آمرانہ تجاوز یا ۔۔۔

0

امریکہ اور روس کے مابین چھتیس کے آنکڑے والے تعلقات میں اعداد و شمار کا کھیل بھی غضب ہے۔ ایک طرف امریکہ کی تمام ’بہادرانہ بیان بازیوں‘ کے باوجود یوکرین کے خلاف روس کی جنگ محض 72گھنٹوں میں ہی اپنے اختتام کی جانب بڑھتی نظر آرہی ہو، تو دوسری جانب 72سال بعد دنیا میں ایک نئے گٹھ بندھن والے نظام کی شروعات ہوتی ہوئی بھی نظر آرہی ہے۔ حالیہ واقعات جس پرانے نظام کو چیلنج دے رہے ہیں اس کی بنیاد دوسری عالمی جنگ کے بعد پڑی تھی جب مغربی یوروپ میں روس کی توسیع کو روکنے اور مغربی ممالک کو اس کی مبینہ جارحانہ ذہنیت سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے امریکہ کی قیادت میں ناٹو کی تشکیل کی گئی تھی۔ جنگ کا میدان بنے یوکرین میں آج روس، امریکہ اور ناٹو تینوں کی موجودگی ہے لیکن سات دہائی پرانے گٹھ بندھن والے نظام کا زمین پر کوئی زور نہیں چل رہا ہے، جو ہورہا ہے وہ صرف زبانی شور ہے۔
ناٹو کونظرانداز کرتے ہوئے پوتن یوکرین پر قبضہ کرنے کے بے حد قریب ہیں اور ایک خودمختار ریاست میں فوج بھیجنے سے شروع ہوئی شدید تنقیدوں کا مرکز ہونے کے باوجود اپنے ہدف کو پورا کرپانے کے تمام حالات پوری طرح سے ان کے کنٹرول میں نظر آرہے ہیں۔ زیادہ تر تجزیہ کار اسے پوتن کی جارحیت بتا رہے ہیں، لیکن پوتن اس سے بھی کچھ بڑا کرنے کی کوشش میں ہیں- شاید سابق سوویت یونین والی حالت کی بحالی۔ کچھ دنوں قبل جب پوتن کے ترجمان دیمتری پیسکوو نے روسی صدر کی آمرانہ گھریلو اور خارجہ پالیسیوں کو محض ایک شروعات بتایا تھا، تب دنیا نے ان کے انتباہ کو کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی۔ لیکن آج وہ انتباہ اچانک ایک سچ بنتا نظر آرہا ہے۔ پیسکوو کے انتباہ کا دوسرا حصہ مزید خوفناک ہے جو دراصل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پوتن کے دماغ میں کیا چل رہا ہوسکتا ہے؟ پوتن کی سرپرستی میں روس کی خارجہ پالیسی کے تعلق سے پیسکوو نے کہا تھا کہ آج کے دور میں دنیا میں خاص قسم کے خودمختار اور فیصلہ لینے کی ہمت دکھانے والے ہیروز کی ڈیمانڈ ہے۔ بیشک اس کے مثبت معنی بھی نکالے جاسکتے ہیں لیکن موجودہ وقت میں اس کے امکانات صفر نظر آتے ہیں۔ یہ اس بات کا اشارہ زیادہ محسوس ہوتا ہے کہ پوتن عالمی لیڈروں کے اس طبقہ کے آئیڈل بننا چاہتے ہیں جو قانون کی رسماً حکمرانی میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ اس طبقہ کے لیڈروں کے لیے اپنی سرحدوں کی توسیع کے ساتھ دوسرے ممالک کی زمین پرقبضہ کرنا، فوجی دھمکیاں دینا اور مخالفین کو راستہ سے ہٹادینے کا جنون حکومت کا ایک ناگزیرحصہ بن گیا ہے۔ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ ان دنوں روس کا سب سے قریبی دوست چین ایسے تمام پیمانوں پر پوری طرح کھرا اترتا ہے۔
دنیا اور بالخصوص مغربی ممالک آج ناٹو کے برعکس جس نئے نظام کے سر اٹھانے کے خطرے سے خوفزدہ ہیں، اس میں چین کو روس کے قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ موجودہ حالات میں چین اور روس جس طرح معاشی، پیداواری اور فوجی صلاحیتوں کا مضبوط مجموعہ بناتے ہیں، اس کا ثانی فی الحال امریکہ سمیت پوری دنیا میں کہیں نہیں نظر آتا۔ جنگ روک پانے میں ناکام رہنے پر امریکہ کی روس اور چین پر ظاہر ہوئی جھلاہٹ ایک طرح سے اس حقیقت کا اعتراف بھی ہے۔ امریکہ نے دونوں ممالک پر ایک نیا ’شدید طور پر قدامت پسند‘ عالمی نظام بنانے کے لیے مل کر کام کرنے کا الزام لگایا ہے۔ بیشک اس کے اشارے بھی مل رہے ہیں، لیکن امریکہ کو یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ جہاں بھی غلطی کرنے والا ایک فریق ہوتا ہے، وہاں ایک دوسرا فریق بھی ضرور ہوتا ہے جو اس غلطی کو روک پانے کے قابل نہیں ہوتا۔ امریکہ اور ناٹو اس پورے معاملہ میں وہی دوسرے لاچار فریق ہیں۔
بہرحال اب دنیا یہاں سے کس جانب بڑھتی نظر آرہی ہے؟ دنیا کے لیے روس اور چین کا گٹھ جوڑ ’دو اور دو مل کر چار‘ بنانے والا گٹھ جوڑ نظر نہیں آتا، بلکہ اس میں ’دو میں سے دو گئے تو بچا صفر‘ والا تباہ کن منفی پہلو زیادہ نظر آتا ہے۔ یوکرین جیت لینے کے بعد اگر پوتن بے قابو ہوجاتے ہیں، تو یہ چین اور ایران جیسے تمام ممالک کو اپنے آس پاس کے جمہوری نظاموں کے خلاف جارحیت کے لیے حوصلہ دے گا۔ ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ روس کی اس اکساوے والی کارروائی کا اثر پہلے سے ہی بحران سے دوچار ان علاقوں میں بھی نظر آسکتا ہے جہاں کام چلاؤ معاہدوں سے کشیدگی کے حالات ٹالے جارہے ہیں- جیسے تائیوان۔ روس نے جو یوکرین کے ساتھ کیا، چین طویل عرصہ سے تائیوا ن کے ساتھ بھی ویسا ہی کرنے کی تاک میں ہے۔ ہوسکتا ہے چین کے لیے یہ خواب سچ کرنا اتنا آسان نہ ہو کیوں کہ یہ ضروری نہیں کہ تائیوان کے تعلق سے بھی امریکہ فوجی مداخلت نہیں کرنے کا وہی رُخ اپنائے جو اس نے یوکرین کے معاملہ میں کیا ہے۔
لیکن اس واقعہ نے طویل مدتی سیاست میں چین کو کم سے کم امریکہ کے عزم کی پیمائش کرنے کا ایک موقع اور حوصلہ دونوں فراہم کردیے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سعودی عرب اور مصر کے تعلق سے یہی رویہ ترکی کا بھی دیکھنے کو مل جائے۔ ایک دوسرا امکان اسلحوں کے نئے علاقائی مقابلہ کے شروع ہونے کا بھی ہے۔ یہ تمام حالات ایک بار پھر دنیا کے ایک بڑے دھڑے کے امریکہ کی سرپرستی میں پناہ گزین ہونے کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ بدلے ہوئے حالات سے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے لیے نیا دردسر پیدا ہوگیا ہے۔ روس ہمارا دہائیوں پرانہ دوست رہا ہے اور نئے زمانہ میں ہماری دوستی امریکہ سے پروان چڑھی ہے۔ کاروبار سے لے کر اسلحوں کی خریداری میں گہری شراکت داری ان تعلقات کی بنیاد ہے۔ اسی وجہ سے تنازع کی چنگاری کے جنگ کی آگ میں بدل جانے پر بھی ہندوستان غیرجانبدار ہی بنا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ میں روس کے خلاف تحریک مذمت پر بھی ووٹنگ کے بجائے ہندوستان نے اس مسئلہ کو دوبارہ ڈپلومیسی کی ٹیبل پر لانے کا اپنا اسٹینڈ برقرار رکھا ہے۔ لیکن یوکرین میں روس کی کامیابی کے بعد اگر تائیوان میں چین بھی اسی راہ پر چلتا ہے تو ہندوستان کو ایشیا میں چین کے غلبہ والی غیراطمینان بخش حقیقت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ یہ ایشیا پیسفک میں امریکہ کی معتبریت اور کواڈ جیسی تنظیموں کے جواز پر بھی شدید چوٹ ہوگی۔ اس سے بھی بدبختانہ صورت حال یہ ہوگی کہ چین کے تناظر میں ہندوستان اور روس کے سامنے اپنی دوستی کو نئے سرے سے واضح کرنے کی مجبوری کھڑی ہوجائے گی کیوں کہ یہ ایک ایسی جانبدارانہ صورت حال پیدا کرے گا جس میں ہندوستان اور روس دونوں کے سامنے غیرجانبدار رہنے کا متبادل نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے جس طرح پوتن کے ایک فیصلہ نے باقی دنیا کی سیکورٹی کو کم کیا ہے، اسی طرح ہمارے پڑوس میں بھی خطرے کو بڑھا دیا ہے۔ یہاں سے ہم شاید اب ایک ایسی دنیا میں رہنے کے لیے مجبور ہوتے جائیں جہاں ممالک کے آپسی تعلقات کا تعین ان کی فوجی طاقتوں سے ہو۔ آسان الفاظ میں یہ ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ والی حالت ہے۔ کئی قارئین کے لیے یہ موازنہ دلچسپ ہوسکتا ہے کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد دنیا جمہوریت کو محفوظ رکھنے کے لیے ساتھ آئی تھی اور آج آمرانہ طاقتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک دوسرے سے دور ہوتی جارہی ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS