محمد فاروق اعظمی
جس وقت ہندوستان کا میڈیا افغانستان میں طالبان کی آمد پر افغانیوں کی منتقلی اور جبراً انخلا کاماتم کررہاتھاعین اسی دوران ہندوستان میں یہ تحقیق سامنے آئی کہ کورونا ایمرجنسی کے دوران حکومت اوراس سے وابستہ افراد نے 61000خاندانوں کو زبردستی ان کے گھروں سے بے دخل کرکے سڑکوں پر لا پھینکا ۔ دہلی کے رضاکار ادارہ ہائوسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک (ایچ ایل آر این) کی گزشتہ ہفتہ سامنے آنے والی تحقیق میں کہاگیا ہے کہ یہ انسانیت سوز واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے مکمل اور جزوی لاک ڈائون کا اعلان کرکے لوگوں کو گھروں کے اندررہنے کا حکم دیاتھا ۔ایک طرف وزیراعظم نریندر مودی خود لوگوں سے اپیل کررہے تھے کہ وہ انفیکشن سے بچائو کیلئے گھروں میں رہیں تو دوسری طرف ان ہی کی حکومت غریب، بے بس،بے سہارا اور لاچار لوگو ں کو بے گھر کرنے کی مہم چلارہی تھی۔ملک کا آئین شہریوں کو زندہ رہنے اور انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے ۔ان آئینی حقوق کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن حکومت نے چوکیدار بن کر عوام کے آئینی حقوق چھین لیے، کورونا بحران کے دوران بھی حکومت انتہائی بے رحمی کے ساتھ شہریوں کے ان حقوق کی خلاف ورزی کرتی رہی اوریہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔
ایچ ایل آر این کی تحقیق کے مطابق گزشتہ سال مارچ سے رواں سال جولائی تک کورونا وبا کے دوران18 مہینوں میںجبری بے دخلی کے کم از کم 245 واقعات پیش آئے جن میں 61,257 خاندان سے ان کا گھر چھین لیاگیا۔فی خاندان اگر پانچ افرادکا اوسط بھی رکھاجائے تو حکومت نے تین لاکھ سے زائد افرادکو بے گھرکردیا ۔ جبراً گھر اجاڑنے کے یہ واقعات فریدآباد، دہلی، ممبئی، میسور، چنئی اور آسام میں پیش آئے۔ رواں سال 2021 میںفریدآباد کے کوری گائوں میں12000گھروں کو مسمار کر دیا گیا۔ دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے 300گھر جولائی کے مہینہ میں ڈھا دیے، اسی طرح ممبئی میں مینگرووز کنزرویشن سیل (مین گروز نامی نباتات کی حفاظت کیلئے بنایاگیا سرکاری ادارہ) نے 450 گھروں کو مسمار کردیا، اسی سال اپریل کے مہینہ میں کرناٹک سلم ڈیولپمنٹ بورڈ نے 200گھر اجاڑ دیے ۔آسام سے لے کر تمل ناڈو تک سیکڑوں گھراسی طرح اجاڑے گئے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب کورونا انفیکشن سے بچائو کے نام پر حکومت نے زیادہ تر کل کارخانوں اور کام کی جگہوں کو بند کر رکھا ہے، لوگوں کا روزگار ختم ہوگیا ہے آمدنی کم ہوگئی ہے، دو وقت کی روٹی کیلئے ہزاروں جتن کرنے پڑرہے ہیں،ایک طرف بھو ک اور ننگ کی کھائی ہے تو دوسری جانب کورونا جیسی مہلک وبا پھن پھیلائے نگلنے کو تیار بیٹھی ہے ۔ حکومت کو عوام کے ساتھ کھڑے رہنا چاہیے تھا، لوگوں کو کھانا اور گھر فراہم کرنا چاہیے تھا لیکن حکومت انہیں زبردستی گھروں سے بے دخل کررہی ہے، اس سے زیادہ غیر انسانی رویہ اور کوئی نہیں ہوسکتا ہے ۔
یکم جنوری2021سے31جولائی 2021 تک جب کورونا وبا اپنے شباب پر تھی اور حکومت لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تلقین کررہی تھی، اسی دوران کم آمدنی والے علاقوں میں حکومتی اہلکاروں نے بزن بولا اور بڑے پیمانے پرلوگوں کو بے دخل کردیا۔ ہیلتھ ایمرجنسی کے دوران کیے گئے ان اقدامات کی وجہ سے ہزاروں کورونا متاثرہ کے حقوق کی صریح خلاف ورزی کی گئی اور آئین میں دیے گئے زندگی کے حق پر بھی ڈاکہ ڈالا گیا ۔ہزاروں افراد اس کی وجہ سے اپنی زندگی کھو بیٹھے۔ اسی طرح 2020 میں ماحولیاتی منصوبوںاور جنگلات کے تحفظ کے نام پر49فیصدا فراد کوبے گھر کیاگیا، انفرااسٹرکچر کے منصوبوں کی تکمیل کیلئے25، کچی آبادی اور تجاوزات ہٹانے کی مہم میں 19 فیصد افرادکھلے آسمان کے نیچے لادیے گئے۔2020میں ہی عدالتی اور ٹریبیونلز کے احکامات کی وجہ سے بے دخلی کے 15 واقعات پیش آئے۔
3 لاکھ سے زائد افراد کو گھروں سے بے دخل کیے جانے کیلئے حکومت نے شہروں کی حسن کاری، کچی آبادی سے پاک شہر، سرکاری زمینوں کا انخلا، انفرااسٹرکچر، ماحولیاتی منصوبے اور جنگلات کی حفاظت وغیرہ کے بہانے بنائے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جب پوری انسانی تہذیب سنگین بحران کی زد میں ہو، لوگ بھوکوں مررہے ہوں تو کیا حکومت کی ترجیح شہروں کی تزئین و آرائش ہوسکتی ہے؟کیا اس کیلئے حالات کے معمول پرآنے کا انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن حکومت تو ’آپدا میں اوسر‘تلاش کرنے پر یقین رکھتی ہے اوراس نے یہی کیا بھی۔ کورونا بحران کی وجہ سے حکومت کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ نافذ کرکے لوگوں سے احتجاج اور مخالفت کا حق ہی چھین لینے کا موقع مل گیا ۔
سپریم کورٹ کی یہ واضح ہدایت ہے کہ بے دخلی کے معاملات میں مناسب نوٹس جاری کرنا اور اس پر سماعت کا مناسب موقع دیاجانا، متاثرین کی بازآبادکاری، معقول معاوضہ سمیت تمام ضابطوں پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ2020میں کی گئی147 ان بے دخلیوں کے معاملات میں حکومت نے نہ تو کوئی نوٹس جاری کیاتھا اور نہ ہی اس کی کوئی پیشگی اطلاع دی تھی۔جگہ خالی کرانے کیلئے حکومت کو اتنی جلدی تھی کہ اس نے سپریم کورٹ کے حکم کو بھی طاق پر رکھ دیا۔ 10فیصد بے گھر خاندانوں کو ہی معمولی سا رسمی معاوضہ دیا گیا جبکہ 90 فیصد خاندان اس سے محروم رہے ۔
3لاکھ سے زائد افراد کو گھروں سے بے دخل کیے جانے کیلئے حکومت نے شہروں کی حسن کاری، کچی آبادی سے پاک شہر، سرکاری زمینوں کا انخلا، انفرااسٹرکچر، ماحولیاتی منصوبے اور جنگلات کی حفاظت وغیرہ کے بہانے بنائے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جب پوری انسانی تہذیب سنگین بحران کی زد میں ہو، لوگ بھوکوں مررہے ہوں تو کیا حکومت کی ترجیح شہروں کی تزئین و آرائش ہوسکتی ہے؟کیا اس کیلئے حالات کے معمول پرآنے کا انتظار نہیں کیاجاسکتا تھا۔لیکن حکومت تو ’آپدا میں اوسر‘تلاش کرنے پر یقین رکھتی ہے اوراس نے یہی کیا بھی۔ کورونا بحران کی وجہ سے حکومت کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ نافذ کرکے لوگوںسے احتجاج اور مخالفت کا حق ہی چھین لینے کا موقع مل گیا ۔مزید یہ کہ پورا ملک اس وقت خود کو کورونا وائرس کے انفیکشن سے بچانے میں مصروف تھا،اس لیے لوگ یہ دیکھ ہی نہیں پائے کہ حکومت کس کا گھر ڈھارہی ہے اورکسے گھر سے بے دخل کررہی ہے۔ عوام کی منتخب حکومت نے،جس کا کام عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنا اور خطرے سے دوچار شہریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہے آپدا ( مصیبت) کے اس موقع پر ان کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے انہیں مزید خطرات میں دھکیلا اورا ن بے بس انسانوں کے ساتھ انتہائی غیر انسانی سلوک کا مظاہرہ کیا ۔ حکومت کا یہ رویہ کھلی عوام دشمنی، آمریت اور فسطائی ذہنیت کی علامت ہے ۔
[email protected]