فیصلہ میں تاخیر

0

وقت کے تقاضے کے مطابق بروقت فیصلہ لینا ایک ایسی صفت ہے جو بہت سی ناگہانی کو ٹال دیتی ہے۔قیادت سے یہ توقع رہتی ہے وہ مصیبت و ابتلا اور بحران کی گھڑیو ںمیں قوم کے اجتماعی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بروقت درست فیصلے کرے گی۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ یہ عام تصور کبھی بھی حقیقت کاجامہ نہیں پہن پایا۔نوٹ بندی، جی ایس ٹی ، پلوامہ دھماکہ ، کورونا بحران اور درجنوں ایسی مثالیں دی جاسکتی ہیں جن میں فیصلہ میں ہونے والی تاخیر، نتائج کے اعتبار سے خطرناک ثابت ہوئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مختلف امور میں قیادت اور عام انسانوں کی ترجیحات میں فرق ہو اور قیادت نے عوام کی امنگوں کے برعکس فیصلے کیے ہوں لیکن جب معاملہ قومی اور اجتماعی مفاد کا ہو تو ہر شخص یہ توقع رکھتا ہے کہ حکومت اور قیادت تاخیر، حیص بیص اور تذبذب کی کیفیت میںمبتلا نہیں ہوگی۔
روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے حوالے سے بھی یہی امید کی جارہی تھی کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے وہاں موجود ہندوستانی شہریوں کے انخلا کی بروقت کارروائی کرے گی اور جنگ شروع ہونے سے قبل اپنے شہریوں کو بحفاظت ملک لے آئے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔یہ تاخیر کا ہی نتیجہ ہے کہ اب تک ہمارے شہری جن میں طلبا و طالبات کی اکثریت ہے، جنگ زدہ یوکرین میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کہنے کو تو حکومت نے یوکرین میں پھنسے ہوئے ہندوستانی شہریوں کو لانے کیلئے ’آپریشن گنگا‘ شروع کیا ہے لیکن اب تک کی رپورٹ کے مطابق اس آپریشن میں ایئر انڈیا نے صرف 8 پھیرے ہی لگائے ہیں اورہر پھیرے میں صرف 240 افراد کو ملک لایاجاسکا ہے اور آج جنگ کے چھٹے دن بھی ہزاروں ہزار ہندوستانی شہری اپنی حکومت اور سفارت خانہ کی امداد کے منتظر ہیں۔
یہ فیصلہ میں تاخیر کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ایک 21سالہ ہندوستانی طالب علم بھی روس- یوکرین جنگ میں ہلاک ہوگیا۔اب حکومت روس اور یوکرین کے سفیروں کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے ان سے جواب مانگ رہی ہے۔جس کابظاہر کوئی حاصل نہیں ہے کیوں کہ جب کہیں جنگ ہوتی ہے تو صرف فریقین کو ہی نقصان نہیں اٹھاناپڑتا ہے بلکہ غیر متعلقین بھی اس جنگ کا ایندھن بنتے ہیں۔ دور اندیشی کا تقاضاتو یہ تھا کہ حکومت جنگ شروع ہونے سے قبل ہی اپنے شہریوں کو واپس بلالیتی لیکن ایسانہیں ہوسکا۔
حکومت نے اب جاکر چار وزرا کو یوکرین کے پڑوسی ممالک بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ چاروں وزرا طلبا کو بحفاظت لانے میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں یہ تو چند دنوں میں معلوم ہوہی جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کوئی اچانک شروع نہیں ہوئی، کئی دنوں سے کشیدگی کی چنگاریاں سلگ رہی تھیں اور امریکہ سمیت کئی ممالک نے پہلے ہی اپنے شہریوں کو وہاں سے نکل جانے کا کہہ دیا تھا۔ لیکن ہندوستان کی حکومت نے آگ لگنے کے بعد کنویں کی کھدائی کے انداز میں بہت تاخیر سے ہدایات جاری کیں۔ ہندوستان کے پاس اتنا وقت تھا کہ وہ اس مدت میں اپنے تمام شہریوں کو واپس لاسکتا تھا لیکن اس کا کیا کیاجائے کہ ہماری حکومت اور قیادت کو یوکرین میں پھنسے ہوئے شہریوں سے زیادہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کی فکر تھی اور تمام کابینہ اسی میں مصروف کار رہی۔روس اور یوکرین کے درمیان تنازع سلجھانے میں سرگرم کردار ادا کرنا تو دور کی بات رہی اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے میں بھی ناکام دکھائی دی۔
حکومت کی اس ناکامی کو چھپانے کیلئے سوشل میڈیا پر یہ تشہیر کی جارہی ہے کہ یوکرین کی فوج یا پولیس ترنگا دیکھ کر ہی ہندوستانی شہریوں کو سرحد پر لے جا رہی ہے۔ لیکن اسی سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز اور تصویریں بھی آچکی ہیں جو ہندوستانی حکومت کی ناکامی اور یوکرین میں موجود ہندوستانی سفارت خانہ کے اہلکاروں کی بے حسی ظاہر کر رہی ہیں۔روس کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مذمتی قرارداد سے ہندوستان کی دوری پر ناراض یوکرین کے فوجی ہندوستانی شہریوں اور طلبا کے ساتھ اچھا سلوک بھی نہیں کر رہے ہیں۔کچھ ویڈیوز میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہندوستانی طلبا کو پولینڈ جیسے ممالک کی سرحد تک پہنچنے کیلئے کہا جا رہا ہے لیکن جنگ زدہ ملک میں دھماکوں کے درمیان سیکڑوں کلومیٹر کا سفر کتنا آسان ہو گا، یہ سمجھاجاسکتا ہے۔
دوسری طرف یوکرین میں موجود ہمارا سفار ت خانہ بھی طلبا کی مطلوبہ مدد میں ناکام نظرآرہاہے۔غیر ملکی سرزمین پر اپنے ملک کا سفارت خانہ تارکین وطن کیلئے گھر کے صحن جیسا ہونا چاہیے جہاں وہ خود کو محفوظ محسوس کرسکیں۔سفارتخانہ کے اہلکاروں کا کام صرف دو ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینا نہیں ہے بلکہ اپنے شہریوں کے تئیں بھی ان کی کچھ ذمہ داریاں ہیں لیکن یوکرین میں زیر تعلیم ہندوستانی طلبا کی حالت زار بتا رہی ہے کہ ہندوستان کا سفارت خانہ اس ذمہ داری کو نبھانے میں ناکام ہے۔
اب ساری نگاہیں ہندوستان سے ’ خصوصی سفیر‘ کی حیثیت سے بھیجے جانے والے چار وزرا پر ٹکی ہوئی ہیں جو یوکرین میں پھنسے ہندوستانی شہریوں کے محفوظ انخلا کیلئے جنگ زدہ ملک کے پڑوسی ملکوں میں بھیجے گئے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS