پنکج چترویدی
ابھی تو ساون کی پہلی پھوار نے ہی زمین کو سیراب کیا تھا کہ گجرات اور مہاراشٹر پانی پانی ہوگئے۔ بلاشبہ گجرات کے شہروں میں ترقی اور شہرکاری اعلیٰ سطح کی ہے لیکن احمدآباد سے لے کر نوساری تک سب کچھ ایک برسات کی جھڑی میں ہی پانی میں دُھل گیا۔ مہاراشٹر کے وہ حصے جو ابھی ایک ہفتے پہلے تک ایک ایک بوند کو ترس رہے تھے، اب زیرآب ہیں۔ ان دونوں ریاستوں کے آبی زائچے دیکھیں تو لگتا ہے کہ قدرت چاہے جتنی بارش کر دے، یہاں کے آبی ذخائر انہیں سمیٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن اندھادھند ریت کی کان کنی، ندی کے علاقے میں تجاوزات، تالابوں کے گم ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں ہو پا رہا ہے اور ریاست کے چالیس فیصد حصے میں شہر میں ندیاں گھس گئی ہیں۔ اس سے بدتر حالات تو تلنگانہ اور آندھراپردیش کے ہیں۔ گوداوری ندی اب گاؤں-شہروں میں بہہ رہی ہے۔ جہاں آدھا ملک ابھی بارش کا انتظار کر رہا ہے، وہیں کچھ ریاستوں بالخصوص گجرات میں قدرت کی نعمت کہلانے والا پانی اب قہر بنا ہوا ہے۔ جب ڈیم کے گیٹوں سے بھاری مقدار میں پانی چھوڑا گیا تو گاؤں ڈوبے اور خاص طور پر گجرات میں تو جب ڈیم بھرگئے تو اس پانی کی پچھلی مار (بیک واٹر) سے بھی زبردست بربادی ہوئی۔
ذرا باریک بینی سے دیکھیں تو اس سیلاب کی اصل وجہ تو وہ ڈیم ہیں جنہیں مستقبل کے لیے پانی کو محفوظ رکھنے یا بجلی کی پیداوار کے لیے اربوں روپے خرچ کر کے بنایا گیا تھا۔ کہیں ڈیموں کی عمر پوری ہو چکی ہے تو کہیں سلٹیج ہے اور کئی جگہوں پر آب و ہوا میں تبدیلی جیسے خطرے کی وجہ سے اچانک تیز بارش کے انداز کے مطابق اس کا اسٹرکچر ہی نہیں رکھا گیا۔ جہاں جہاں ڈیم کے گیٹ کھولے جا رہے ہیں یا پھر زیادہ پانی جمع کرنے کے لالچ میں کھولے نہیں جا رہے، پانی بستیوں میں داخل ہو رہا ہے۔ املاک اور جانی نقصان کا حساب لگائیں تو پائیں گے کہ ڈیم مہنگا سودا رہے ہیں۔
سیلاب کی صورتحال پر تازہ رپورٹ کے مطابق اگر آسام اور شمال مشرقی ریاستوں کو چھوڑ دیں تو تقریباً ایک کروڑ لوگ سیلاب سے متاثر ہوچکے ہیں۔ صرف گجرات اور مہاراشٹر میں پانی بھر جانے سے مرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے زیادہ ہو گئی ہے۔ یہ اموات دراصل بستی میں پانی داخل ہونے یا تیز دھار میں پھنس جانے کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ ابھی تک سیلاب کی وجہ سے املاک کو پہنچنے والے نقصان کے صحیح اعداد و شمار سامنے نہیں آئے ہیں لیکن سرکاری املاک جیسے سڑکیں وغیرہ، کھیتوں میں خریف فصلیں، مویشی، مکانات وغیرہ کی تباہی کروڑوں میں ہی ہے۔ دادر نگر حویلی کی راجدھانی سلواسا میں مدھوبن ڈیم میں پانی کی سطح میں اچانک اضافہ ہونے سے تمام دروازے 4 میٹر کی اونچائی تک کھول دیے گئے اور ڈیڑھ لاکھ کیوسک پانی چھوڑا گیا۔ بعد میں اسے بڑھا کر دو لاکھ کیوسک کر دیا گیا۔ دمن گنگا ندی میں ڈسچارج بڑھنے سے کراڑ، رکھولی، کڑاچہ، سامرورنی، مساٹ، آملی، اتھال، پپریا، پاٹی، چچ پاڑہ، واسونا، دپاڑا، تیگھرا، واگدھرا، لواچھا میں ندی خطرے کے نشان پر بہہ رہی ہے۔ بھرکڈ پھلیا، اندرا نگر، باسیا پھلیا میں پانی بھرنے سے لوگ پریشان ہو گئے ہیں۔ مہاراشٹر کے سرحدی علاقے دودھنی، کونچہ، سندونی، ماندونی، کھیرڑی میں شدید بارش کی وجہ سے ساکرتوڑ ندی میں بھی طغیانی پر ہے۔ وستار کے میدانی کھیت تالاب بن گئے ہیں۔ گھروں کی چھت سے پانی ٹپک رہا ہے۔ کھانویل سے ماندونی، سندونی اور دودھنی، کونچہ تک گاوؤں میں لوگ کچے گھروں میں رہتے ہیں۔ ندی کے نشیبی علاقوں میں آباد بستیوں میں پانی جمع ہونے سے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اتھال میں دمن گنگا کے پانی کی سطح انتباہی سطح سے اوپر (30 میٹر اونچائی) پہنچ گئی ہے۔ ندی کے کنارے سوامی نارائن مندر کی طرف بنے شمشان گھاٹ میں پانی داخل ہو گیا ہے۔ ریور فرنٹ پانی میں ڈوبنے سے وہاں لوگوں کے جانے پر پابندی لگادی گئی ہے۔
مہاراشٹر کے بھنڈارا میں ایک طرف موسلادھار بارش ہو رہی ہے تو دوسری طرف لبالب بھر گئے ڈیم۔ یہاں گوسی خورد ڈیم کے 27، میڈی گڈا ڈیم کے65، اِرئی اور بیمبلا ڈیم کے دو دو دروازے کھول دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے متعدد ندی نالوں میں سیلاب آگیا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے سیکڑوں گاوؤں سے رابطہ ختم ہو گیا ہے۔ ہزاروں ہیکٹیئر رقبے پر فصلیں تباہ ہو گئیں۔ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر گڑچرولی کا سالانہ بحران بھی ندیوں کو باندھنا ہی ہے۔ ادھر سیرونچا تحصیل سے متصل تلنگانہ ریاست کے میڈی گڈا ڈیم کے85 میں سے 65 دروازے ایک ساتھ کھولنے کی وجہ سے گوداوری ندی کی سطح آب میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ اس ندی کے کنارے واقع سرونچا تحصیل کے درجنوں گاوؤں کے باشندوں سے محتاط رہنے کی اپیل مقامی انتظامیہ نے کی ہے۔ ساتھ ہی سیکڑوں گاوؤںکی بجلی کی سپلائی ٹھپ پڑی ہوئی ہے۔ گزشتہ تین دنوں میں گڑچرولی ضلع میں سیلاب کا قہر جاری ہے۔ نالوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہونے کے باعث ضلع کے سیلاب سے متاثرہ 11 گاوؤں کے 129 خاندانوں کے 353 افراد کو محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا ہے۔ ضلع میں مختلف مقامات پر کل 35 مکانات کے منہدم ہونے کی اطلاع ہے۔
چندر پور ضلع میں مسلسل بارش کی وجہ سے نشیبی علاقے زیر آب ہیں۔ ندی، نالوں میں طغیانی کی وجہ سے دھانورا-گڈچاندور، شیگاؤں-ورورا جیسے کئی راستے بند ہو گئے ہیں۔ اِرئی ڈیم کے دو دروازے کھول دیے گئے ہیں۔ وردھا ندی بھی لبالب ہوکر بہہ رہی ہے۔ ناسک شہر کے ڈوبنے کی وجہ شہر کو پینے کا پانی سپلائی کرنے والے گنگا ساگر ڈیم کے دروازے کھولنا ہی ہے۔ یہ ہے تو گوداوری پانی کے نظام کا ہی حصہ اور ادھر گوداوری جنوبی ریاستوں میں بھیانک شکل میں ہے۔(جاری)
[email protected]