دہلی فسادات: غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لئے نامور شخصیات، دہلی اقلیتی کمیشن اور ہیومن رائٹ واچ کا مطالبہ

0

نئی دہلی:ملک کی نامور شخصیات،دہلی اقلیتی کمیشن اورہیومن رائٹس واچ نے دہلی فسادات کی تحقیقات اوراس میں پولیس کے کردار اور اس کی تحقیقات پر پرسوالیہ نشان لگاتے ہوئےغیر جانبدرانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ 
 اس سال کے شروع میں ملک کے دارالحکومت دہلی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی تحقیقات پر سوالات کھڑے کیے جانے لگے ہیں اور اسی سلسلے میں مختلف
شعبوں کی نامور شخصیات نے منصفانہ تحقیقات کے لئے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
نامور وکیل پرشانت بھوشن، سماجی کارکن ارونا رائے، للت کلا اکیڈمی کے سابق صدر اشوک واجپئی،پرسار بھارتی کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر جواہر سرکار،سابق
گورنر پنجاب کے مشیر جولیو ربیریو اور سابق چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ سمیت 72 مشہور شخصیات نے  کووند کو خط لکھا ہے اوردہلی فسادات
میں پولس کی تحقیقات پر سوال اٹھایا ہے۔خط میں صدر جمہوریہ سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں اور دہلی تشدد کی تحقیقات کسی غیر جانبدار
ایجنسی سے کرانے کا حکم دیں۔خط میں لکھا گیا ہے کہ دہلی پولس نے فسادات کی  تفتیش کے لئے تین خصوصی تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی ہیں، لیکن خود پولس کو ان
فسادات کی حمایت کرنے کے سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس لیے دہلی فسادات کی تحقیقات کسی  دیگر غیر جانبدار ایجنسی کے ذریعہ کی جانی چاہئے۔
آٹھ صفحات پر مشتمل خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ دہلی پولس اہلکار اس تشدد میں ملوث ہیں اورمتعدد ویڈیو کلپ سے اس کی گواہی ملتی ہے۔ان مشہور شخصیات نے
بتایا کہ اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ پولس نے پتھراؤ بھی کیا تھا اور اس سے قبل سی سی ٹی وی کیمرے بھی توڑے گئے تھے۔ آج تک مجرم پولس افسران کے خلاف
شکایت پر کوئی کارروائی نہیں ہونا  پولس کی ملی بھگت کا واضح اشارہ ہے۔خط میں اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ پولس   بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)
کے ملزم لیڈروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہی ہے۔
ددہلی اقلیتی کمیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ شہادتوں میں، پولیس افسران کے خلاف جسمانی زیادتی اور بدسلوکی سمیت براہ راست تشدد میں ملوث ہونے کے
واضح الزامات لگائے گئے ہیں اور کچھ معاملات میں شکایت کرنے والے متاثرین کو ہی گرفتار کرلیا گیا ہے،خاص طور پر ان حالات میں جہاں انہوں نے نامزد افراد
کے خلاف شکایت درج کروائی یا اس کی کوشش کی۔ نامزد ملزمین کے خلاف شکایات کی مناسب تحقیقات کے بغیر چارج شیٹ داخل کرنے سے جہاں تفتیش کی غیر
جانبداری اور مقصدیت کے بارے میں شبہہ پیدا ہوتا ہے وہیں دہلی پولیس کے ذریعے مجموعی طور سے تشدد کے بارے میں ایک نیا بیانیہ پیش کرنے کی کوشش کا
اندازہ بھی ہوتا  ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہادتیں بتاتی ہیں کہ مسلم خواتین پر ان کی مذہبی شناخت کی بنا پر حملہ کیا گیا تھا۔ ان کے حجاب اور برقعے اتار دیئے گئے تھے۔ خواتین
کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس فورسزاور پرتشدد ہجوم نے احتجاجی مقامات پرحملہ کیا،خواتین پولیس اہلکاروں نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی اور ہجوم کے
ذریعے ان پر حملہ ہوا۔ خواتین نے بھیڑ کے ذریعے تیزابی حملوں اور جنسی تشدد کی دھمکیوں کی مثالیں بھی بیان کیں۔
آزادانہ جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت کو خصوصی تشکیل کے ذریعے ایک پانچ رکنی آزاد کمیٹی تشکیل دینا چاہئے۔ اس کمیٹی کی سربراہی ہائیکورٹ
کے ایک ریٹائرڈ جج کی ہوگی، اور اس میں 1) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنزجج، 2) ایک سینئر ایڈوکیٹ، 3) ایک ریٹائرڈ پولیس اہلکار، جو ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کے عہدے
سے کم نہ ہو اور جس نے دہلی پولیس میں خدمات انجام نہ دی ہوں، اور 4)  اچھی شہرت رکھنے والے ایک سول سوسائٹی کا رکن بطور ممبر ہوں گے۔ سربراہ اور
ممبروں کے انتخاب میں امیدواروں کی مناسبیت کا اندازہ مندرجہ ذیل معیارات کے مطابق کیا جانا چاہئے: (i) ذاتی دیانتداری کا عمدہ ریکارڈ، (ii) انسانی
حقوق کی حفاظت کے لئے ثابت عزمی، اور (iii) قانون اور اس سے متعلق کاروائیوں کا علم ہو۔ 
ہیومن رائٹس واچ نے بھی دہلی تشدد میں پولیس کی ناکامی اور جانبدار انکوائری کا دستاویزی کیا ہے۔ تشدد اور پولیس تشدد کی غیر جانبدارانہ جانچ کرنے کی جگہ پولیس
اب طالب علموں کو، کارکنوں اور حکومت کے دیگر ناقدین کو گرفتار کرنے کے لئے انسداد دہشت گردی اور غداری جیسے سخت قوانین کا استعمال کر رہی ہے۔ دہلی
پولیس نے ان الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں فرقوں سے "تقریبا ایک سامان تعداد میں " لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، لیکن اس نے گرفتاری کے بارے
میں تفصیل سے نہیں بتایا ہے.۔
تشدد کی تفصیلات، انتظامیہ کی ملی بھگت اور کارکنوں کو دھمکی دینا اور ان کا ظلم و ستم ہندوستانمیں بڑے پیمانے پر ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کی پچھلے واقعات
کی طرح ہی ڈرانے والا ہے. 2002 میں گجرات میں ہوئے مسلم مخالف تشدد کے کئی گواہوں نے بتایا تھا کہ پولیس نے یا تو ان کے فون کا جواب نہیں دیا یا یہ کہا کہ
" ہمارے پاس آپ کو بچانے کے لئے کوئی حکم نہیں ہیں.۔
 ہندوستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے متاثرین کے لئے انصاف کی فراہمی میں ناکامی کی وجہ سے مذہبی اقلیتوں کے خلاف مزید مظالم اور ہندوستان کے مجرم انصاف
کے نظام میں گہرا عدم اعتماد پیدا ہوا ہے۔ حکومت کو شہریت پالیسیوں کی پرامن احتجاج کرنے والوں کے خلاف سیاسی طور پر حوصلہ افزا الزامات کو فوری طور پر
واپس لینا چاہئے، اس نئی رپورٹ کی سفارشات کو لاگو کرنا چاہئے اور پولیس تشدد سمیت دہلی تشدد کی فوری، قابل اعتماد اور منصفانہ فوجداری تحقیقات یقینی کرنی
چاہئے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS