خطرہ بنتا ای- کچرا

0

سشیل کمار سنگھ

ہماری زندگی کے ہر پہلو میں ٹیکنالوجی کا دخل بڑھتا جارہا ہے۔ اتنا ہی نہیں، تکنیک کی وجہ سے دنیا آسمان چھو رہی ہے۔ تہذیب اور تکنیک کی بے حد اونچائی پر پہنچی دنیا اب ای-کچرے سے پریشان ہے۔ دنیا میں جیسے جیسے الیکٹرانک مصنوعات کی ڈیمانڈمیں اضافہ ہورہا ہے، ویسے ویسے الیکٹرانک کچرا بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہم اپنے گھروں اور صنعتوں میں جن بجلی اور الیکٹرانک سامان کو استعمال کرنے کے بعد پھینک دیتے ہیں، وہی کباڑ ای-کچرے کے زمرے میں آتا ہے۔ عالمی ای کچرے کی حالت کے تعلق سے اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ 2019میں پانچ کروڑ 36 لاکھ میٹرک ٹن الیکٹرانک کچرا پیدا ہوا تھا۔ تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ 2030تک اس کی مقدار میں اضافہ ہوکر تقریباً ساڑھے7کروڑ میٹرک ٹن پہنچ جانے کا اندازہ ہے۔
پوری دنیا میں ای کچرے کو اگر براعظموں کی بنیاد پر تقسیم کرکے دیکھا جائے تو ایشیا میں 2 کروڑ 49لاکھ ٹن، امریکہ میں ایک کروڑ31لاکھ ٹن، یوروپ میں ایک کروڑ 20لاکھ ٹن اور افریقہ میں 29لاکھ ٹن ای کچرا ہر سال نکلتا ہے۔ آسٹریلیا میں اس کی مقدار 7لاکھ ٹن ہے۔ اندازہ تو یہ بھی ہے کہ ڈیڑھ دہائی کے اندر دنیا میں اس کی مقدار دوگنی ہوجائے گی۔ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں بجلی اور الیکٹرانک سامان آبادی کے ایک بہت بڑے حصہ تک ابھی پوری طرح پہنچا ہی نہیں ہے، باوجود اس کے 10لاکھ ٹن سے زیادہ کچرا ہر سال تیار ہورہا ہے۔ سینٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ کی دسمبر2020کی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے۔غور طلب ہے کہ ای کچرے کا مینجمنٹ ایک پیچیدہ عمل ہے اور بڑا چیلنج بھی۔ ہندوستان میں ای- کباڑ مینجمنٹ پالیسی2011سے ہی دستیاب ہے۔ 2016اور 2018میں اس کے دائرہ کو وسیع بھی کیا گیا تھا۔ مگرزمینی حقیقت یہ ہے کہ اس پر عمل کی حالت مایوس کن ہی رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والے کل ای کچرے کا محض5فیصد ہی ری سائیکلنگ مراکز کے ذریعہ پروسیسڈ کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے، باقی بچا ہوا 95فیصد ای کباڑ کا نمٹارہ غیررسمی سیکٹر کے حوالہ ہے۔
اس بات کا گہرائی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ای-کباڑ مینجمنٹ کو کیسے درست کیا جائے۔ دو ٹوک بات یہ ہے کہ اس کام میں غیرسرکاری تنظیموں کی مدد لینا مؤثر رہے گا۔ دیکھا جائے تو حکومت نے 2008میں عام کباڑ مینجمنٹ ضابطے نافذ کیے تھے۔ ان ضابطوں میں ای کچرے کے مینجمنٹ کے سلسلہ میں ذمہ داری سے کام کرنے کی بات بھی شامل تھی۔ حالاں کہ تب مسئلہ اتنا بڑا نہیں تھا۔ غورطلب ہے کہ ای-کچرا تب پیدا ہوتا ہے جب کسی سامان کا استعمال کرنے والا یہ طے کرتا ہے کہ اس سامان کا اس کے لیے کوئی استعمال نہیں رہ گیا ہے۔ موجودہ وقت میں ہندوستان میں 136کروڑ کی آبادی میں تقریباً 120کروڑ موبائل فون ہیں۔ جب یہ استعمال کے لائق نہیں رہتے تو ظاہر ہے ای کچرے کی ہی ایک شکل میں سامنے آتے ہیں۔ واضح رہے کہ ہندوستان میں 2025تک انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 90کروڑ ہوجائے گی۔ فی الحال یہ تعداد65کروڑ کے آس پاس ہے۔ ہندوستان میں ای-کچرے کی مقدار 2014 میں 17لاکھ ٹن تھی، جو اگلے ہی سال 2015میں 19لاکھ ٹن ہوگئی تھی۔ حوالہ میں شامل بات یہ بھی ہے کہ قومی ای-کباڑ قانون کے تحت الیکٹرانک سامان کا مینجمنٹ رسمی کلیکشن کے ذریعہ ہی کیا جانا چاہیے، کیوں کہ اس طرح کے اکٹھے کیے گئے کباڑ کو خصوصی پروسیسنگ سینٹر میں لے جایا جاسکتا ہے، جہاں اس کی ری سائیکلنگ کرتے وقت ماحولیات اور صحت کو بھی ذہن میں رکھنا ممکن ہے۔ حالاں اس معاملہ میں ہندوستان کی حالت خراب ہے۔ 2018 میں ماحولیات، جنگلات اور آب و ہوا میں تبدیلی کی وزارت نے ٹریبونل کو بتایا تھا کہ ہندوستان میں ای-کچرے کی 95فیصد ری سائیکلنگ غیررسمی سیکٹر کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، زیادہ تر کباڑی اس کا نمٹارہ اسے جلا کر یا تیزاب کے استعمال سے کرتے ہیں۔ دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ الیکٹرانک سامانوں کے سبب ہی ای گورننس کو طاقت ملتی ہے جو گڈگورننس کو بااختیار بنانے کے کام آتا ہے۔ مگر جب یہی الیکٹرانک سامان افادیت ختم ہوجانے کے بعد کوڑے دان میں ڈال دیے جاتے ہیں تو یہ ای کچرے کی شکل میں مصیبت کا سبب بن جاتے ہیں۔ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ہندوستانی الیکٹرانک سیکٹر نے اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں زبردست ترقی کی۔ 2004-2005میں 11.5ارب امریکی ڈالر سے یہ شعبہ 2009-2010 میں 32ارب امریکی ڈالر پر پہنچ گیا۔ غور طلب ہے کہ انہی دنوں میں الیکٹرانک سامان کے ملک میں پروڈکشن اور درآمد میں ہوئے اضافہ کے ساتھ ای کچرے کی بھی بہتات ہوگئی ہے۔ اسی وجہ سے اس شعبہ پر ریگولیٹری کنٹرول کی ضرورت محسوس کی جانے لگی اور ہندوستان میں ای-کچرا مینجمنٹ پالیسی 2011لائی گئی۔ترقی یافتہ ممالک میں دیکھا گیا ہے کہ ای کچرے کی ری سائیکلنگ کا خرچ زیادہ بیٹھتا ہے۔ ان ممالک میں ٹوٹے اور خراب آلات کے مینجمنٹ و نمٹارہ کے لیے کمپنیوں کو ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو منصوبہ بند تبدیلی کے ذریعہ ان سیکٹروں کو رسمی بنانے کی مسلسل کوشش کی گئی ہے۔ مگر زمینی سطح پر اس کوشش کے تعلق سے مشکلات ابھی بھی برقرار ہیں۔ دراصل ای کچرا کے نمٹارے سے منسلک مسائل میں کچھ اہم نکات پر گہرائی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس معاملہ میں پہلا ایشو تو قیمت کا ہے۔ ساتھ ہی رسمی مراکز میں ری سائیکلنگ کے مقابلہ میں غیرمنظم سیکٹر میں چلنے والے کچرا نمٹانے کے مراکز میں خرچ کم آتا ہے۔ ظاہر ہے ای کچرا ری سائیکلنگ چین کو بغیر مضبوطی دیے بغیر اس کباڑ سے نمٹنا ممکن نہیں ہے۔ ایسا کرنے کے لیے سخت نگرانی، تعمیل اور اس کی صلاحیت کے بہترین استعمال کے علاوہ عالمی تعاون کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ سینٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پورے ملک میں لاکھوں ٹن ای کچرے میں سے 3سے 10فیصد کچرا ہی اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اس کے نمٹارہ کا کچھ اخلاقی طریقہ بھی ہوسکتا ہے، جیسے ضرورت مندوں کو پرانا کمپیوٹر، موبائل یا دیگر الیکٹرانک سامان پھینکنے کے بجائے عطیہ کردینا یا پھر کمپنیوں کو واپس کردینا اور کچھ نہ ہوسکے تو صحیح نمٹارہ کی راہ تلاش کرنا۔ تذبذب والی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں سبزترقی کا تصور ابھی زور نہیں پکڑ پایا ہے، مگر ای کچرا پھیلتا جارہا ہے۔ آب و ہوا میں تبدیلی سے نمٹنے میں چیلنجز سامنے کھڑے ہیں۔ عالمی درجہ حرارت میں ہوئے مسلسل اضافہ سے دنیا نبردآزما ہے۔ مذکورہ تمام ایشوز سے ابھی گڈگورننس کی لکیر کھینچ پانے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ ای کچرا ماحولیات اور صحت کو نئے چیلنج کی جانب دھکیل رہا ہے۔ امکانات اور نقطہ نظر یہی بتاتے ہیں کہ زمین کو بطور ورثہ محفوظ رکھنے کی ذمہ داری سبھی کی ہے۔ تکنیک کے سہارے زندگی آسان ہونا 100ٹکے کا حوالہ ہے۔ مگر لاکھ ٹکے کا سوال یہ بھی ہے کہ روزانہ تیزرفتار سے پیدا ہورہا ای کچرا اسی آسان زندگی کو نئے مسئلہ کی جانب لے جانے میں کارگر بھی ہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS