قانون کی حکمرانی اور عزت نفس کا تحفظ

0

ملک کے منصف اعظم این وی رمن بھی یہ سمجھتے ہیں کہ نرے انتخابات معاشرہ کو ظلم و بربریت سے پاک نہیں کرسکتے ہیں۔ معاشرہ کو ہر طرح کے مظالم سے پاک اور انصاف کے اصو لوں پر کاربند رہنے کیلئے لازم ہے کہ معاشرہ کے ہر فرد کی عزت نفس کا احترام کیا جائے۔یہ احترام صرف عوامی سطح پر نہیں بلکہ حکمرانوں سے بھی مطلوب ہوتا ہے۔’قانون کی حکمرانی ‘ کے موضوع پردہلی میں آن لائن سمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے فرمایا کہ انتخابات کسی کو بھی ظلم و بربریت سے آزاد نہیں کرسکتے۔ صرف حکمراں کو تبدیل کرنے سے ہی کسی کو مظالم سے نجات نہیں مل سکتی۔انتخابات، تنقید اور احتجاج سب جمہوریت کا حصہ ضرور ہیں لیکن یہ جبر سے آزادی کی ضمانت نہیں دیتے ہیں۔ پل پل بدلتے سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے پس منظر میں چیف جسٹس این وی رمن کے فرمودات عالیہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام پربھی سوچ اور فکر کے نئے دروازے کھول رہے ہیں۔
اب تک ہم یہ سمجھتے رہے ہیں کہ اپنے اوپر حکمرانی کیلئے چند ایک نمائندوں کا انتخاب کرکے ہم نے تاناشاہی، آمریت اور شہنشاہی کوقصہ پارینہ بنادیا ہے۔ عوام کے یہ منتخب نمائندے ہرطرح کی ناہمواری اور عدم مساوات کو ختم کرکے معاشرہ کو ایسا ماحول دیں گے جس میں سبھی کی ترقی اور خوشحالی کے یکساں مواقع ہوں، خرد و کلاںکے کسی امتیاز کے بغیر ہر شخص کو مساوی درجہ حاصل ہو، سوچ و فکر پر کوئی بندش ہو اور نہ اظہار رائے پر پہرے بیٹھائے جائیں۔ لیکن ہندوستان کی70سالہ جمہوری تاریخ میں عوام کی یہ آرزو اب تک پوری نہیں ہوپائی ہے۔
جمہوریت پر اٹوٹ یقین اور اس کیلئے کٹ مرنے تک کا جذبہ تقریباً ہر ہندوستانی میں ہے لیکن بوجوہ ہندوستان میں جمہوریت روز بروز کمزور ہوتی جارہی ہے۔ یہ صورتحال ایسی ہے کہ ہر درد مند دل اس سے آزردہ ہے۔ چیف جسٹس عام ہندوستانیوں کے اس کرب سے آگاہ ہیں اور بحیثیت چیف جسٹس انہیں ملک کی تمام صورتحال کا ایک عام ہندوستانی سے کہیں زیادہ ادراک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہندوستان میں جمہوریت کے احوال بھی سناڈالے کہ آزادی کے بعد اب تک ہندوستان میں 17 عام انتخابات ہوچکے ہیں، ان انتخابات میں عوام نے اپنی ذمہ داری احسن طریقہ سے نبھائی ہے۔اب ان کی باری ہے کہ جنہیں عوام نے منتخب کرکے یہ آئینی ذمہ داری سونپی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے یہ نمائندے عوام کی آرزوئوں اورا منگوں پر پورے اترتے ہیں،آئین میں تفویض کردہ اپنی وہ ذمہ داریاںجن سے صحت مند معاشرہ وجود پذیر ہوتا ہے، ادا کرنے میں کتنے اہل ہیں؟ ہوسکتا ہے کہ عوام ان منتخب نمائندوں سے غیرمطمئن ہوکر اگلے انتخاب میں انہیں بدلنے کے حق کا بھی استعمال کرلیں لیکن یہ صورتحال جبر سے آزاد ہونے کی ضمانت نہیں دے سکتی ہے۔ جبرا ور ظلم سے نجات کی واحد راہ یہ ہے کہ ہر فرد کی عزت نفس کا تحفظ کیاجائے گا۔ ’ عزت نفس‘ کا تحفظ ’قانون کی حکمرانی ‘ میں مضمر ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں خالص ’ قانو ن کی حکمرانی‘ کے اس تصور کو زک پہنچ رہی ہے۔قانون کی حکمرانی قائم رکھنے کیلئے عدلیہ کو ہرطرح سے آزاد رکھنا ہوگا۔ عدلیہ پر مقننہ یا انتظامیہ کے ذریعہ برا ہ راست یا بالواسطہ کنٹرول پسندیدہ نہیں ہوسکتا ہے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو قانون، قواعد و ضوابط ثانی ہوکر رہ جائیں گے اور قانون کی حکمرانی ایک گمراہ کن اصطلاح سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھ پائے گی۔
عدلیہ پر مقننہ اور انتظامیہ کے دبائو کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس نے سوشل میڈیا کی جانب سے بھی ہونے والے دبائو کی نشاندہی کرتے ہوئے بجاطور پر کہا کہ عوام کے خیالات اور ان کے جذباتی رویہ سے بھی عدلیہ کو کبھی دبائو میں نہیں آنا چاہیے۔ سوشل میڈیاکے ذریعہ تیار کردہ رائے عامہ کی بنیاد کو بھی چیف جسٹس نے ایک طرح کا دبائو ہی بتایا اور کہا کہ یہ صورتحال قانون کی حکمرانی کیلئے سب سے کٹھن ہوتی ہے۔ جو بات سوشل میڈیا یا کسی دوسرے میڈیا کے ذریعہ بڑھا چڑھا کر پیش کی جارہی ہے، وہ ضروری نہیں کہ سچ ہو اور یہ بھی ضروری نہیںہے کہ وہ سراسر غلط ہو۔عدالتوں کا فیصلہ ان کی بنیاد پر نہیں ہوناچاہیے۔
چیف جسٹس این وی رمن نے ہندوستان میں جبر و ظلم سے آزادی، جمہوریت کو مستحکم اورقانون کی حکمرانی قائم رکھنے کیلئے عوام الناس کو سوچ کاایک نیا زاویہ دیا ہے اور وہ ہے ’عزت نفس ‘کے تحفظ کا تصور۔ دیکھاجائے تو ہندوستان میں عوام ہی نہیں خواص کی بھی یہ ’عزت نفس‘ ہر قدم پر مجروح ہورہی ہے۔اس کے انداز بھلے ہی جداگانہ ہوسکتے ہیں لیکن بہرطور اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے۔ عزت نفس کے تحفظ کیلئے لازم ہے کہ قومیت، رنگ، نسل، زبان، مذہب، طبقہ، ہر طرح کے تعصب اور امتیاز سے بالا تر ہوکر تمام شہریوں کے حقوق کا یکساں احترام ہو، اکثریت اور اقلیت کے لیے کسی استثنیٰ کے بغیر قانون کا اطلاق اور اس کا نفاذ تمام شہریوں کیلئے یکساں ہو۔ اس کے بغیرعزت نفس کاتحفظ تودور قانون کی حکمرانی بھی قائم نہیں رہ سکتی ہے اور نہ ہی جمہوریت کے شیریں ثمرات سے بہرہ ورہوا جاسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS