امام علی مقصود فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
چھبیس جنوری در حقیقت خوابوں کی تعبیر کا دن ہے اور خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے یہ یوم احتساب بھی ہے، یوم جمہوریہ ایک قومی دن ہے جسے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر منایا جاتا ہے، اس دن کی اہمیت یہ ہے کہ حکومت ہند ایکٹ جو 1935 سے نافذ تھا وہ منسوخ ہوکر باضابطہ دستور ہند کا نفاذ عمل میں آیا اور دستور ہند پر عمل آوری شروع ہوئی، دستور ساز اسمبلی میں دستور ہند 26 نومبر 1949 میں پیش ہوا اور 26 جنوری 1950 کو اسکے نفاذ کی اجازت دے دی گئی، اس طرح دستور ہند کے نفاذ سے ہندوستان میں جمہوری حکومت کا نظام شروع ہوا۔
آبادی کے لحاظ سے ہندوستان دنیا کی سب بڑی پارلیمانی، غیر مذہبی جمہوریت ہے، اسکے دستور کے کچھ اہم امتیازات ہیں، یہاں کے شہریوں کو خود اپنی حکومت منتخب کرنے کا حق حاصل ہے، اس دستور میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس ملک میں مذہب، ذات پات، رنگ و نسل کی بنیاد پر حکومت نہیں کیا جائے گا، اس لئے کہ دستور کی بیالیسویں ترمیم کی رو سے اسے سیکولر اسٹیٹ کہا گیا ہے، جہاں ہر مذہب کا احترام ضروری ہوگا اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کا امتیاز و سلوک رواں نہیں کیا جائے گا، کیونکہ آئین کی رو سے ہر ہندوستانی شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہے، ہر شہری کو آزادی راے، آزادی خیال اور آزادی مذہب حاصل ہے۔
اقلیتوں کو بھی دستور میں انکا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنی علیحدہ تعلیمی ادارے قائم کریں، اپنی تہذیب و تمدن کو بر قرار رکھیں اور اپنے مذہب کی اشاعت و تبلیغ کریں، کیوں؟ اس لئے کہ یہ ملک ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے۔
جمہوریت کیا ہے؟
اہل لغت کی تشریح سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت کا لفظ عربی لفظ “الجمہور” سے ماخوذ ہے، جسکے لغوی معنیٰ “اکثریت” کے ہیں۔
عام بول چال میں جمہوریت سے مراد اکثریت کی مرضی کی حکومت ہوتی ہے، اور یہ انگریزی زبان کے لفظ democracy کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اور انگریزی زبان کا لفظ یعنی ڈیموکریسی یونانی لفظ “ڈیموکریٹیا” سے مشتق ہے جو دو لفظوں “ڈیموس” یعنی لوگ اور “کریٹیا” یعنی طاقت سے مل کر بنا ہے، اس طرح جمہوریت کے معنی ہوئے لوگوں کی طاقت یا ایسا نظام حکومت جس میں اقتدار کی باگ ڈور عوام کے ہاتھوں میں ہو نہ کہ فرد واحد یا صرف چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہو، شاید اسی لئے عوام میں ڈیموکریسی کی تعریف معروف ہے.
آج جمہوریت کو دنیا تہذیب و تمدن کی علامت اور فطری طرز حکومت کے طور پر تسلیم کر چکی ہے، اسی وجہ سے بیشتر ممالک میں جمہوری نظام قائم ہو چکا ہے، اور جہاں اب تک جمہوری نظام قائم نہیں ہوا وہاں بھی قائم کرنے کی جد وجہد جاری ہے، لیکن ایک صدی قبل دنیا کو جمہوریت سے جو توقعات وابستہ تھیں،وہ آج تک پوری نہیں ہو سکیں،اسکی وجوہات شاید یہ ہے کہ جمہوریت کے علمبرداروں نے خود جمہوریت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ جب جمہوریت کا نظام قائم ہوچکا ہے تو اب ہر طرف آزادی مساوات، عدل و انصاف کی ہوا پھیل جائے گی، مگر آج تک انکا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔
قارئین! یوم جمہوریہ جوکہ امسال م بدھ کے روز آرہا ہے، جہان پورے ملک میں اس دن کے تعلق سے خوشیاں منائیں جارہی ہیں، وہیں ہماری طبیعت غمگین بھی ہے، اور ہمارے قلب و جگر پر ایک افسردگی سی چھائی ہوئی ہے، ہم کشمکش میں ہیں کہ ہم اس موقع پر جمہوری قانون کے نفاذ کی خوشیاں منائیں یا پھر اس قانون کی ہمارے ملک میں جو دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اس پر ماتم کریں۔
ہمیں آئین کی اہمیت سے انکار نہیں ہے وہ تو تمام ملکی قانون کا منبع ہے، ہمارے کرب کی وجہ تو یہ ہے کہ جس آئین کی رو سے مذہب و ملت، ذات پات، رنگ و نسل کی بنیاد پر کوئی تفریق کیے بغیر ملک میں رہنے والے تمام شہریوں کو یکساں حقوق فراہم کیے جاتے ہیں، آج ہم اس قانون اور آئین کی پرواہ کیوں نہیں کرتے۔
آج اس وقت ملک کے حالات نہایت ہی خراب ہیں، آئے دن ہندوستان جیسے عظیم جمہوری ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
قارئین! آبادی کے لحاظ سے ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی پارلیمانی غیر مذہبی جمہوریت ہے، اسکے دستور کی کچھ اہم خصوصیات ہیں، وہ یہ کہ دستور ہند نے یہاں کے شہریوں کو خود اپنی حکومت منتخب کرنے کا حق دیا ہے، اور ہندوستانی عوام کو سرچشمہ اقتدار مانا ہے، جسے صاف الفاظ میں دستور ہند کی تمہید میں بیان کیا گیا ہے، اس دستور میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس ملک میں مذہب کی بنیاد پر حکومت نہیں کیا جائے گا۔
اس دستور میں یہاں کے شہریوں کو بنیادی طور پر سات حقوق دیے گئے ہیں: مساوات کا حق ، آزادی کا حق، استحصال سے حفاظت کا حق، مذہبی آزادی کا حق، تعلیم و ثقافت کا حق، جائیداد کا حق۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ دستور ہند نے ہمیں جو بنیادی حقوق دیے ہیں، ہم ان پر کتنا عمل کرتے ہیں یا وہ حقوق ہمیں کتنے فراہم کیے جا رہے ہیں، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہمارا یا حکومت کا کوئی ایسا عمل تو نہیں جس سے ان بنیادی حقوق کی پامالی ہو رہی ہو۔
معزز قارئین ! آج یومِ جمہوریہ کو یوم احتساب منانے کی ضرورت ہے اور جمہوریہ ہند کو ایک “مثالی جمہوری ملک” بنانے کے لئے ایک مثبت فکر کے ساتھ کوشش کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ پالیسیاں اور قوانین آسانیاں پیدا کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں نہ کہ دشواریاں پیدا کرنے کے لئے۔
قارئین ! ہر جمہوری ملک کے چند عناصر ہوا کرتے ہیں، اگر وہ عناصر مضبوط ہوتے ہیں تو وہاں کی جمہوریت بھی مظبوط ہوتی ہے اور اگر وہ عنصر کمزور اور ناتواں ہوتے ہیں تو وہاں کی جمہوریت بھی کمزو ہوکر نا اہلوں کے ہاتھ لگ جاتی ہے۔
جب بھی کسی گھر کی تعمیر ہوتی ہے تو اسکی بقاء اسکے ستونوں پر ہوتی ہے، اگر اسکے ستون مستحکم ہوتے ہیں تو عمارت بھی فخر کے ساتھ کھڑی رہتی ہے اور اگر وہ ستون کمزور ہوتے ہیں تو عمارت بھی بوسیدہ ہوجاتی ہے۔
ٹھیک اسی طرح جمہوریت بھی ایک عمارت کے مانند ہے اور اسکے چار ستون ہیں جنکی حفاظت اور دیکھ بھال کرنا ازحد ضروری ہے اور وہ چار ستون مستحکم و توانا رہیں تو انشاءاللہ جمہوریت بھی مظبوط رہے گی ورنہ نا اہلوں ہاتھ لگ کر اپنا نام و نشان مٹا دے گی، جیسا کہ ظاہر ہے۔
جمہوریت کے چار ستون۔
“قانون سازی”
قانون سازی کا ستون بنیادی طور پر ایسے قوانین بنانے کا ذمہ دار ہوتا ہے جو ریاست پر حکومت کریں گے۔ یہ قوانین یا تو براہ راست عوام (براہ راست جمہوریت) کے ذریعے بنائے جاتے ہیں یا لوگوں کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے (بالواسطہ جمہوریت)۔ بھارت بالواسطہ جمہوریت کی پیروی کرتا ہے۔
ایگزیکٹو:
جمہوریت کا یہ ستون قانون ساز سیکشن کے ذریعہ بنائے گئے قوانین کو نافذ کرنے کا ذمہ دار ہے، اور ان کے مناسب نفاذ کے لیے احکامات جاری کرتا ہے۔ ایگزیکٹو سیکشن کا انتخاب انتخابی نظام، بگاڑ کے نظام یا میرٹ کے نظام یا اوپر کے مرکب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
عدلیہ:
یہ ایک بار پھر جمہوریت کا بہت اہم ستون ہے اور یہ قوانین (قانون سازی کے ذریعہ دیئے گئے) اور احکامات (ایگزیکٹیو کے ذریعہ جاری کردہ) پر نظر رکھتی ہے اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ یہ قوانین اور احکامات کسی ملک کے شہریوں کے بنیادی حقوق کو کم نہ کریں۔
پریس/اخبار:
جمہوریت کا یہ ستون اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے تمام لوگ اس بات سے واقف ہوں کہ اس کے باقی حصوں میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ مندرجہ بالا تینوں نظاموں کے کام میں شفافیت کو یقینی بناتا ہے۔
جمہوریت کے یہ چار ستون ہیں اور اگر ان میں سے کوئی ایک ستون بھی ٹھیک سے کام نہیں کر رہا تو کہیں نہ کہیں جمہوریت ابھی تک پوری طرح مضمر نہیں ہے، انہیں سنبھالنے اور انکی حفاظت کا بیڑا اٹھانا پڑے گا ورنہ آنے والی نسلیں شاید غلامی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
اور اس جمہوریت کو آج وہی لوگ بچا سکتے ہیں جنکے رگوں میں خون نہیں بجلی دوڑتی ہوگی، اور وہ نوجوان ہی ہیں۔
کیونکہ ہر جماعت اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے نوجوانوں کے تعاون کی محتاج ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل ہو، کیوں کہ کسی بھی ملک، قوم یا معاشرے میں حقیقی اور مثبت تبدیلی نوجوان ہی لاسکتے ہیں، جب نوجوان مخلص ہوکر اپنے ملک و قوم کے لیے محنت اور جدوجہد کرنے لگتے ہیں تو مثبت تبدیلی، ترقی اور بہتری کو کوئی نہیں روک سکتا، کامیابی ان کے قدموں کی دھول ضرور بن کر رہتی ہے۔ نوجوان ہی وہ قوت ہیں، جو اگر ارادہ کرلیں تو ملک کی باگ ڈور سنبھال کر ملک کو اوج ثریا پر پہنچا کر دم لیتے ہیں۔
کامرانی ان اقوام کی قدم بوسی کرتی ہے جن کے نوجوان مشکلات سے لڑنے کا ہنر جانتے ہیں، خوش حالی ان اقوام کے گلے لگتی ہے، جن کے نوجوانوں کے عزائم آسمان کو چھوتے ہیں،ترقی ان اقوام کا مقدر بنتی ہے،جن کے نوجوانوں میں آگے بڑھنے کی لگن اور تڑپ ہوتی ہے۔ اگر نسل نو قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے تعمیر ملت کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں اور ملک میں ہر برائی کو اچھائی میں تبدیل کرنے کی ٹھان لیں، تو یقین کیجیے کہ تعمیر قوم کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ دریا میں تنکے کی طرح بہہ جائے۔ اس بات میں شک کی گنجائش نہیں کہ نسل نو ہی خواہ کوئی بھی میدان ہو اس میں مثبت تبدیلی لانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، اس لئے جمہوریت کی بقاء کے ساتھ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت بھی جمہوریت کا ایک اہم حصہ ہے، لیکن آج ہمارے ملک میں نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کی کوئی پرواہ نہیں، آج اس ملک میں نوجوانوں کو ہی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جا رہا ہے، تعلیمی اداروں کو بند کر کے لوگوں کو خوف وہراس میں مبتلا کیا جارہا ہے، تعلیم گاہوں، مدارس و مکاتب، اسکول کالج یونیورسٹیوں کو سالوں سال بند کرکے نوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑ کرکے جمہوریت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہے۔