کیا راجیو گاندی نے بابری مسجد کا تالا کسی معاہدے کے تحت کھلوایا تھا؟

0

نئی دہلی:’راجیو گاندھی کی درخواست پر بابری مسجد کا تالا کھولنے اور اس کا استعمال شاہ بانو کیس بمقابلہ رام مندر کرنے کی بات سراسر جھوٹ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم کو یکم فروری سنہ 1986 کو جو ہوا اس کا علم تک نہیں تھا اور ارون نہرو کے وزیر کے عہدے سے ہٹائے جانے کی یہی وجہ تھی۔‘
یہ بات راجیو گاندھی کے وزیر اعظم آفس (پی ایم او)میں اس وقت کے جوائنٹ سیکریٹری وجاہت حبیب اللہ اور دون اسکول میں ان کے جونیئر نے بی بی سی کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کہی۔
یکم فروری سنہ 1986 کو ڈسٹرکٹ جج کے ایم پانڈے نے ایک دن پہلے 31 جنوری سنہ 1986 کو دائر اپیل کی سماعت کے دوران تقریباً 37 برسوں سے بند بابری مسجد کا دروازہ کھلوایا تھا۔
راجیو گاندھی حکومت نے (اس وقت اترپردیش میں بھی کانگریس کی حکومت تھی)بابری مسجد کا تالا کھلوایا کیونکہ اس نے مسلم طلاق شدہ خاتون شاہ بانو پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو الٹ دیا تھا۔
اس سارے معاملے کو کانگریس کی سیاسی سودے بازی کہا جاتا ہے۔
بہر حال وجاہت حبیب اللہ کہتے ہیں کہ شاہ بانو معاملے میں قانون (مسلم اپیزمنٹ یا نازبرداری)کے عوض ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے متنازع بابری مسجد کا تالا کھولنا بالکل غلط ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’یکم فروری سنہ 1986 کو ارون نہرو اترپردیش کے وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ کے ساتھ لکھنؤ میں موجود تھے۔‘
مئی سنہ 1986 میں راجیو گاندھی حکومت نے مسلم خواتین کے متعلق قانون کو (طلاق پر تحفظ) کو نافذ کیا۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 125 کے تحت علیحدگی یا طلاق یافتہ خاتون شوہر سے گزربسر کے لیے رقم مانگ سکتی ہیں، یہی بات مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ دفعہ 125 اور مسلم پرسنل لاء کے مابین کسی بھی قسم کا تنازع نہیں ہے۔وجاہت حبیب اللہ نے بات چيت کے دوران بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو قانون لا کر بدلنے کا مشورہ سابق وزیر مملکت برائے امور خارجہ اور نریندر مودی حکومت میں راجیہ سبھا کے موجودہ رکن پارلیمان ایم جے اکبر نے دیا تھا۔
بابری مسجد اور رام مندر یعنی ایودھیا معاملے کے بارے میں وجاہت حبیب اللہ کہتے ہیں: ’گجرات کے دورے پر جاتے ہوئے میں نے وزیر اعظم سے بابری مسجد کے تالے کو کھولنے کی بات کہی تو انھوں نے کہا کہ انھیں عدالتی حکم آنے کے بعد اس کیس کے بارے میں پتا چلا اور ارون نہرو نے اس معاملے میں ان سے صلاح مشورہ نہیں کیا تھا۔'
حبیب اللہ یاد کرتے ہیں کہ ’نہرو گاندھی خاندان کے رکن اور’ہیوی ویٹ وزیر‘سمجھے جانے والے ارون نہرو کی وزارت چھن جانے کی یہی وجہ تھی۔ لوگ دفاعی معاہدوں اور دیگر امور سے اس کا تعلق جوڑ سکتے ہیں۔'
1984 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو 49 فیصد ووٹ 404 نشستیں حاصل ہوئی تھیں جبکہ بی جے پی کو صرف آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔
بعد میں نجمہ ہیت اللہ نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ عارف محمد خان بھی بعد میں بی جے پی میں شامل ہو گئے تھے۔
گاندھی-نہرو خاندان کے قریب کہلانے والے مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس لیڈر کمل ناتھ نے کچھ دن قبل ایک بیان دیا ہے کہ بابری مسجد کا تالا کھولنے میں راجیو گاندھی کا کردار تھا۔
بی بی سی کے سابقہ نامہ نگار اور ایودھیا سے وابستہ معاملات پر نظر رکھنے والے صحافی رام دت ترپاٹھی کا خیال ہے کہ ہندو معاشرے کے ایک بڑے طبقے کے ذہنوں میں مسلمانوں کی نازبرداری کیے جانے کا احساس پیدا ہو گيا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کیس میں راجیو گاندھی حکومت پر بہت دباؤ تھا۔
ان کے مطابق شنکراچاریہ سوروپانند رام مندر کے متعلق کسی فیصلے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے اور رامچندر پرمہنس کی خودکشی کی دھمکی سر پر کسی تلوار کی طرح لٹکی ہوئی تھی۔
رام چندر پرمامہنس نے دھمکی دی تھی کہ اگلے سال کے رام نومی تک ’جائے پیدائش‘ کا تالا نہ کھولا گیا تو وہ خودکشی کرلیں گے۔
پانچ اگست، 2020 کو ایودھیا میں منعقدہ پروگرام کے دوران آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اپنی تقریر کے دوران رامچندر پرمہنس کو بھی یاد کیا۔
شنکراچاریہ سوامی سوورپانند 1948 میں قائم رام راجیہ پریشد کے صدر تھے۔ ان کی سیاسی تنظیم نے سنہ 1952 کے بعد کچھ انتخابات میں معمولی کامیابی حاصل کرنے کے بعد رام جنم بھومی کے معاملے پر کئی پروگرامز کا اہتمام کیا تھا۔ اگرچہ بعد میں ان کی پارٹی جن سنگھ میں ضم ہو گئی لیکن سوامی سووروپانند کو کانگریس کے قریب سمجھا جاتا ہے۔
فیض آباد کے رہائشی اور بابری مسجد کیس سے وابستہ ایک شخص خالق احمد خان کا کہنا ہے کہ امیش چندر وشو ہندو پریشد کے قریب تھے۔
لیکن ان ریکارڈز میں یہ بھی درج ہے کہ ضلعی جج نے مقامی انتظامیہ سے امن و امان کے بارے میں رائے طلب کی تھی، جس پر انھیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ایک بار تالا کھولنے کے بعد اس میں کوئی خلل نہیں ہو گا۔ بعد ازاں اپنی سوانح عمری میں جج کے ایم پانڈے نے بندر کا ذکر کیا۔
23 دسمبر 1949 کو مسجد میں غیر قانونی بت رکھنے کے بعد اسے بند کر دیا گیا تھا اور معاملہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا۔
فیض آباد ڈسٹرکٹ جج کے فیصلے پر لکھنؤ ہائی کورٹ کی خصوصی بنچ نے اپنے سنہ 2010 کے فیصلے میں سخت اعتراض کیا تھا اور اسے نہ صرف غیر قانونی قرار دیا تھا بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ یکم فروری سنہ 1986 کو لیا جانے والا فیصلہ چھ دسمبر 1992 کو مسجد کو مسمار کرنے کا آغاز تھا۔
عارف محمد خان جو اس وقت راجیو گاندھی کی کابینہ کے رکن تھے اور اس وقت پارٹی کے ایک ترقی پسند مسلمان چہرے کے طور پر ابھرے تھے، انھوں نے شاہ بانو بل کی مخالفت کی تھی انھوں نے اپنے مضمون میں اس معاملے میں ’ڈیل کی بات‘ کا دعویٰ کیا ہے۔
انگریزی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ میں شائع مضمون میں کہا گیا ہے کہ ’جنوری 1986 کے دوسرے ہفتے میں وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ اس پرسنل لاء بورڈ (مسلم)کے ساتھ اتفاق رائے ہوا ہے کہ سپریم کورٹ کے سرمائی اجلاس میں فیصلے کو الٹ دینے کے لیے ایک قانون متعارف کرایا جائے گا۔ اجلاس پانچ فروری 1986 کو شروع ہونا تھا۔ اس اعلان کی اس قدر مخالفت کی گئی کہ حکومت شاہ بانو کیس سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے توازن کے بارے میں سوچنے لگی۔ اس سلسلے میں ایودھیا معاملے سامنے تھا جہاں مرکزی حکومت کے حکم پر اترپردیش حکومت نے متنازع سائٹ کا تالا کھولنے کے انتظامات کر دیے۔'
فیض آباد کے ضلعی جج نے شام 4 بج کر 20 منٹ پر اپنا فیصلہ سنایا اور ٹھیک 40 منٹ بعد شام 5 بجکر 5 منٹ پر مسجد کا تالا کھول دیا گیا۔ اور دوردرشن کی پوری ٹیم پہلے ہی سے اس واقعے کی عکسبندی کے لیے وہاں موجود تھی جسے بعد میں شام کی خبروں میں دکھایا گیا۔
حتیٰ کہ جس آفیسر کے پاس تالے کی چابی تھی اسے بھی اطلاع نہیں دی گئی اور نہ ہی اس کا انتظار کیا گیا اور تالا توڑ دیا گیا۔ بعد میں کانگریس حکومت نے ضلعی جج کے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج نہیں کیا، اس سے لوگوں کو کانگریس کے ارادوں پر بھی شبہ ہوتا ہے۔
تاہم سکرول نیوز ویب سائٹ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں عارف محمد خان کا کہنا ہے کہ یہ سوچنا غلط ہے کہ ضیا الرحمن انصاری راجیو گاندھی کے خیالات کو تبدیل کرنے میں شامل تھے۔
نریندر مودی حکومت نے سنہ 2017 میں جب نیا مسلم خواتین (حقوق سے متعلق حقوق پر شادی) بل پیش کیا تھا تو اس میں کبھی راجیو گاندھی کے قریبی رہنے والے اس کے حق میں زوردار تقریر کرنے والے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ایم جے اکبر بھی اس میں شامل تھے۔
رشید قدوائی کا کہنا ہے کہ کانگریس میں آزادی کی جنگ سے لے کر اب تک کمیونسٹ نظریہ کے حاملین سے لے کر دائیں بازو کے نظریہ تک والے دونوں طرح کے لوگ آج تک موجود ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کو ہٹانے کے بارے میں اگر جیوتی رادیتہ سندھیا (اس وقت وہ کانگریس میں تھے) اور راہل گاندھی کے خیالات مختلف ہو سکتے ہیں تو سنہ 1986 میں جو کچھ ہوا اسے بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 'اگر سیاسی سودے بازی کو سچ مان لیا بھی جائے تو بھی کانگریس اترپردیش اور بہار سمیت بہت ساری ریاستوں سے جا چکی ہے اور کم از کم مسلمان اس سے بہت دور ہو چکے ہیں۔'
بشکریہ :bbc.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS