریعہ خلیج بنگال میں پہنچ گیا۔ بادل پھٹنے سے
دیوپریاگ میں آئی ٹی آئی کی بلڈنگ کو پانی کی رفتار نے تباہ کردیا۔ یہ موسم میں تبدیلی کے اشارے ہیں۔ ہمارے منصوبے کہاں ناکام ہورہے ہیں، اس پر غوروفکر کی ضرورت ہے۔ تخلیقی کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔
بادل پھٹے کے حادثات بار بار ہورہے ہیں۔ ہماچل پردیش میں دھرم شالہ اور کنگڑا ضلع میں بادل پھٹنے سے تباہی ہوئی ہے۔ اس سے پہاڑوں کی مٹی بہہ جاتی ہے اور جان و مال کا نقصان ہورہا ہے۔ اس پر سائنسی سوچ کی کمی صاف جھلکتی ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں میں بھی ایسے ہی حادثات ہورہے ہیں۔ مٹی اور پانی تو بہہ کر سمندر کی جانب جارہا ہے، لیکن ایک وقت ایسا آئے گا، جب ان پہاڑوں پر رہنا مشکل ہوجائے گا، جب صاف ہوا بھی نہیں بچے گی، آکسیجن پیدا کرنے والے جنگلات
کی کٹائی سے سب کچھ تہس نہس ہوجائے گا۔ ہمالیہ کے طاقتور گلیشیر بھی جواب دے جائیں گے، ایسا عمل تیزی سے چل رہا ہے۔ رشی گنگا پر ٹوٹا گلیشیر یہی اشارہ دے رہا ہے۔ رینی گاؤں میں آئی قدرتی آفت قدرتی نہیں ہے، یہ انسان کے ذریعہ دعوت دی گئی آفت ہے۔ اترکاشی کا مانڈو گاؤں ہی نہیں، اتراکھنڈ کے سارے گاؤں ایسی آفات کے شکار ہورہے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ترقی کو صحیح سمت دینے کی ضرورت ہے۔ صرف ٹھیکہ داری کے رواج سے کام نہیں چلے گا۔
ہر تعمیراتی کام کو سائنسی طریق کار سے کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ موضوع صرف اتراکھنڈ کا نہیں، اس سے منسلک پوری زمین کا ہے، جسے سمندر کے ذریعہ نگلنے والی زمین کو بچانا ہوگا۔ شروعات جھارکھنڈ سے ہوگی، تبھی ہماری ثقافت بچ پائے گی۔ ابھی تک ہم نے کیدارناتھ میں آئی آفت سے کچھ سبق نہیں لیا، اب بھی قدرتی آفت کے وقت عقیدت مند کیداربابا سے بہتر کردینے کی درخواست کرتے ہیں، لیکن کیدار بابا کب تک ہماری بے ڈھنگی ترقی سے ہمیں بچا پائیں گے۔ گومکھ گلیشیر تیزی سے پگھل رہا ہے۔ بھاگیرتھی کا اوریجن بہت پیچھے
چلا گیا ہے۔یہ تو اس ہمالیہ پہاڑ کی بات ہورہی ہے، جس کی اس زمین پر سمندری سطح سے اونچائی سب سے زیادہ ہے۔ ایوریسٹ بھی ہمالیہ پہاڑ کے ساتھ ہی ہے۔ دوسری طرف اس حالت کو بھی دیکھیں، جہاں سمندر کی سطح آہستہ آہستہ نہیں، تیزی سے زمین کو نگلنے کے لیے تیار ہوچکی ہے۔ انٹارٹیکا کے گلیشیر بھی پگھل رہے ہیں۔
بہت سارا گلیشیر پگھلنا شروع ہوچکا ہے۔ اندازہ ہے کہ آنے والے برسوں میں سمندر کے نزدیک آباد شہر سمندر میں ضم ہوسکتے ہیں۔ زمین پر اس طرح کی اتھل پتھل میں ہمارا ہی ہاتھ ہے۔ اتھل پتھل کرنے والے انسان کے ہاتھوں کو محدود طریقہ سے سائنسی راستہ پر چلنے کے لیے پابند کرنا ہوگا۔ یہ انسان ہی نہیں، زمین پر رہنے والی ہر مخلوق کو محفوظ رکھنے کا واحد طریقہ ہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS