ابونصرفاروق
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عورتوں کو حجاب کا حکم دیا ہے۔ حجاب کا مطلب یہ ہے کہ عورت کا پورا بدن یوں ڈھکا اورچھپا رہے کہ جب وہ کسی غیر محرم کے سامنے آئے تو اُس کے سراپا کو دیکھ کر اُس کے قد و قامت اور صحت مند یا معمولی جسامت کا تو اندازہ ہو مگر اس سے زیادہ اُس کے نسوانی جسم کی کوئی معلومات دیکھنے والے کے علم میں نہ آئے اور نہ اُس کا دماغ شیطانی خیالات کی آماجگاہ بنے اور نہ وہ جذبات و خیالات اور نگاہوں کے زنا کا مجرم بن سکے۔ اور عورت بے حجاب ہو کر غیر محرم کو زنا کرنے کا موقع فراہم نہ کرے۔ جب عورت اپنا چہرہ کھلا رکھتی ہے اور اپنے بدن کی نمائش کرتی ہے تو شریعت ایسی عورت کو بے حیا کہتی ہے جو مردوں کو نظر بازی کی دعوت دیتی ہے اور اُن کو زنا کرنے کا موقع مہیا کرتی ہے۔ حیا کا تعلق ایمان سے ہے۔ فرمان رسول کے مطابق شرم وحیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔ گویا بے حیا عورت ایمان سے محروم ہوجاتی ہے۔ یہی بے پردہ عورت جب بن سنور کر اپنے حسن و زیبائش کا مظاہرہ کرتی اور مردوںکو دعوت نظارہ دیتی گھر سے باہر نکلتی ہے تو اس کو شریعت آوارہ کہتی ہے۔ یعنی یہ عورت ایسے تمام مردوں کے جذبات میں آگ لگاتی ہوئی چلتی ہے جو بالغ ہونے کے بعد بھی نکاح کی دولت سے محروم ہیں اور اپنے شہوانی جذبات کو قابو میں رکھنے کے جہاد میں مصروف ہیں۔ جب کسی سجی سنوری ہوئی جوان عورت کو ایک بالغ مرد دیکھتا ہے تو اُس کی فطری شہوانی خواہش میں شدیدہلچل پیدا ہوتی ہے اور وہ شدید ذہنی اور جذباتی ہیجان کا شکار ہو جاتا ہے۔
یہ چیز اگر عام ہو جائے تو فطرت کی عطا کی ہوئی شہوانی طاقت کا سیلاب باندھ توڑ کر انسانی آبادی میں داخل ہوتا ہے اور تباہی و بربادی مچادیتا ہے۔ پھر شیطان اپنا کار و بار شروع کرتا ہے۔ اگر نامحرم مرد اور عورت کو مسلسل ملاقات کا موقع ملے اور پھر تنہائی بھی میسر ہو جائے تو شیطان اپنا جادو جگاتا ہے اور آوارگی کا داغ دونوں کے دامن پر لگ جاتا ہے۔ یا تو یہ آوارگی مسلسل چلتی رہتی ہے یا کسی مجبوری یا سہولت مہیا نہ ہونے کی وجہ سے اس پرروک لگ جاتی ہے۔ یا تو اس شیطانی شہوانی فعل کا کوئی اثر عورت پر نہیں ہونے پاتا ہے یا کبھی کبھی عورت قانون فطرت کے مطابق پھل دار درخت بن جاتی ہے۔ مرد کو تو اس شیطانی عمل سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے لیکن عورت زندگی بھر کے لئے بدنامی کا داغ اپنے ماتھے پر لگا لیتی ہے۔ اگر اُس کو خود کشی کرنے کے متعلق معلوم نہ ہو کہ ایسا کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں جلتا رہے گا تو پھر وہ اپنی جان دے کر بے عزتی کی آگ میں جلنے سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتی ہے۔ ہر حال میں نقصان عورت کا ہوتا ہے۔
قدرت نے نسل انسانی کی افزائش کے لئے مرد اور عورت دونوں کے اندر شہوانی جذبے کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ ان پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ افزائش نسل کے لئے انسانوں، حیوانوں، پرندوں اور ہر طرح کے کیڑے مکوڑوں میں یہ جذبہ شدید ترین پایا جاتا ہے۔ جس طرح دریا کے سیلاب کو آبادی میں داخل ہونے سے بچانے کے لئے باندھ بنایا جاتا ہے، اُسی طرح اسلامی شریعت نے بھی اس طوفانی سیلاب پر باندھ بنانے کا پختہ انتظام کیا ہے۔شریعت سے بیزاری، دین سے دوری، اللہ کے غضب اور گمراہ قوموں کی نقالی اور اندھی پیروی کے نتیجے میں مسلم سماج نام کا تو مسلمان رہا لیکن اس کی پوری زندگی غیر مسلموں جیسی ہو گئی اور وہ اسی میں ترقی کرنے لگا۔ ہر مسلم خاندان کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا ہے کہ اُس کے لڑکے لڑکیاں اچھی ڈگری پائیں، اعلیٰ درجے کی نوکری ملے اور عیش و آرام کی زندگی گزاریں۔ اللہ کی رضا، نبیؐ کی محبت، آخرت کی فکر ،قبر کے عذاب اور جہنم کی آگ کا ذرا بھی ڈر اور فکر نہیں رہی۔جب مسلم لڑکیاں جوان ہو گئیں اور اُن کو شادی اور نکاح کی روشنی دور دور تک نہیں دکھائی دینے لگیں تو اُنہوں نے اپنے ہم سبق دوست لڑکوں سے عشق و محبت کی راہ اپنائی اور فطری شہوانی خواہش کی آگ کو ناجائز اور حرام طریقے سے بجھانے کا انتظام کر لیا۔ پھر یہ گمراہی اتنی بڑھی کہ اب ایمان اور کفر کا فرق بھی ختم ہو گیا۔ مسلم لڑکیاں بڑی بے باکی کے ساتھ غیر مسلموں کی دوست بن کر آوارگی کرنے لگیں اور اُن سے شادیاں بھی کرنے پر آمادہ ہو گئیں۔ پھر مسلم دشمن فرقے نے اپنے نوجوانوں کو ترغیب دی کہ مسلم لڑکیوں کو بہکا کر اُن سے شادی کرو، کچھ دن اُس کھلونے سے کھیلو پھر اُس کو یاتو ٹھکرا دو یا ایسے لوگوں کے ہاتھوں اُنہیں بیچ دو جو اُن سے کال گرل کا کام لیں۔ اس طرح یہ بدنصیب مسلم خاندان کی لڑ کیاںکٹی پتنگ بن گئیں جن کو لوٹنا اور اُڑانا تو سب چاہتے ہیں لیکن اس بد نصیب سے محبت اور ہمدردی کسی کو نہیں ہوتی۔ کٹی پتنگ اس لئے کہا گیا کہ ایسی لڑکیاں واپس اپنے گھر ،خاندان یا سماج میں نہیں جاسکتی ہیں۔یہ بے حجاب مسلم عورتیں پہلے بے حیا بنیں، پھر آوارہ بنیں اور پھر بد کار بن گئیں۔ان کے ایسا بننے میں صرف یہی قصور وارا نہیں ہیں بلکہ وہ نام نہاد مردوں کا طبقہ بھی ہے جس نے ایڈوانس منٹ کے نام پر اپنی عورتوں کو بے حجاب بنا یا۔ جب قوموں پر زوال آتا ہے تو سب سے پہلے عقل اور ہوش مندی سے محروم ہو جاتی ہیں۔ اُن کے اندر سے اچھے اور برے کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ پانی ہمیشہ اوپر سے نیچے آتا ہے نیچے سے اوپر نہیں جاتا ہے۔کسی بھی معاشرے میں برائی اور بدکاری سماج کے نیچے طبقے والوں سے اونچے طبقے میں نہیں پہنچتی ہے بلکہ اونچے طبقے کی گمراہیاں اور بد کاریاں نچلے طبقے تک آتی ہیں۔ فیشن کے شوقین اور اس کی پیروی کرنے والے اونچے طبقے کے لوگ ہوتے ہیں ۔ ان کی دیکھا دیکھی درمیانی اور نیچے طبقے کے لوگ بھی ان کے جیسا بننے کے شوق میںان کی اچھائیوں کو تو نہیں اپناتے لیکن ان کی برائیوں کو ضرور اپنا لیتے ہیں۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے سماج میں اونچا مقام عطا کیا وہ اپنے ذات سے درمیان اور نیچے کے حصے میں رہنے والوں کے رہبر اور مسیحا بننے کی جگہ اُن کے بد خواہ اور دشمن بن گئے۔فرعون نے جب دشمن قوم بنی اسرائیل کو مٹانا چاہا تو اُس قوم کے بچوں کو قتل کراتا تھا۔ دور جدید کے فرعونوں نے معاملے کو الٹ دیا ۔ انہوں نے کہا کہ مردانہ نسل کو قتل کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ مسلمانوں کی عورتوںکو برباد کر دو خود بہ خود ان کی نسل تباہ و برباد ہو جائے گی۔اور پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ صرف اپنے وطن میں نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلم ملکوں میں عورتیں کس طرح گمراہی کا شکارہو رہی ہیں۔ ایران جوکبھی اسلامی ملک کہا جاتا تھا وہاں کی عورتیں بے حجاب ہونے کے لئے احتجاج کر رہی ہیں۔ گویا اسلام دشمن شیطانی طاقتیں پوری دنیا میں مسلم سماج کو تباہ و برباد کرنے پر تلی ہوئی ہیں اور نادان بد عقل مسلمان اپنے دشمنوں کی سازش کو سمجھ کے اس کا مقابلہ کرنے کی جگہ اس کا شکار بن کر اپنی آنے والی نسل کو تباہ و برباد کرنے پر خوشی سے آمادہ دکھائی دے رہا ہے۔