بائیڈن کا دورہ: مشرق وسطیٰ میں نئی صف بندی کا اشارہ

0

صبیح احمد

امریکی صدر جو بائیڈن کا مشرق وسطیٰ کا حالیہ سہ روزہ دورہ تزویراتی طور پر کافی اہمیت کا حامل ہے۔ خصوصاً خطہ کے استحکام کے حوالے سے۔ امریکہ کے سکیورٹی مفادات کے پیش نظر ایران، ترکی، سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی کلیدی حیثیت ہے۔ خاص طور پر عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے رشتے کی خاص اہمیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر بائیڈن نے اپنے اسرائیل کے دورے کے آغاز میں امریکہ اور خطہ کے دیگر ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کوبہتر بنانے کی تقریب سے خطاب کے دوران خطہ کے استحکام پر یہ کہتے ہوئے خاص زور دیا کہ ’ہم خطہ میں اسرائیل کی شمولیت کو آگے بڑھاتے رہیں گے- عظیم ترین امن، عظیم تر استحکام، عظیم تر رابطہ۔ یہ اہم ہے، یہ خطہ کے تمام لوگوں کے لیے اہم ہے۔‘
جہاں تک ایران کے نیوکلیائی پروگرام اور سعودی عرب کی سکیورٹی کا تعلق ہے، ریاض اور یروشلم کے مفادات مشترکہ ہیں۔ اس ماحول میں صدر بائیڈن کی کوششوں سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات استوار ہونے کی سمت میں پیش رفت کے اشارے ملنے شروع ہو گئے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے اہم قدم سعودی عرب کی جانب سے اپنی فضائی حدود کو اسرائیلی طیاروں کی آمد و رفت کے لیے کھولا جانا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ علامتی طور پر اس کا آغاز خود امریکی صدر نے کیا۔ صدر بائیڈن کا طیارہ اسرائیل کی سر زمین سے پرواز کر کے راست طور پر سعودی عرب کی فضائی حدود میں داخل ہوا۔ یہ راست پرواز اس بات کا بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں ممکن ہے کہ اسرائیل سے مسلمان حج کے مقصد سے جب سعودی عرب جائیں تو ان کو بھی راست فلائٹ کی سہولت حاصل ہو۔ اسرائیل اس بارے میں پہلے ہی پیشکش کر چکا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے سعودی عرب جانے والی براہ راست پروازیں شروع کر سکتا ہے۔
اگرچہ صدر بائیڈن نے اب تک سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنے پراپنی توجہ مرکوز رکھی ہے مگر مشرق وسطیٰ کے اپنے اس پہلے دورے میں سابق صدر ٹرمپ کے دور کے منصوبہ ’ ابراہم ایکارڈ‘ یعنی ’ابراہیمی معاہدہ‘ کوآگے بڑھانا ان کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ امریکہ اگراسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارت کاری نہ بھی کرے تب بھی خطہ میں اپنی سلامتی، انٹلیجنس سپورٹ اورایران کے خلاف اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لئے سعودی عرب اور اسرائیل سے تعلقات مضبوط کرنے کے لیے ایک عرصہ سے کوششیں کر رہا ہے۔ دراصل اس دورے کا مقصد سستے تیل کی ترسیل نہیں بلکہ ’ابراہیمی معاہدہ‘ کی توسیع ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات بھی موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ صدر بائیڈن سعودی عرب سے بہتر تعلقات بنانا چاہتے ہیں۔ یہ تعلقات خاشقجی قتل کے کیس کے بعد سے شدید سرد مہری کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب دونوں کو ہی ایران سے خطرہ لاحق ہے۔ شاید اسی لیے ان دونوں ممالک کے مابین تعلقات استوار کرنے میں امریکہ اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ امریکی صدر نے سعودی ولی عہد اور دیگر اعلیٰ حکام سے جدہ میں ملاقات کے بعد خود بتایا کہ سعودی عرب اسرائیل سے آنے اور جانے والی تمام شہری پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود کھولنے اور یمن میں جنگ بندی میں توسیع پر بھی رضامند ہو گیا ہے۔ صدر بائیڈن نے اس اقدام کو سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کومستقبل میں معمول پر لانے کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا۔ ریاض اور یروشلم کے درمیان راست پروازوں کے لیے سعودی عرب کی رضامندی کو واشنگٹن کی اہم سفارتی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر پر صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے کو سعودی قیادت کے سامنے اٹھانے کے لیے خاصا دباؤ تھا۔ بائیڈن نے دوطرفہ بات چیت میں سب سے پہلے اسی معاملے کو موضوع بنایا۔ صدر بائیڈن نے مذکرات کی میز پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا اور سعودی قیادت کو ایسا واقعہ دوبارہ ہونے کے سنگین نتائج سے آگاہ بھی کیا۔
اہم بات یہ ہے کہ امریکی صدر کے دورے سے قبل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے خطہ کے مختلف ملکوں کا دورہ کیا ۔ خاص طور پر ترکی کا دورہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔ محمد بن سلمان کے دورے سے کچھ ہی دنوں پہلے ترکی کے صد ر رجب طیب اردگان نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ بائیڈن کے دورے سے قبل یہ سیاسی و سفارتی سرگرمیاں دراصل خطہ میں نئی صف بندی کی طرف ایک اشارہ ہے۔ سعودی ولی عہد کے علاقائی ممالک کے دورے کا مقصد یہ بھی ثابت کرنا رہا ہوگا کہ خطہ میں کوئی بھی سیاسی یا تزویراتی پیش رفت سعودی عرب کو نظر انداز کر کے نہیں کی جا سکتی۔ ’ایم بی ایس‘ کے اس طرح کے علاقائی دورے کی توقع پہلے سے کی جا رہی تھی لیکن اس وقت کے انتخاب کا تعلق ان کے 86 سالہ والد شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی بگڑتی ہوئی صحت سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔ بہرحال مصر، اردن اور ترکی کے دورے اہم علاقائی ملکوں کے ساتھ سعودی عرب کے تجارتی اور سیاسی تعلقات کی اہمیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ دورے کے دوران ایران کے ساتھ تعلقات، یمن کی صورت حال اور علاقائی دفاعی امور بات چیت کا حصہ تھے۔ محمد بن سلمان کے یہ دورے بائیڈن کے خطہ کے دورے اورایران کی جوہری صلاحیتوں پر بڑھتی ہوئی تشویش کے حوالے سے اور بھی زیادہ اہمیت اختیا کر گئے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بائیڈن کے ساتھ مذاکرات کی تیاریوں کے حوالے سے سعودی ولی عہد نے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی ہوگی کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ اس کے علاوہ بائیڈن کے آنے سے قبل ایک متفقہ موقف اختیار کرنے کے لیے بھی یہ دورے ہوئے ہوں گے۔
عرب ممالک کے لیے یہ بات اہم تھی کہ وہ ایرانی صورت حال، فلسطین جیسے اس وقت کے اہم مسائل کے بارے میں امریکہ کے سامنے ایک مشترکہ موقف رکھیں جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ نے عرب ممالک اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں پہلے سے موجود مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ان سب کے درمیان اصل مسئلہ صحافی کے قتل کا الزام تھا۔ ترک صدر اردگان کے حالیہ دورہ ریاض کے کچھ ہی دن بعدسعودی ولی عہد نے ترکی کا دورہ کیا۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ’انقرہ نے سعودی مخالف جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے کو دفن کر دیا ہے اوراب وہ سعودی عرب کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بہتر بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔‘ محمد بن سلمان کو معلوم تھا کہ بائیڈن صحافی قتل معاملے کو ضرور اٹھائیں گے۔ اس لیے انہوں نے مذاکرات سے قبل ترکی کو اپنے حق میں کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بائیڈن کے دورے سے قبل خطہ کے ممالک کے متفقہ موقف کو امریکی صدر کے سامنے پیش کرنے کے لیے بھی یہ دورے کافی اہم تھے۔ ادھر ترکی کے صدر کو بھی آئندہ صدارتی الیکشن اور ملک کی خستہ حال معیشت کے پیش نظر سعودی مدد کی اتنہائی ضرورت تھی۔ ایک طرف جہاں سعودی ولی عہد کو اپنے اوپر لگے قتل کے الزام کے دھبے کو صاف کرنا تھا، وہیں دوسری جانب ترک صدر اردگان کو اگلی مدت کا ر کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS