حد بندی اور فاروق عبداللہ کے خدشات

0

سابقہ ریاست جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ کشمیر میں صورتحال ایک خطرناک آتش فشاں کی طرح ہے جو کبھی بھی پھٹ سکتا ہے۔ اگر یہ آتش فشاں پھٹاتو اپنے ساتھ پورے ملک کوبہا لے جائے گا اور کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔
ہوسکتا ہے کہ بہتوںکو فاروق عبداللہ کے ان خیالات سے اتفاق نہ ہو اور وہ اسے حکومت کے خلاف سابق وزیراعلیٰ کا پروپیگنڈہ اور شدت پسندی سے تعبیر کریں۔لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ جس مقصد کے تحت جموںو کشمیر کو سہ لخت کرتے ہوئے حکومت نے کشمیر کی کمان اپنے ہاتھ میں سنبھالی وہ مقصد اب تک حاصل نہیں کیاجاسکا ہے۔5اگست2019کو جب آئین کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو سوخت کرتے ہوئے ریاست کی تقسیم کا فیصلہ کیاگیاتو مرکز کی نریندر مودی حکومت نے دعویٰ کیاتھا کہ اس سے ریاست میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی، دہشت گردی ختم ہوگی، نوجونواں کوقومی دھارے میں شامل کیاجائے گا اور کشمیری پنڈتوں کی بھی گھر واپسی ہوگی۔لیکن آج ڈھائی برس گزرجانے کے بعد بھی حالات معمول پرنہیں آئے ہیں۔ لداخ کو ریاست سے الگ کرنے کے بعد وہاں نئے نئے خدشات سرابھارنے لگے ہیں۔ کشمیر میں بھی زندگی معمول پرنہیں آسکی ہے اور نہ ہی کشمیری پنڈت گھر واپس آئے ہیں۔اپنے فیصلے کی ان ناکامیوں کے درمیان حکومت نے اب جموں و کشمیر کی حد بندی کے بہانے تقسیم کا ایک نیا باب شروع کردیا ہے جس کی وجہ سے سیاسی پارہ بھی چڑھنے لگا ہے۔ ریاست کی سیاسی جماعتیں یہ الزام لگارہی ہیں کہ بھارتیہ جنتاپارٹی حدبندی کے بہانے جموں و کشمیر میں اپنا سیاسی ایجنڈا تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ ہندو اکثریتی ووٹروں کو اپنے حق میں ہموار رکھ سکے۔
جموں و کشمیر کی از سر نو حد بندی کے تحت جموں خطہ میں6نئی اسمبلی سیٹیں اور وادی میں ایک نئی اسمبلی سیٹ وضع کرنے کی تجویز ہے۔اس کے ساتھ ہی درج فہرست ذات اور قبائل کیلئے کم از کم 16اسمبلی سیٹیں مخصوص کی جانی ہیں۔ گزشتہ دنوں دہلی میں ہونے والی حد بندی کمیشن کے اجلاس میں پیش کردہ یہ تجویز اگر نافذ ہوجاتی ہے تو 83سیٹوں والی جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں جموں خطہ کی سیٹیں 37سے بڑھ کر 43اور وادی کشمیر کی سیٹیں46سے بڑھ کر47ہوجائیں گی۔درج فہرست ذات و قبائل کی اکثریت بنیادی طور پر جموں کی مکین ہے، اگر ان کیلئے16سیٹیں مخصوص کردی گئیں تو اس طرح جموں خطہ میں سیٹوں کی تعداد وادی کے مقابلہ کہیں زیادہ ہوجائے گی۔لداخ کو الگ کیے جانے کی وجہ سے اس کی چار سیٹیں پہلے ہی جموں و کشمیرکی اسمبلی سے ختم ہوچکی ہیں۔
اس تناظر میں ریاست کی سیاسی جماعتوں اور دیگر حزب اختلاف کے ان الزامات کو غلط ٹھہرانا مشکل ہے کہ حکومت جموں و کشمیر کی مسلم اکثریت کو سیاسی اقلیت میں بدلنے اوراسمبلی میں وادی کی نمائندگی محدود تر کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
حدی بندی کا بنیادی مقصد جمہوریت میں تمام مذاہب، طبقات اور برادریوں کی مساوی شرکت نیز مختلف جغرافیائی علاقوں میں رہنے والے شہریوں کو انتخابات کے عمل میں مساوی حقوق اور مناسب نمائندگی فراہم کرنا ہے لیکن صرف جموں و کشمیر کیلئے حلقہ سازی کی یہ تازہ تجویز حد بندی کے بنیادی مقصد کے علی الرغم ہے۔ ویسے بھی 2001کے بعدسے 2026تک کیلئے،ملک میں آبادی میں اضافہ کی یکساںشرح حاصل ہونے تک، پورے ملک میں حدبندی کا کام روک دیاگیاتھالیکن مرکزی حکومت نے گزشتہ سا ل صرف جموں و کشمیر کیلئے حد بندی کمیشن کی تشکیل کی۔اس وقت بھی اس کی نیت پر سوال اٹھائے گئے تھے۔ریاست کی مختلف سیاسی جماعتوں نے کمیشن کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں حدبندی کے عمل پرشکوک و شبہات کا بھی اظہار کیاتھا۔ نیشنل کانفرنس نے یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ جب پورے ملک میں حلقہ بندیوں کا کام 2026تک روک دیاگیا ہے تو پھر جموں و کشمیر میں یہ کیوں کیاجا رہا ہے؟ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے تو اس میٹنگ کا ہی بائیکاٹ کیا تھا۔ اس کے باوجود اگر حکومت، جموں وکشمیر میں نئی حد بندی کے نفاذ پر مصر ہے تو اس کی ’صاف نیت‘پر شبہات ہونے لازمی ہیں۔ ان حالات میںفاروق عبداللہ کے ان خدشات کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ہے کہ کشمیر کے لوگ آج خود کو پورے ملک سے الگ تھلگ محسوس کررہے ہیں اور انہیں روز بروز پیچھے دھکیلا جارہا ہے۔ کشمیر کے عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ جیسے انہیں ’رد‘ کردیاگیا ہو۔
بہتر تو یہی ہوتا کہ پورے ملک کی طرح 2026 تک جموں و کشمیر میں بھی حد بندی نہیں ہوتی اور اگر یہ حکومتی پالیسی کیلئے لازم ہی ٹھہری ہے تو اس پر تمام متعلقین اور ریاست کی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیاجانا ضروری ہے ورنہ اگر بزور یہ حد بندی نافذ کی گئی تو اس سے یہی پیغام جائے گا کہ مودی حکومت حد بندی کے بنیادی مقاصد کے بجائے اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل میں مصروف ہے اور جموں خطہ کی سیٹیں بڑھاکر ہندو اکثریتی آبادی کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ اس پیغام سے جموں و کشمیر کے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں اور خدانخواستہ فاروق عبداللہ کے خدشات حقیقی شکل اختیار کرگئے تو یہ پورے ملک کیلئے پریشانی کا سبب بنے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS