محمد صالح انصاری
لفظ مسلمان آتے ہں یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ آج کے دور میں مسلمانوں کی حالت بہت خراب ہے ہر جگہ پستی و بدحالی کا شکار ہیں ہر مسلم ممالک امن کی تلاش میں ہے لیکن امن نصیب نہیں ہو رہا ہے سال دو سال یا دس سال کا وقفہ بھی ٹھیک سے نہیں گزرتا کہ کوئی نہ کوئی آفت ہمارے گھر پر دستک دے دیتی ہے اور ہم پھر سے صدیوں پیچھے چلے جاتے ہیں۔
دنیا کے کونے کونے میں نظر دوڑائیے اور دیکھیے کہ کس ملک کا مسلمان سکون میں ہے اور چین کی سانس لے رہا ہے۔ آپ کو حیرانی ہوگی کہ کوئی سکون میں نہیں ہے یہاں تک کی خود کو اسلامی ملک کہلانے والے ممالک بھی خود کے قدموں پر نہیں کھڑے ہیں بلکہ تیزی سے بدلتی دنیا اور جدیدیت کے دور میں ہر ملک غلامی اور معاشی نظام کے چنگل سے گھر چکا ہے۔
پھر ذرا خیال کریں وہ کون لوگ تھے جنہوں دنیا کو نیا سبق پڑھایا نئے پیغام کا درس اور نیا ذہن دیا۔
وہ لوگ جو سمندر کا سفر تک کرنا گناہ سمجھتے تھے آج سمندر کے بادشاہ بن بیٹھے ہیں اور جنہوں سمندروں میں گھوڑے دوڑائے وہ مظلوم بنے ہوئے ہیں۔ جنکی حکومتیں محض چند حصوں میں محصور تھیں وہ دنیا کے سپر پاور بنے گھوم رہیں ہیں یا یوں کہیں کی پوری دنیا اُنکے قبضہ میں ہے جبکہ دنیا کے کئی براعظم پر حکومت کرنے والے غلامی اور محکومی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جن کے ظلم اور زیادتیوں کے قصہ دنیا میں مشہور ہیں دنیا پھر سے کیوں اُنکے چنگل کو خوشی خوشی تسلیم کر رہی ہے اور انصاف کی مثالیں قائم کرنے والوں کو دنیا دہشتگرد تسلیم کرتی ہے۔
دنیا کے سامنے دو متبادل نظام ہونے کے بعد بھی دنیا ظلم و زیادتی کرنے والوں کو کیوں پسند کر رہی ہے۔
دو وجوہ ہو سکتے ہیں یا تو انکو اس نظام میں رہنے کی عادت ہو گئی ہے یا پھر اُسکے متبادل کوئی اور بہتر نظام انکو مل نہیں رہا ہے۔ میری سمجھ میں جو بات آتی ہے وہ یہ ہے کہ انکو یہ نظام جس میں یہ رہ رہے ہیں انکو بلکل پسند نہیں ہے اور اُسکے متبادل انکو کوئی نظام دکھ بھی نہیں رہا ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ اسلام جیسا آسان دین مذہب تو ہے جو باطل کے نظام سے بہتر اور فطری بھی ہے پھر بھی لوگ کیوں اُسکی طرف نہیں آ رہے۔
آپ کا نظریہ بلکل درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کہاں ہیں اور ہمارا نظام کہاں ہے؟
ہندوستان جیسے سر زمین کی مثال لے لیجئے یہاں پر جب مسلمان آئے تو یہاں کے لوگوں کا حال بہت برا تھا حکومتیں کئی کئی حصوں میں تقسیم تھیں، عوام سے کوئی خاص مطلب نہیں ہوتا تھا معاشی نظام پوری طرح درہم برہم تھا لوگوں کا پیسہ مذہبی گھروں میں جمع ہو چکا تھا فلاحی کام بند تھے اور حکومتیں بس اپنے محلوں تک محدود تھی لیکن جب مسلمان یہاں آئے تو حالات بدلے اور فلاحی کام شروع ہوئے عوام کو ایک نظام ملا جو انصاف پر مبنی تھا بادشاہ عوام کے مسائل کو سنتا اور جانتا تھا سڑکوں کی تعمیر ہوئی تعلیم کے انتظامات سب کے لیے کیے گئے عوام کی حفاظت کے لیے انتظامات کیے گئے وغیرہ وغیرہ۔
ان سب کاموں کی وجہ سے ہندوستان میں مسلمانوں نے ایک لمبے عرصے تک حکومت کی۔ لیکن پھر جب اخلاقی پستی کا دور آیا تو ہمارے ہاتھ سے حکومت پھر چلی گئی اور ہم پھر مظلوم بن گئے۔
تاریخ سے ہم کو سبق لینے کی ضرورت ہے یاد رکھیے دنیا میں جتنی بھی قومیں غالب آئی ہیں اُسکی صرف ایک وجہ تھی کی اُنکے پاس دنیا کو دینے کے لیے بہت کچھ تھا اور لینے کے لئے کچھ بھی نہیں۔ اگر ہم پھر سے حکومت کرنا چاہتے ہیں اپنی کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں دنیا کو دینے والا بننا ہوگا دنیا کو ترقیوں کی منزل دکھانے والا بننا پڑےگا۔ اسکے لیے ہمیں ایک ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کرنا ہوگا تعلیم کے میدان میں سیاست کے میدان میں فلاحی کاموں کے میدان میں، ہر میدان میں ہمیں دنیا سے آگے جانا ہوگا اور خاص کر بدلتے دور میں جدید ٹیکنالوجی کو اپنے قبضہ میں لینا ہوگا۔ جس دن ہم ان میدان میں کامیاب ہو گئے تو ہم کامیاب ہو جائیں گے اور نیا زمانہ اور نیا مقام نئے مثال کے ساتھ قائم ہو جائیگا۔