نصاب میں ترمیم: جب لگا کلیجہ پھٹنے۔۔۔ خیرات لگی ہے بٹنے

0

اے- رحمان

(گزشتہ سے پیوستہ)
تاریخ کے حوالے سے اسکولوں کے پہلے سے ہی تبدیل شدہ نصاب میں اب جو مثبت تبدیلیاں لائی گئی ہیں ان کی تفصیل میں جانے سے پیشتر دو اہم نکات کا ذکر ضروری ہے۔ اول یہ کہ آر ایس ایس کے ایجنڈے میں ہندو راشٹر کا آئین منو سمرتی کو قرار دیا گیا ہے جس میں معاشرے کی چار زمروں میں تقسیم لازمی ہے۔ ان چار زمروں کو ’ورن‘ سے موسوم کیا گیا ہے اور وہ ہیں (1) براہمن (2) کشتری (3) ویش اور (4) شودر (شودروں کے بھی چند ارزل تر طبقوں کا ذکر ہے لیکن وہ معاملہ ذرا تفصیل طلب ہے اور موجودہ موضوع کے تعلق سے زیادہ اہم نہیں )۔ منو سمرتی دو ہزار سال پرانی ہے، لہٰذا اس میں مسلمانوں یا کسی دوسرے مذہب کا ذکر نہیں پایا جاتا اور سارے کا سارا معاشرہ ’ہندو‘ سمجھا گیا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ منو سمرتی قانون الٰہی کا درجہ ہی نہیں رکھتی بلکہ ایک مخصوص ہندو عقیدے کے مطابق خالق کل نے بذات خود ظاہر ہو کر وہ قانون سنتوںکے توسط سے ان کو پہنچایا۔ (انسان سے مراد بھارت ورش کے انسان۔ بقیہ دنیا کے انسانوں کا اس میں کوئی ذکر نہیں)۔ منو سمرتی کی اس اہمیت کے پیش نظر ضروری تھا کہ اس کی تعلیم عام ہو اور معاشرے کی تشکیل اس میں مذکور ’ قانون‘ کے مطابق ہو۔
دوسرا اہم نکتہ ہے اسکولی نصاب کی اہمیت۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اوائل عمر یعنی اسکول کی سطح پر حاصل کی ہوئی تعلیم تمام زندگی کے لیے اساسی حیثیت رکھتی ہے۔ اسکول جانے کی عمر میں بچے کا ذہن حد درجہ جاذب (Impressionable) ہوتا ہے اور جو کچھ بھی نصاب کی کتابوں سے اس کو پڑھایا جاتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے ذہن پرنقش بر سنگ کی مانند کندہ ہو جاتا ہے۔ سائنس سے قطع نظر تین ایسے موضوعات ہیں جن کا علم زندگی کے تئیں انسان کا رویہ اور طرز فکر متعین کرتا ہے۔ وہ تین موضوعات ہیں مذہب، معاشرہ اور قانون ۔ منو سمرتی میں تینوں موضوعات کا احاطہ کرکے ’ہندو‘ معاشرے میں فرد کا مقام طے کر دیا گیا ہے۔ ہر ’ورن‘ سے متعلق حقوق و فرائض مذکور ہیں۔ یہ دیگر بات ہے کہ حقوق تقریباً تمام کے تمام صرف برہمنوں کو ودیعت کیے گئے ہیں جبکہ کشتری اور ویش کو زیادہ تر فرائض اور شودروں کے لیے بدترین درجے کی غلامی عائد کی گئی ہے۔ خلاف ورزیوں اور جرائم کے لیے تعزیرات بھی موجود ہیں۔
اب ہوا یہ ہے کہ منو سمرتی کے وجود میں آنے کے بعد یعنی پچھلے دو ہزار سال کے دوران پوری دنیا میں ہی نہیں بلکہ بھارت ورش میں بھی بڑے بڑے انقلابات آئے۔ بدھ ازم نے ’ ہندو دھرم‘ کا چہرہ اور کردار مسخ کر دیا۔ مسلمان اسلام لے کر وارد ہوئے جس نے معاشرے سے اونچ نیچ اور چھوٹے بڑے کی تفریق مٹا دی۔ مغلوں نے ثقافت اور معاشرتی رویوں کو انتہا درجے متاثر کیا اور تبدیل بھی۔ اس کے بعد انگریزآئے او رمعاشرتی ہی نہیں سیاسی ماحول بھی کچھ کا کچھ ہو گیا۔ ہندو مہا سبھا اوربعد کو آر ایس ایس کی بنیاد انگریزوں کے زمانے میں ہی اس وقت پڑ گئی تھی جب تقریباً بیس پچیس سال سے کٹر متعصب بنگالی ہندوؤں نے ’کھوئی ہوئی ہندوشناخت‘ کی بازیابی اور نشاۃ ثانیہ کا راگ چھیڑ رکھا تھا، لہٰذا ہندو راشٹر کا تصور قائم کیا گیا اور اس کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کی ابتدا ہو گئی۔ بدھسٹ، جین، سکھ اور عیسائیوں کے علاوہ ہندو راشٹر کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھے گئے مسلمان۔ آزادی کے فوراً بعد ہی آر ایس ایس نے خفیہ طورپر لیکن منظم طریقے سے مسلم مخالف کارروائیاں شروع کر دی تھیں۔ پہلے شاکھاؤں میں اور بتدریج آر ایس ایس کے ذریعے چلائے جا رہے تعلیمی اور دیگر اداروں میں اسلام اور مسلمانوں خصوصاً گزشتہ مسلم حکمرانوں کے خلاف باضابطہ پرو پیگنڈہ کیا جانے لگا۔ کئی صوبوں خصوصاً گجرات کے ابتدائی اور ثانوی سطح کے اسکولی نصاب میں مغلوں اور خاص طور سے اورنگ زیب کے خلاف اسباق شامل کیے گئے جو حقیقی تاریخی واقعات کا ابطال کرتے تھے۔ شودروں یعنی دلتوں کے خلاف تو عام ہندو معاشرے میں ان کے درجے اور مقام کے تعلق سے ایک طے شدہ نظریہ اور رویہ پہلے سے موجود ہی تھا اور وہی اسکولوں کے نصاب کا حصہ چلا آ رہا تھا لیکن ابھی دو ہفتے قبل د ونہایت غیر متوقع اور حیرت انگیز واقعات رونما ہوئے ۔ ایک تو آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں ذات پات کی اونچ نیچ اور درجہ بندی ایک برائی ہے جو ’وکاس‘ کی نفی کرتی ہے ( یہ بیان بذات خود منو سمرتی کی روح اور بنیادی ہدف کے خلاف ہے)، دوسرا یہ کہ قومی انگریزی روز نامہ ’ انڈین ایکسپریس‘ نے چند روز قبل ہی کئی قسطوں میں ایک مفصل تفتیشی رپوٹ شائع کی جس میں بتایا گیا ہے کہ اسکولوں کے نصاب میں شامل تاریخ اور سوشل سائنس کی کتابوں سے دلتوں اور مسلمانوں کے خلاف اہانت آمیز عبارات کو حذف کیا جا رہا ہے۔ اخبار ہذا نے محذوفات کی ایک طویل فہرست بھی شائع کی ہے جس میں مسلم حکمرانوں بشمول اورنگ زیب کے بارے میں متعصبانہ تنقید شامل ہے (یعنی اسے حذف کر دیا گیا ہے)۔ اب اس انقلاب کا سبب دیکھیے۔ بی جے پی رہنمایان نوپور شرما اور نوین جندل کے ذریعے رسول اسلام ؐکی شان میں گستاخانہ بیانات دیے جانے کے رد عمل کے طور پر عالم اسلام کی سب سے بڑی تنظیم OIC نے سخت احتجاج درج کیا بلکہ قطر، کویت، ایران اور سعودی عرب جیسے ممالک نے کڑے الفاظ میں مذکورہ گستاخی کی مذمت کرتے ہوئے ہندوستان پر بعض پابندیاں عائد کر نے کی دھمکیاں تک دے ڈالیں۔ یہی رد عمل اقوام متحدہ کی جانب سے ہوا اور امریکی کانگریس (پارلیمنٹ) کی ایک خاتون رکن نے تو ایوان کے سامنے ہندوستان میں اسلام اور مسلمانو ںکے خلاف ہو رہی کارروائیوں اور ظلم کے خلاف مذمت کی قرار داد پاس کرنے کے لیے تجویز تک پیش کر دی۔ عالمی سطح پر اتنا شدید رد عمل دیکھ کر قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کو کہنا پڑا کہ نوپور شرما وغیرہ کے بیانات سے دنیا بھر میںملک کی شبیہ مجروح ہوئی ہے۔ غرض یہ کہ فوری طور پر مطلوبہ ’مرمت‘ کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔ عجلت میں کی گئی مرمت کو لیپا پوتی کہا جاتا ہے،خصوصاً اس صورت میں جب اپنے جرم یا قصور سے جائے فرار ممکن نہ ہو۔ ’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع کی گئی تفصیلات مظہر ہیں کہ تیس چالیس کے قریب ایسی عبارات جن میں دلتوں کو معاشرے کے ارذل ترین طبقے کی حیثیت سے پیش کیا گیا تھا، حذف کر دی گئی ہیں۔ اسی طرح مغلوں اور چند دیگر مسلم حکمرانوں کے بارے میں متعصبانہ اور غیر تاریخی تبصرے نکال دیے گئے ہیں۔پچھلے چند روز سے یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ حکومت اور بی جے پی کی اہم شخصیات نے عوامی گفتگو اور تقاریر وغیرہ میں سیکولرازم اور جمہوریت کی دہائی دی ہے۔اور یہ سب صرف اس لیے کیا جا رہا ہے تا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر پہچان رکھنے والے اس ملک کی عالمی شبیہ برقرار رہے۔۔۔۔کم از کم اس وقت تک جب تک ہندو راشٹر کا خواب حقیقت میں نہیں بدل جاتا لیکن حالیہ عالمی رد عمل کو دیکھتے ہوئے تو یہ ناممکن سا ہی نظر آتا ہے کیونکہ اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کے خلاف پورے ملک میں پھیلائی گئی نفرت کا دنیا نے نہ صرف نوٹس لے لیا ہے بلکہ اس کے خلاف بین الاقوامی احتجاج کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اب مسلمانوں کے تئیں حکومت کے رویے پر دنیا کی نظر بھی رہے گی اور نگرانی بھی۔ مسلم ممالک کی ایک ہی گھڑکی نے بڑا کام کر دیا۔ غالب کے الفاظ میں : دھمکی میں مر گیا جو نہ بابِ نبرد تھا۔
[email protected]

ہمارے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 bit.ly/35Nkwvu

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS