فضائی آلودگی کا گہرا ہوتا خطرہ

0

سدھیر کمار

ہوا کے معیار سے متعلق جب تب جاری ہوتے رہے عالمی اشاریوں(global index) میں ہندوستان کی حالت قابل رحم ہی رہی ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں تو پہلے 20-30 شہروں میں سب سے زیادہ شہر ہندوستان کے ہی آتے رہے ہیں جہاں فضائی آلودگی سے حالت کافی سنگین ہے۔ سوئزرلینڈ کا ’‘ائی کیو ایئر‘ ادارہ کے ذریعہ گزشتہ دنوں جاری ایئر کوالٹی انڈیکس-2020رپورٹ کے مطابق دنیا کے 30سب سے آلودہ شہروں میں 22شہر ہندوستان کے ہیں۔ اس انڈیکس میں چین کا کھوتان شہر سب سے اوپر ہے، جب کہ ہندوستان میں اترپردیش کا غازی آباد دنیا کا دوسرا سب سے آلودہ شہر پایا گیا۔ دہلی کا مقام دسواں ہے، لیکن یہ دنیا کی سب سے آلودہ راجدھانی بن کر ابھری ہے۔ سب سے اوپر 30آلودہ شہروں کی فہرست میں اترپردیش کے 10اور ہریانہ کے 9شہر شامل ہیں۔ وہیں 106ممالک کے اس انڈیکس میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے بعد ہندوستان دنیا کا تیسرا سب سے آلودہ ملک ہے۔ اس کے برعکس پُرتورِکو، نیو کیلیڈونیا، سویڈن، فن لینڈ، ناروے اور آئس لینڈ کی گنتی دنیا کے سب سے صاف ممالک میں ہوئی ہے۔
اب یہ قائم شدہ حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ اور امیر ممالک آلودگی پھیلانے میں نسبتاً آگے ہیں اور اس کا خمیازہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو ہی بھگتنا پڑرہا ہے۔ کہنے کو امیر ممالک کے گروپ ماحولیات اور آب و ہوا کے بحران سے نمٹنے کے لیے بڑی بڑی باتیں کرتے تھکتے نہیں، لیکن ایسی کوئی پہل بھی نہیں کرتے جس سے مسئلہ کاحل نکلنے کا راستہ نکلے۔ بلکہ آلودگی کا ٹھیکرا اور اس کے روکنے کے طریقوں کے سلسلہ میں غریب اور ترقی پذیر ممالک پر ہی دباؤ بنایا جاتا ہے۔ دنیا کی ایک چوتھائی فضائی آلودگی ہندوستانی برصغیر کے چاروں ممالک-بنگلہ دیش، ہندوستان، نیپال اور پاکستان میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ فضائی آلودگی صرف عوامی صحت اور ماحولیات کو ہی متاثر نہیں کرتی، بلکہ زندگی کی امید، معیشت، سیاحت اور معاشرہ پر بھی اس کا برا اثر پڑتا ہے۔ فضائی آلودگی کا گہراتا مسئلہ موجودہ اور مستقبل دونوں نسلوں کے لیے مصیبتیں کھڑی کرتا ہے۔

عام طور پر فضائی آلودگی کی چرچہ ہونے پر ہم صرف شہروں کی جانب ہی دیکھتے ہیں، کیوں کہ وہاں صنعتوں اور گاڑیوں کی بھرمارنظر آتی ہے۔ لیکن آلودگی کی جس شکل پر اکثر توجہ نہیں دی جاتی ہے، وہ ہے-گھر کی چوکھٹ کے اندر پھیلی آلودگی۔ حالاں کہ اس معاملہ میں شہروں اور گاوؤں کی صورت حالت تقریباً یکساں ہی ہے۔ لیکن آگ جلانے کے روایتی ذرائع پر انحصار کے سبب گاوؤں میں گھریلو آلودگی کی صورت حال کہیں زیادہ خوفناک ہے۔ آگ جلانے کے روایتی ذرائع جیسے لکڑی، گوبر، کوئلہ، کیروسین اور فصل کی باقیات سے میتھین، کاربن مونوآکسائڈ، پولی ایرومیٹک ہائیڈروکاربن وغیرہ کا اخراج ہوتا ہے جو انسانی صحت اور ماحولیات دونوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔

برٹش ہیلتھ میگزین- دی لینسیٹ کی ’پلینیٹری ہیلتھ رپورٹ-2020‘ کے مطابق 2019میں ہندوستان میں فضائی آلودگی سے 17لاکھ اموات ہوئیں، جو اس برس ملک میں ہونے والی کل اموات کی 18فیصد تھیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 1990کے مقابلہ میں 2019میں فضائی آلودگی سے ہونے والی شرح اموات میں 115فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہی نہیں، ملک میں فضائی آلودگی کے سبب ہونے والی بیماری کے علاج میں ایک بڑی رقم خرچ ہوجاتی ہے۔ غور طلب ہے کہ 2019میں فضائی آلودگی کے سبب انسانی وسائل کی شکل میں شہریوں کی بے وقت موت ہونے اور بیماریوں پر خرچ کے سبب ہندوستان کی مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی) میں 2لاکھ 60ہزار کروڑ روپے کی کمی آئی تھی۔ اس رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2024تک فضائی آلودگی کے سبب اترپردیش میں جی ڈی پی کا 2.15فیصد، بہار میں 1.95فیصد، مدھیہ پردیش میں 1.70فیصد، راجستھان میں 1.70فیصد اور چھتیس گڑھ میں 1.55فیصد نقصان ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ فضائی آلودگی ملک کی معیشت کو بڑے پیمانہ پر متاثر کررہی ہے۔
دراصل فضائی آلودگی کا مسئلہ ہمارے طرززندگی میں اس طرح شامل ہوگیا ہے کہ اسے ہم ایک مسئلہ کے طور پر نہیں دیکھتے۔ ملک کے کئی شہر ایک طرح سے ’گیس چیمبر‘ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ان شہروں میں جدید زندگی کی چکاچوند تو ہے، لیکن انسانی طرززندگی بدتر ہوچکا ہے۔ فضائی آلودگی ایک بڑے پبلک ہیلتھ رسک کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ کئی تحقیقات(ریسرچ) میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ آلودہ علاقوں میں مسلسل رہنے سے بیماریاں بڑھتی ہیں اور زندگی کی امید کم ہونے لگتی ہے۔ ایسی ہی ایک ریسرچ ’کارڈی یوویسکولر ریسرچ جرنل‘ میں شائع ہوئی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی کے سبب پوری دنیا میں زندگی کی امید اوسطاً 3برس کم ہورہی ہے جو دیگر بیماریوں کے سبب زندگی کی امید پر پڑنے والے اثر کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔ مثلاً تمباکو کے استعمال سے زندگی کی امید میں تقریباً 2.2برس، ایڈیس میں 0.7برس، ملیریا سے 0.6برس اور جنگ کے سبب 0.3برس کی کمی آتی ہے۔ بیماری، جنگ اور کسی بھی تشدد میں مرنے والوں سے کہیں زیادہ تعداد فضائی آلودگی سے مرنے والوں کی ہے۔ جب کہ اس جرم کے لیے کسی خاص شخص یا ادارہ کو قصوروار ٹھہرایا نہیں جاسکتا ہے۔
فضائی آلودگی ایک دھیمے زہر کی طرح انسانی صحت و وسائل کو نقصان پہنچاتی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ہندوستان میں فضائی آلودگی 42فیصد تک بڑھی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او) کے مطابق 84فیصد ہندوستانی ان علاقوں میں رہ رہے ہیں جہاں فضائی آلودگی ڈبلیو ایچ او کے طے شدہ معیار سے کہیں زیادہ ہے۔ ایئر کوالٹی لائف انڈیکس رپورٹ کے مطابق آلودہ علاقوں میں رہنے والے ہندوستانی پہلے کے مقابلہ میں اوسطاً 5سال کم جی رہے ہیں۔ کئی ریاستوں میں یہ شرح قومی اوسط سے بھی زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق صرف فضائی آلودگی کے سبب دہلی میں زندگی کی امید میں 9برس، اترپردیش اور ہریانہ میں 8برس، بہار اور بنگال میں 7برس تک کی کمی آتی ہے۔ فضائی آلودگی پھیپھڑے کی بیماریوں اور کینسر جیسی بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔ حیران کن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں 60برس سے زیادہ عمر کے لوگوں کی موت میں 75فیصد اموات صرف فضائی آلودگی سے ہونے والی بیماریوں کے سبب ہوتی ہیں۔ زندگی کی امید کم ہونے سے لوگ پہلے کی نسبتاً کم اور خراب صحت یا بیماری میں زندگی گزارتے ہیں۔
عام طور پر فضائی آلودگی کی چرچہ ہونے پر ہم صرف شہروں کی جانب ہی دیکھتے ہیں، کیوں کہ وہاں صنعتوں اور گاڑیوں کی بھرمارنظر آتی ہے۔ لیکن آلودگی کی جس شکل پر اکثر توجہ نہیں دی جاتی ہے، وہ ہے-گھر کی چوکھٹ کے اندر پھیلی آلودگی۔ حالاں کہ اس معاملہ میں شہروں اور گاوؤں کی صورت حالت تقریباً یکساں ہی ہے۔ لیکن آگ جلانے کے روایتی ذرائع پر انحصار کے سبب گاوؤں میں گھریلو آلودگی کی صورت حال کہیں زیادہ خوفناک ہے۔ آگ جلانے کے روایتی ذرائع جیسے لکڑی، گوبر، کوئلہ، کیروسین اور فصل کی باقیات سے میتھین، کاربن مونوآکسائڈ، پولی ایرومیٹک ہائیڈروکاربن وغیرہ کا اخراج ہوتا ہے جو انسانی صحت اور ماحولیات دونوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ دیہی خواتین اس معلومات سے انجان رہتی ہیں کہ چولہے سے نکلنے والا دھواں جسم کے ساتھ ساتھ دماغی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہوتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایک گھنٹے میں روایتی چولہے سے نکلنے والے دھویں سے اتنا ہی نقصان ہوتا ہے، جتنا کہ ایک گھنٹے میں 400سگریٹ جلنے سے ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ روایتی چولہے پر کھانا بنانا موت کے ساتھ ساتھ متعدد بیماریوں کو دعوت دینے جیسا ہے۔ دھویں کی زد میں آنے سے خواتین میں سانس سے متعلق اور سردرد کی پریشانیاں عام ہیں۔ پھر گھریلو آلودگی سے پھیپھڑوں کی کام کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔ اس کا اثر بھی خواتین پر ہی سب سے زیادہ ہوتا ہے کیوں کہ انہیں کئی کئی گھنٹے تک کھلے چولہے کے سامنے رہنا پڑتا ہے۔ دنیا کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی آگ جلانے کے لیے آج بھی حیاتیاتی ایندھنوں کااستعمال کرتی ہے۔
دراصل شہروں میں کھلے، صاف اور سازگار ماحول کی سراسر کمی ہے۔ آنے والے وقت میں ہماری نسلیں قدرتی وسائل اور صاف ماحول کی کمی کے سبب گھٹن بھری زندگی جینے کے لیے مجبور ہوں گی۔ حقیقت میں جدید زندگی کا متبادل بن چکی صنعت کاریوں اور شہرکاری کی تیز رفتار اور ماحولیاتی شعور کی کمی کے سبب ماحولیات بے دم ہورہی ہے۔ اگربروقت فضائی آلودگی کے مسئلہ سے نجات نہیں پائی تو وہ وقت دور نہیں جب ہم صاف و شفاف ہوا کے لیے ترسیں گے۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS